74

پر تشدت رجحانات کا خاتمہ !

پر تشدت رجحانات کا خاتمہ !

سوسائٹی میں امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو اور کسی بھی جماعت گروہ یا فرد کو قانونی طور پر اجازت نہ دی جائے کہ وہ اسلحہ کا استعمال کرے یا روزمرہ کی زندگی میں تشدد پر عمل کرے، لیکن یہ سب کچھ ہورہا ہے اور اس کے ہی باعث معاشرہ افرا تفری کا شکار ہوتا جارہا ہے، اس کاسد باب کر نا حکو مت کی ہی ذمہ داری ہے اور حکو مت نے تشدد اور خون ریزی کی سیاست کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنے اور ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اہم اقدامات کا اعلان کردیاہے، حکومت نے واضح کر دیا کہ ریاست کا ہدف فساد ہے، کوئی مذہبی جماعت یا عقیدہ نہیں ، کارروائیاں صرف ان کے خلاف ہی ہو گی، جوکہ امن برباد کرنے کی تاریخ کے حامل ہیں۔
یہ ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے ، یہ ریاستی و حکومتی نظام کاہی شاخسانہ ہے ،اس ملک میں انتہا پسندی کو بطور پالیسی استعمال کیا جاتارہاہے، اس لیے ہی آج پورا معاشرہ اس مرض کا شکار ہے تو اس کی وجوہات بھی سسٹم کے اندر ہی تلاش کرنے اور اس کاسد باب بھی سسٹم کے اندر سے ہی کرنے کی ضرورت ہے ،اس مرض کی جڑیں انتہائی گہری ہیں اور اس کے تدار کیلئے آج بھی پرانی حکمت عملیوں کو ہی اختیار کیاجارہاہے،ایک طرف ہم مہذب بنیادوں پر سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ہماری حکمت عملی لڑو اور لڑائوکی بنیاد پر چل رہی ہے،اس میں جب معاملات زیادہ بڑھنے لگتے ہیں تو پا بندیاں لگائی جاتی ہیں ، کیا بزور طاقت اور پا بندی لگانے سے معالات درست ہو جائیں گے ، اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم سیاسی مسائل سیاست کے ذریعے حل ہی نہیں کر پا رہے ہیں؟
ہردور قتدار میں اپنے مخالف کو بزور طاقت دبابے اور دیوار سے لگا نے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ، اس درحکو مت میں بھی وہی روایت دہرائی جارہی ہے ،پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے ،اس پرپی ٹی آئی مخالف قوتیں یا تو خوش ہیں یا خاموش اور ان کا مذمتی پہلو کہیں بھی نظر نہیں آرہاہے، ماضی میں پی ٹی آئی نے بھی اس طرز کی پالیسی اختیار کی اور مخالفین کے خلاف جو کچھ کیا گیا، اس کا اپنے تئیں جواز پیش کیا جاتارہا ہے، وہ بھی قابل گرفت تھا اور اس وقت جو کچھ ہورہا ہے ،وہ بھی قابل گرفت ہے ،لیکن ہم اس پر بھی ایک آواز ہونے کے بجائے سیاسی طور پر تقسیم ہوجاتے ہیں،ہم نے پی ٹی آئی پرسیاسی تقسیم دیکھی اور اب تحریک لبیک پر بھی سیاسی تقسیم دیکھائی دیے رہی ہیں

،اس تقسیم سے نکلنا ہو گا اور ایک آواز ہو کر غلط کو غلط کہنا ہو گا ۔یہ ٹی ایل پی نامی مذہبی جماعت کیسے بنی اور اس کی پشت پناہی کون کرتا رہا ہے ،یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،اس پشت پناہی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج سب کے گلے پڑی ہوئی ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برس کے دوران ٹی ایل پی کے پُرتشدد مظاہروں میں 11پولیس اہلکار شہید اور 69مستقل طور پر معذور ہو گئے ،

جبکہ 16شہری بھی اپنی جانوں سے گئے، یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ پُر تشدد عناصر نے مذہب کے نام پر عوام اور اداروں کو یکساں طور پر نشانہ بنایا، ان مظاہروں میں 97 پولیس گاڑیاں مکمل تباہ اور دو نذرِ آتش کی گئیں، جبکہ دس عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا،یہ سب کچھ ایسے مطالبات کی منظوری کیلئے کیا گیا، جو کہ اکثر سیاسی یا وقتی نوعیت کے تھے‘ نہ کہ کسی حقیقی عوامی مفاد کیلئے تھے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس انتہا پسندی نے سماجی ہم آہنگی اور قانون کی بالادستی کو سخت نقصان پہنچایا ہے،ریاست کو ایسے گروہوں کے سامنے نرم گوشہ رکھنا چاہئے تھا نہ ہی دکھانا چاہیے، جوکہ عوامی جان و مال سے کھیل کر اپنے مطالبات منوانے کی روش اختیار کریں،مذہب کے تقدس کو سیاسی مفادات کیلئے ڈھال بنانا ناقابلِ قبول ہے، بلکہ پورے معاشرے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے ،اب وقت آ گیا ہے

کہ ریاستی رِٹ کو پوری قوت کے ساتھ بحال کیا جائے، اب پنجاب کابینہ نے اس جماعت پر پابندی کی سمری وفاقی حکومت کو ارسال کر دی ہے، احتجاج ہر شہری کا حق ضرورہے، مگر جب وہ تشدد میں بدل جائے تو اسے قانون کے شکنجے میں آنا چاہئے ،ملک اب مزید کسی تشدد کی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ،اس لیے مذہب کے نام پر انتشار پھیلانے والوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہی پائیدار امن اور مستحکم ریاست کی ضمانت بن سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں