بسنت کے نام پر خونی کھیل کی اجازت !
پتنگ بازی کو انسانی جان سے کھیلنے کا کھیل یا کرتب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، اس کے باوجود بسنت کے نام پر اس ہولناک کھیل کو عام کرنے کی روایت بڑھتی ہی جارہی ہے، ہر سال کئی لوگ پتنگ کی گلے میں ڈور پھرنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار تے رہے ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ سامنے آتی رہی ہے ،بسا اوقات پتنگ بازی کے شوقین افراد خود بھی چھت سے گر کر یا پتنگ پکڑنے کے چکر میں بھی اپنی جان گنوا بیٹھتے رہے ہیں،اس پرستم ظریفی یہ ہے کہ اس پر پا بندی لگنے کے باوجود ایک مخصوص طبقہ پابندی کے خلاف رہا ہے اور اس کو تفریح کا درجہ ہی دیتا آرہاہے، جبکہ پتنگ بازی دینی، اخلاقی یا قانونی طور پر ناقابل معافی جرم ہے،اس پر علمائے کرام کا فتویٰ بھی آیا ہے کہ جس کے تحت پتنگ بازی کو غیر شرعی کھیل قرار دیا گیا ہے، عوام کی اکثریت بھی پتنگ بازی سے تنگ ہے، لیکن اشرافیہ کی دلجوئی کیلئے بسنت کے نام پر خو نی کھیل کھیلنے کی اجازت دی جارہی ہے۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ آخر پتنگ بازی کا دلچسپ مشغلہ ایک خونیں کھیل کیسے بن گیا؟ آخر کیوں پتنگ بازی سے انسانی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آنے لگی ؟ صرف دو دہائی پہلے تک پتنگ بازی اور بسنت کو ایک ثقافتی کھیل کا درجہ حاصل تھا،پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماہِ فروری کی آمد کے ساتھ ہی بہار کے استقبال اور بسنت منانے کیلیے بطور خاص پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف اس پر پا بندی لگائی گئی ، بلکہ اس کھیل کو ”غیر شرعی” بھی قرار دیا جانے لگا،اس پر کئی غیر قانونی طریقوں اور پتنگ اڑانے میں استعمال کی جانے والی غیر قانونی ڈور کے استعمال نے بھی پابندی کی راہ ہموار کی ہے،اس پرپا بندی کے باوجود خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے
اور یہ خلاف ورزیاںکرنے والے عام سے زیادہ خاص حلقے ہی رہے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران پتنگ ساز مافیا ز ہی بسنت پر عائد پابندی کو خاطر میں نہیں لاتا رہا ہے ،جبکہ اس تہوار کو سرکاری سطح پر بھی کبھی جشنِ بہاراں اور کبھی کسی دوسری شکل میں منانے کی کوششیں جاری رکھی گئی ہے ، اس کا ہی تسلسل ہے کہ اس بارصوبہ پنجاب میں ’محفوظ بسنت‘ کی مشروط اور محدود اجازت کے حوالے سے سیکرٹری داخلہ کے زیر صدارت اجلاس کی خبریں بڑی تعجب خیز آئی ہیں
،اس اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کی ہی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ جشن بہاراں کے دوران ثقافتی سرگرمی کے طور پر ’محفوظ بسنت‘ کی اجازت دی جا سکتی ہے‘اس کیلئے این او سی‘ حفاظتی اقدامات کا بیان حلفی‘ پتنگ فروشوں کی رجسٹریشن وغیرہ زیر غور ہیں،اس خو نی کھیل کو کیسے محفوظ بسنت کے نام پر زیر غور لایا جاسکتا ہے ؟اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ، لیکن ایسا کچھ کر نے سے پہلے ،اس کے عوامل پر بھی غور خوض ضرور کر نا چاہئے،اس ثقافتی تہوار سے پتنگ بازی کے خونیں کھیل بننے اور اس پر پابندی لگنے تک کی ایک پوری تاریخ ہے‘ جو کہ عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی ہے
،اس لیے مخصوص علاقوں میں مشروط اجازت سے پتنگ بازی کو محفوظ بنانا کارِ محال ہے،بسنت کی کٹی ہوئی پتنگ نہ تو کسی علاقے کی پابند رہتی ہے نہ ہی پتنگ کی ڈور کسی انسان کے گلے کی رعایت کرتی ہے ،سائکل سوار اورموٹر سائیکل سوار کی شہ رگ کاٹنے کیلئے عام مانجھا لگی، ہلکی ڈور بھی کافی ہے، لیکن اس کی افسر اشرافیہ کو کوئی فکر نہیں ، کیو نکہ پتنگ کی ڈور غریب کے بچے کے ہی گلے پر چلتی ہے اور غر یب ہی اس خونی کھیل کا شکار بنتا چلا آرہا ہے ، اس لیے اشرافیہ محفوظ بسنت کے نام پر اجازت دینے پر زور دیے رہی ہے اور اس اشر افیہ کو ہی خوش کرنے کیلئے حکو مت بھی غور و فکرکررہی ہے ۔
اگراس خونیں کھیل سے کسی بھی نام سے ایک بار پابندی ہٹ گئی تو پھر دھاتی تار‘ تیز دھار ڈور اور دیگر کی روک تھام ممکن نہیں ہو پائے گی ،جبکہ اس کے ساتھ ہی اونچی آواز میں گانے بجانے‘ ہوائی فائرنگ‘ ہلڑ بازی اور چلتی ٹریفک میں سڑکوں پر پتنگ لوٹنے کا سلسلہ بھی لوٹ آئے گا، جو کہ بڑی جد وجہد کے بعد بڑی مشکل سے رک پایا ہے ،ہمارا بجلی کا ترسیلی نظام بھی پتنگ بازی سے ہونے والے نقصانات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے،
اس پتنگ بازی پر ایسے ہی پابند ی نہیں لگی تھی ، اس پتنگ بازی پر پابندی کے پیچھے بڑی ٹھوس وجوہات تھیں‘ اگر اس کی ایک بار اجازت دے دی گئی تو اس خونی کھیل سے جُڑی سبھی خرابیوں کا فلڈگیٹ کھولنے کے مترادف ہو گا،اس بسنت کے خو نی کھیل کو ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر کھیلنے کے بجائے مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف توجہ دینی چاہیے،لیکن اس ملک کی شرافیہ بضد ہے کہ پنجاب حکو مت سے محفوظ بسنت کے نام پر خونی کھیل کی اجازت تولے کر ہی رہے گی ۔