116

اسرائیل کی طاقت کا ٹوٹتا طلسم !

اسرائیل کی طاقت کا ٹوٹتا طلسم !

نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہے ، اس اجلاس میں دنیا بھر سے سربراہان اور وزرائے خارجہ شریک ہو رہے ہیں اور یک زبان ہوکرکہہ رہے ہیں کہ اب مزید انتظار نہیں، فلسطین کو اس کا حق دیا جائے اور غزہ میںجاری خون کی ہولی فوراً بند کی جائے،دنیا کے ایوانوں میں فلسطین کے حق میں گونجتی آوازیں ثبوت ہیں کہ عالمی رائے عامہ اب اسرائیل کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو ئی ہے ،اس حوالے سے فرانس کے صدر کا اعلان‘ درجنوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی دوٹوک تقاریر اور امریکی ایوانوں میں ابھرنے والی نئی سوچ واضح اعلان کررہی ہے کہ اسرائیل کی طاقت کا طلسم ٹوٹ رہا ہے۔
اس بات کوئی مانے نہ مانے ، لیکن یہ ماننا ہی پڑے گاکہ فلسطینیوں سے بڑھتا ہوا عالمی اظہار یک جہتی ،مستقبل قر یب میں کوئی تبدیلی ضرور لائے گا،کیو نکہ عا لمی کوششوں سے اسرائیل پر غزہ کے خلاف جارحیت کو بند کر نے کیلئے دبائو میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور بڑی تعداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک فلسطینیوں کے حق میں نہ صرف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، بلکہ ایک آزاد فلسطین ریاست کو بھی تسلیم کررہے ہیں ،اس فلسطین ریاست کو تسلیم کر نے والے ممالک کی مجموعی تعداد اب تک اقوام متحدہ کی رکنیت کے تین چوتھائی تک جا پہنچی ہے اور امر یکہ بھی مائنس حماس فلسطین ریاست کے قیام پر رضا مندی کا اظہار کر نے لگا ہے ، اس پر حماس غور کر سکتا ہے اور اپنا کرادار بدل سکتا ہے ،

ریاست فلسطین کی سیاست میں اپنا کرادار ادا کر سکتا ہے۔اس لیے ہی فرانس کے صدر میکرون نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں کہا ہے کہ امن کا وقت آگیا ہے اور ہم اسے حاصل کر نے کے بالکل قریب ہیں ، اب زیر حراست قیدیوں کی رہائی ممکن ہو گی ، بلکہ غزہ پر بمباری،قتل عام اور جبری نقل مکانی جیسے مسائل سے بھی چھٹکارہ ملے گا ، لیکن اس کے ساتھ کہنا تھا کہ اس وقت تک فلسطینی ریاست میں اپنا سفارت خانہ نہیں کھلے گا ، جب تک کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو جاتی اور تمام قید یوں کو رہا نہیںکیا جاتا ہے

، اس منافقا نہ رویئے کے باعث ہی ہٹ دھرم اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینی ریاست کی اجازت نہ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے ،اس پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ فلسطین میں جاری جنگ رکنی چاہئے،انسانی جانیں بچاناسب ہی کی ذمہ داری ہے ، عالمی رہنمائوں کو منافقت چھوڑ کرانصاف کر نا ہو گا اور جنگیں بند کر کے عالمی امن کا خواب پورا کر نا ہو گا ۔
یہ عالمی دنیا کے رہنمائوں کی باتیں بڑی مثبت ہیں ، لیکن امر یکی پشت پناہی میں جو رویہ اسرائیل نے عشروں سے فلسطینی عوام کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے ، اس کا حل زبانی کلامی باتوں ، دعوئوں اور طویل المدت منصوبہ بندی میںنہیں

، بلکہ اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیاں فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے ، اگر اسرائیل اقوام عالم کے مشترکہ بیانیہ اور انتبا ہات کو خاطر میں نہیں لاتا ہے تو پھر اقوام عالم کو بھی ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنے کا اہتمام کر نا ہو گا ، اس حوالے سے یورپی یونین کمیشن اسرائیل پر سخت پا بندیاں لگانے کی تجویز دیے چکا ہے ، ماضی قر یب میں مسلم ممالک کے عوام نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی تھی

، مگر اس مہم کو حکمران اشرافیہ نے کا میاب نہیںہو نے دیا تھا ، کیا اس بار کا میاب ہو نے دیا جائے گا ، جبکہ ان کے خیال میں اسرائیلی مصنوعات کے بغیر چلا نہیں جاسکتا ہے ،اس سوچ کاجب تک اقوام عالم سے خاتمہ نہیں ہو گا ، اس وقت تک سارے ہی امر یکہ اور اسرائیل کے سامنے بے بس اور لا چار ہی رہیں گے۔
اس بے بسی اور لاچاری سے اقوام عالم کو نکلنا ہو گااور اسرائیل کو اپنی اوقاتمیں لانا ہو گا، اسرائیل کی طاقت کا طلسم اسلامی بلاک کے زیر اثر ٹوٹ رہا ہے اور اس کا اسلامی ممالک کو بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہئے ، اسلامی دنیا میںفلسطین میں بسنے والوںپر اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کے خلاف ہمیشہ سے غم و غصہ ضروررہا ہے، مگر یہ غم و غصہ کبھی یکجہتی اور مشترکہ لائحہ عمل میں تبدیل نہیں ہوا ہے، لیکن پہلی بار اسلامی دنیا فلسطین کاز کو نہ صرف اپنی غیر متزلزل حمایت فراہم کررہی ہے

، بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ایک اسلامی بلاک کی صورت میں متحد ہوتی بھی دیکھائی دیے رہی ہے ، یہ اسلامی اتحاداپنے ہم خیال یورپی ممالک کے ساتھ مل کرنہ صف اسرائیل کو نکیل ڈال سکتا ہے ، بلکہ امر یکہ کو بھی اسرائیلی کی بے جا پشت پناہی سے روک سکتا ہے ، اس کے آثار اسرائیل کی طاقت کے ٹوٹتے طلسم میںبڑے واضح دکھائی دینے لگے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں