53

127 کروڑ کے بھارت کے کم و بیش 30 کروڑ ہم مسلمانوں کیلئے شرم کی گھڑی

127 کروڑ کے بھارت کے کم و بیش 30 کروڑ ہم مسلمانوں کیلئے شرم کی گھڑی

نقاش نائطی
۔ +966562677707

باتیں تو ہم بڑی بڑی کرنے کے عادی ہیں لیکن عملی میدان میں جب چار پیسے دینے کی بات آتی ہے تو ہر کوئی بغلیں جھانکتا پایا جاتا ہے، الجبیل سعودی عرب کے ہمارے ہوٹل، سی شور میں، میڈیا اہمیت اہنے پروگرامات کے تسلسل کی چوتھی کڑی کے طور، آئی پلس ٹی وی کے محترم زید پٹیل کے اعزاز میں،جب ہم نے ایک شاندار میڈیا آگہی پروگرام منعقد کیا تھا تو الجبیل میں مصروف تجارت ایک ساتھی نے، بھارت میں آزاد میڈیا ھاؤس نیوز چینلز قائم کرنےکے لئے، اپنے طور خود سے کروڑ روپے دینے کی بات کی تھی،

لیکن محترم زید پٹیل کے دعوتی چینل کی مدد کے لئے، نقد رقم ہزاروں ریال سے آگے نہیں بڑھ پائی تھی آج یہ سن کر انتہائی افسوس ہوا کہ ساڑھے چار سال تک دعوتی نشریات ہی کے لائسنس سے، اپنی مفید تر نشریات سے، سوا دو کروڑ بھارتیہ گھروں میں دیکھا جارہا آئی پلس دعوتی چینل ،وہ بھی اپنی نشریاتی فیس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے، وقتی طور بند کردیا گیا ہے۔ یہ مضمون تو 2020 کرونا بعد کے ایام میں قلمبند کیا گیا تھا۔ لیکن ابھی گذشتہ ہفتہ اکتوبر 2025 کی شام ، مالیگاؤں اردو اخبار نعمانی ایکسپریس کے ایڈیٹر عبدالخالق صدیقی جو کچھ سال پہلے تک ، ہمارے مضامین باقاعدگی کے ساتھ اپنے اخبار میں شائع کیا کرتے تھے، جو اب سال ڈیڑھ سال سے، ان سے تعلق لاسلکی منقطع رہنے کی وجہ، اخبار چھپ بھی رہا ہے یا نہیں معلوم،نہیں ہورہا تھا، وقت وقت سے، ان سے لاسلکی تعلق کی تمام کوششیں بے سود جارہی تھیں، سال ڈیڑھ سال بعد، ان سے تعلق قائم کرنے کی ہماری کوشش پر، اچانک ان سے لاسلکی ہی ملاقات پر، یہ افسوس ناک خبر ملی کی کہ انکے اردو اخبار کے لئے اشتہارات ملنا کم ہونے کی وجہ سے، گویا ہم اردو قارئین کے، اردو اخبارات جاری رکھنے، ہماری بے توجہی کی وجہ سے، اچھا خاصہ مہاراشترا کے اردو قارئین تک اردو ادب کی لؤ جلائے رکھنے والا اردو اخبار نعمانی ایکسپریس، عارضی طور بند کرنے،انہیں مجبور ہونا پڑا ہے۔

جب وہی اخبار بڑے ہی طمطراق سے نکلتا تھا تو انکے قریب کے لوگوں نے، طباعتی کوتاہیوں لغزشوں پر،انکی بے تحاشا سرزنش کی ہونگی لیکن انکی اپنی معشیتی مجبوریوں سے، عوامی تعاون فقدان باعث اخبار کو زندہ و تابندہ رکھنے انکی ناکامیابی پر، ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود کسی اردو قاری نے، یا علاقے کے کسی شرفاء تونگر نے، نعمانی ایکسپریس اخبار، آخر کیوں کر بند ہوا؟ یہ خالد صدیقی صاحب سے پوچھنےیا جاننےکی کوشش یاضرورت محسوس کی ہوگی؟نعمانی ایکسپریس ہی نہیں، دہلی سے طبع و نشر ہونے والے مشہور ہفتہ نئی دنیا سمیت، پتا نہیں کتنے اردو روزنامہ سہ روزہ، ہفتہ وار اخبارات و ماہنامہ اس کورنا وبا بعد بندہوگئے ہیں۔

اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ ہے ہم مسلم امہ کا سلوک ناروا، اردو میڈیا تعلق سے،شام والے توضیع اوقات برگر پیزا یا بروسٹیڈ پارٹیوں پر ہزاروں اڑانے والے ہم مسلمان اردو میڈیا ہاؤس کے لئے چندہ مانگنے ان متوسط مسلمان و امراءشرفاء تک کسی طور پہنچنے کامیاب بھی ہوجائیں، تو اپنے طور،جداجدا میڈیا ہاؤسز چلانے کی سکت رکھنے والے امراء و شرفاء بھی ہزار تاویلات دئیے، اپنی معشیتی پریشانیاں کو اجاگر کرتے پائے جائیں گے

شاید اسی لئے، سرزمین کلکتہ سے مشہور تعلیمی این جی او چلانے والے،ولی رحمانی جونئر نے، اپنے ادارے کےاسکول و کالج کی تعمیر کے لئے انہیں درکار سات کروڑ روپئیے امراء و شرفاء سے وصول کرنے، اپنی چپلیں گھسوانے کےبجائے، غریب بچوں کی عمدہ معیار تعلیم تربیت کے لئے، سائبر میڈیا مادھیم سے،غریب مسلم امہ سے فی کس صرف سو روپئیے کی درخواسٹ کی تھی اور بھارت کی مسلم غریبوں نے،اتنی خوش دلی سے، انکی مدد ونصرت کی تھی کہ صرف سات دنوں میں رہکارڈ ساس سات کروڑ وصول پانے کی خوشخبری سناتے ہوئے، ولی رحمانی جونیئر نے، غریب مسلم امہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے،

مزید رقم نہ بھیجنے کی التجا انہیں کرنی پڑی تھی۔یہاں ایک سچا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے،تونگر شرفاء کا انکے پاس وصولی کے لئے، آنے والوں کے ساتھ سلوک خیر کہ سلوک ناروا کا احساس ہوتا ہے۔ خلیج سے وقتی گاؤں آئے ایک تونگر سے بعد نماز،مسجد کے ایک ذمہ دار نے مسجد کی ضروریات کے لئے انکے گھرملاقات کے لئے آنے کی اجازت چاہی اور اجازت ملنے پر، مسجد کےامام معتبر عالم دین کے ساتھ، کچھ بزرگ ذمہ دار مسجد ان سے ملاقات کے لئے،طہ شدہ وقت پر، انکے بنگلہ پر پہنچے۔ بنگلہ کے باہر فقراء کا ایک ھجوم رہنے کی وجہ، مین گیٹ مقفل رکھاگیا تھا۔ مسجد کےکسی ذمہ دار کی طرف سے، اس تونگر کو فون کرنے پر، اندر سے ایک نوکر نے، آکر گیٹ کھولے،انہیں عزت و احترام سے، اندر بیٹھک میں بٹھایا ۔ کچھ وقت بعد،چاء پانی پی پیش کی گئی، لیکن نصف گھنٹہ تک صاحب خانہ کے حاضر نہ ہونے پر، آنے ہوئے مسجد کے وفد میں سے، مولوی صاحب نے، دیگر وفد ممبران سے مخاطب ہو، از راہ مذاق کہا کہ “باہر گیٹ کےپار کھڑے فقراء اور ہم میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، وہ انجان فقراء ہیں اسلئےگیٹ سے پرے دھوپ میں انہیں سکھایا جارہا ہے، لیکن ہم انہی کی طرح دست سوال کرنے آئے ہیں، اس لئے، صرف جانے پہچانے اور معزز و محترم ہونے کی وجہ سے، اندر ہوا دار پنکھے کے سائے تلے، چاء پانی نوازش کے ساتھ اتظار کروایا جارہا ہے”

بھارت میں ہم مسلمانوں کی آبادی، کم از کم 20% ہی تصور کریں تو 137 کروڑ آبادی بھارت میں ساڑھے ستائیں اٹھائیس کروڑ مسلمانوں کے دیش میں، آئی پلس جیسا مسلمانوں کا دعوتی نشریاتی لائسنس یافتہ مفید تر چینل ، چند لاکھ روپئوں کی ادائیگی میں تنگ دامانی پاتے، سوا دوسو کروڑ گھروں میں اپنی مفید نشریات سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس بھارت دیش میں، ایسے کئی سو کروڑ کے مالک، ہزاروں کی تعداد مسلمان موجود رہتے ہوں گے، جو بذات خود اپنےاپنے طور ذاتی نیوز میڈیا ہاؤسز چلانے کی استطاعت رکھتے ہوں، ایک دعوتی مشن ہی کے بہانے سے مفید اسلامی معلومات لئے،ای پلس فری چینل، سوا دو کروڑ بھارتیہ گھروں میں دستک دینے سے محروم کردیا گیاہے یہ سن کر افسوس ہوتا ہے
ایسے موقع پر،سائبر میڈیا پر گردش کرتا بھوپال کی اس غریب مفلس مسلم بستی کی یاد دلاگیا جہاں پر اس کورونا قہر کہرام میں، بھوپال ہی کی صاحب حیثیت امیر امراء پر مشتمل این جی او رمضان المبارک مہینے کی برکات سمیٹنے اور اپنے آس پاس پڑوس کے مفلس و بےروزگاروں کی داد رسی کرنے، اپنے افطار کٹ لئے ریلوے پھاٹک کے متصل ایک غریب جھونپڑپٹی میں پہنچ جاتے ہیں تو جھونپڑپٹی کے بظاہر مفلس نظر آنے والے، یومیہ مزدوری سے، اپنے آل اولاد کی پرورش کرنے والے غریب مکینوں کو، اپنے سے زیادہ عملا” و قلب کے امیر پایا ۔ دراصل شہری امراء این جی اوز کم از اپنے اللہ کی رضا حاصل کرنے اپنی استطاعت سے کم بہت سارے افطاری کٹ لئے، یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی مدد سے غریب و مفلس یومیہ مزدور ایک وقت کا افطار تو اچھی آغذیہ سےکرلیں گے،

لیکن وہ امراء این جی اوز، اس غریب بستی میں جاکر اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ جنہیں وہ انتہائی مفلس سمجھتے تھے اپنے جیسے روزانہ کمائی کرنے والے انیک غریبوں کی کمائی سے، چندہ اوصول کر، کئی کئی دیگ بریانی پکائے، ان کے گھروں کے پاس سے گزرنے والی ریلوے ٹریک سے گزرتے، پرواسی مزدوروں کے پیدل قافلے کے، کئی کئی دنوں کے بھوکے پیاسے پرواسی مزدوروں میں بریانی پاکیٹ اور ٹھنڈے پانی کی مبرد تھیلیاں تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔ یقینا کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، غریب و مفلس کی بھوک و پیاس کا احساس، اپنی بیاہتا اردھانجلی کی پرورش کی فکر سے تک ماورا، دس لاکھ کا سوٹ ایک وقت میں پہننے والے، کروڑوں کی مالیت والے قلم سے دستخط کرنے والے، غیر تعلیم یافتہ دیش کے پرائم منسٹر کو غریب کی بھوک و پیاس کا احساس کیسے ہو ؟

غریبوں کی بھوک و پیاس کا احساس تو دیش کے غریبوں کو ہی ہوتا ہے۔ بھوپال ریلوے کراسنگ کے پاس کی، مسلم مزدوروں کی جھونپڑپٹی کے مفلس مکینوں کو، کروڑوں پرواسی مزدوروں کے بھوک و پیاس کا کما حقہ احساس تھا اسلئے وہ اپنی محنت کی محدود کمائی کے بھی ایک حصہ کو، اپنے جیسے مفلس نادار پرواسی مزدوروں تک، ایک وقت کا پیٹ بھر لذیذ کھانا پہنچاتے ہوئے، اس رمضان المبارک مہینے میں، اپنے اللہ کو راضی کرنے میں مست پائے جاتے ہیں آئی پلس ٹی وی کے تعلیم یافتہ محترم زید پٹیل صاحب اگر اپنے دعوتی مشن والے ٹی وی چینل کو تا دیر زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے بھارت کے امراء و تونگروں سے ملاقاتیں کر، ان سے پیسے مانگنے کے بجائے بھوپال ریلوے کراسنگ والی مسلم جھونپڑپٹیوں کے مفلس و غریب مسلم مزدوروں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے، انہیں میڈیا آگہی کیا پاٹھ پڑھواتے ہوئے،

ان سے ہی چندہ مانگے ہوتے تو یقیناً ان غریبوں کی حالت زار 127 کروڑ دیش واسیوں تک صحیح انداز پہنچانے ہی کیلئے، وہ غریب مزدور دل کھول کر اتنا چندہ دئیے ہوتے کہ آئی پلس دعوتی چینل کو بند ہونے کی کگار تک نہ پہنچنا پڑتا۔ وما علینا الا البلاغ۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں