45

دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کاتوڑ !

دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کاتوڑ !

ملک میں دہشت گردی روز بروز کم ہو نے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے ، پاک فوج کے جوان اور عوام قر بانیاں دیے رہے ہیں اور ملک دشمن عناصر وار پر وار کیے چلے جارہے ہیں ،اس صورتحال پر گز شتہ روزڈی جی آئی ایس پی آر کا پر یس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبر پختون خواہ میںدہشت گردی کے پیچھے نہ صرف داخلی سیاسی مجر مانہ گٹھ جوڑ ہے ، بلکہ اس کی بھارت و دیگر خارجی عناصر پشت پناہی بھی کررہے ہیں ،اس پر افواج پاکستان واضح کرنا چاہتی ہیں کہ خوارج دہشت گرد اور ان کے سہولت کار‘ چاہے وہ کوئی بھی ہو‘ کسی بھی عہدے پر ہو‘ ان سب پر اب زمین تنگ کر دی جائے گی۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک عرصے سے پاک فوج اور عوام قر بانیاں دیے رہے ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو نے میں ہی نہیں آرہا ہے ، اس پر ہر ایک کے ذہن میں مختلف سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ کونسی ایسی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے ناسور خاتمہ نہیں ہوپارہا ہے ، اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایسے پانچ عوامل کا ذکر کیا ہے کہ جن کی وجہ سے دہشت گردی ملک سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے،اس میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا‘ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست اور قوم کو سیاست میں الجھانا‘ افغانستان میں بھارتی سپانسرڈ دہشت گردی کے ٹھکانے‘ دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں اور دہشت گردی کے پیچھے ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ کہ جسے سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔
اگر دیکھا جائے تودہشت گردی کے محرکات داخلی اور خارجی‘ دونوں ہی ہیں‘ تاہم خارجی محرکات کا یہاں کلیدی اور فیصلہ کن کردار رہا ہے اور یہ انسدادِ دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود دہشتگردی کی بیخ کنی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،سیاسی اور سماجی محرکات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ دہشتگردی کے خطرات کے پنپنے میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں، اگر سماجی سطح پر دہشتگرد عناصر کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور سیاسی سطح پر بھی ان عناصر کیلئے کوئی نرم گوشہ نہ رکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جاری مہم زیادہ فیصلہ کن اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے، لیکن اس کیلئے سارے ہی سٹیک ہو لڈر کو ایک پیج پر آنا ہو گا ، یہ جب تک ایک پیج پر نہیں آئیں گے اور سنجید گی کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی پر عمل پیراں نہیں ہوں گے ، دہشت گردی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔
اس کے باوجود ماضی کے فیصلوں کی بات کی جارہی ہے ، جبکہ سیاسی سطح پر خوارج کے معاملے میں جس قسم کے فیصلے کئے گئے ، ان سے کچھ بھی برآمد نہیں ہو سکا‘ مگر بعض حلقے اب بھی آزمائے سوراخ سے ڈسے جانے کی تجویز دیے رہے ہیں، تاہم اس بار ریاست فیصلہ کر چکی ہے اور اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ انتہا پسند عناصر کیساتھ بات چیت کی کوئی گنجائش یا جواز باقی نہیں رہا ہے، دہشت گرد عناصر کے ساتھ ماضی میں ہونے والی بات چیت کی کوششوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان کوششوں کے نتیجے میں انتہا پسند عناصر کے خلاف سماجی سطح پر ایسے ابہام اور مغالطے پیدا ہوئے کہ جن کا فائدہ بہرحال انہی عناصر نے اُٹھایا اور اب بھی اُٹھا رہے ہیں،ہمیں اپنی کو تاہیوں کا ازالہ کر نا ہو گا اور اپنی غلطیوں سے نہ صرف سبق سیکھنا ہو گا ،بلکہ انہیں دہرانے سے گریز کر نا ہو گا۔

اس بار پاکستان کو اپنے مفادات کی خاطر پائیدار پالیسیوں کی طرف جانا ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا صائب ہے کہ افواج تو اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہیں، لیکن سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہی ہیں ،سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی ، سیاسی گٹھ جوڑ چلے گا نہ ہی سیاسی پشت پناہی نظر انداز کی جائے گی ،اس کے باوجود کچھ سیاسی پارٹیوں کے قائدین دہشت گردوں سے مذاکرات کے حق میں بات کررہے ہیں اور آئی ایس پی آر کی پریس کا نفرنس کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ، دہشت گردی پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے ،مگر یہ کام ایسے عناصر کی منشا پر نہیں چھوڑا جاسکتا کہ جن کی نظر اپنے سیاسی مفادات سے آگے ہی نہیں دیکھ رہی ہے۔
اِس میں کوئی دو آ راء نہیں ہے کہ وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے سیاسی بے بنیاد بیانئے بنائے جاتے رہے اور اب بھی بناجارہے ہیں، کیو نکہ عوام کوگمراہ کر نا مقصود ہے ،لیکن اس بار ایسا نہیں ہو نا چاہئے ، دہشت گردی پرکوئی سیاسی بیانیہ بننا چاہئے نہ ہی کوئی مصلحت آڑے آنی چاہئے ،اس مسئلے کے دیر پا حل کیلئے سیاسی وعسکری قیادت کوسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متفقہ لائحہ عمل اپنانا چاہئے،

سکیورٹی فورسز کو درپیش چیلنجز کا نہ صرف تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہئے، بلکہ انہیں پارلیمان میں بھی زیربحث بھی لا یا جانا چاہئے اور قومی اتفاقِ رائے سے ان کا حل تلاش کیا جانا چاہئے،پا کستان بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور اب افغانستان کی جارحیت کا بھی منہ توڑ جواب دیے رہا ہے،تاہم ملک کی ترقی و استحکام کے لئے امن کا قیام بنیادی شرط ہے، اس راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرنا اور سیاسی گٹھ جوڑ کا توڑ کرنالازم ہے،اس کے بعد ہی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا اور ملک کے ساتھ خطے میں بھی قیام امن لایا جاسکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں