53

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے پاکستان میں کاربن مارکیٹس گورننس کے حوالے سے نئی رپورٹ شائع کردی

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے پاکستان میں کاربن مارکیٹس گورننس کے حوالے سے نئی رپورٹ شائع کردی

تحریر و ترتیب : ایس ایم طیب

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے پاکستان میں کاربن مارکیٹس گورننس کے حوالے سے نئی رپورٹ شائع کردی گئی ہے جس میں کاربن مارکیٹ گورننس کی خامیوں، اس شعبے کو لاحق چیلنجز، اور ان مواقعوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کے ذریعے پاکستان میں بین الاقوامی معیارات پر مشتمل پروجیکٹس تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کاربن مارکیٹ کے حوالے سے کافی صلاحیت رکھتا ہے

اور اس حوالے سے یہاں ماحولیاتی اور معاشی مواقع بھی موجود ہیں۔ اگر پاکستان کے صرف 10 سے 15 فیصد کاربن اخراج سے کاربن پروجیکٹس کے ذریعے نمٹا جائے تو پاکستان ہر سال 40 سے 75 ملین ٹن ٹریڈ ایبل کاربن کریڈٹ حاصل کرسکتا ہے۔ موجودہ وولنٹری مارکیٹ قیمتوں کے مطابق یہ پاکستان کے لیے سالانہ 40 کروڑ سے 2.25 ارب ڈالر کی ممکنہ آمدن کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ رپورٹ میں البتہ، کاربن مارکیٹس کی موجودہ پالیسی گائیڈ لائنز کے اس خلا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے بلند مقاصد رکھے گئے ہیں، تاہم عملی طور کاربن مارکیٹس کے پیچیدہ موضوع کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مؤثر نظام کی کمی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے

کہ ملک میں کاربن مارکیٹس کے حوالے سے جامع قومی بنیادی معلومات کی بھی کمی ہے جو کاربن مارکیٹس کی تشکیل میں اہم رکاوٹ ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ کاربن مارکیٹس ایک پیچیدہ موضوع ہے اور اس کے مختلف شعبہ جات کے لیے اعلیٰ سطح کی تکنیکی مہارت درکار ہے جیسے ایمیشن اکاؤنٹنگ، مانیٹرنگ اینڈ ویریفکیشن پروٹوکول، کاربن اورنر شپ اور کریڈٹنگ کے لیے قانونی لائحہ عمل، اور مارکیٹ کے دیگر پہلو یعنی رجسٹریز، کیپس اور کریڈیٹنگ میتھاڈولوجیز۔ ان تمام پہلوؤں کا پالیسی میں تو احاطہ کیا گیا ہے

تاہم عملی طور پر ان مہارتوں کی کمی ہے۔ پاکستان کو وفاقی و صوبائی کلائمٹ چینج وزارتوں اور محکموں میں کاربن مارکیٹس کے لیے شعبے کے باصلاحیت افراد پر مشتمل ٹیمز تشکیل دینے کی ضرورت ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کاشف علی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کاربن مارکیٹس کے قیام میں شفافیت ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس بات کی آگاہی نہ ہونے کی صورت میں کہ فیصلہ سازی کس طرح کی جارہی ہے، منافع جات کی تقسیم کس طرح ہورہی ہے، اور متاثرہ کمیونٹیز کے لیے کون سے حفاظتی انتظامات موجود ہیں، ان مکینزمز پر اعتماد متاثر ہوسکتا ہے۔ کاربن مارکیٹ پروجیکٹس میں رپورٹنگ کے واضح معیار، قابل رسائی منافع جات کے فریم ورکس، اور کمیونٹی کی شرکت کے مؤثر ذرائع انہیں کامیاب اور شفاف بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ملک میں کاربن مارکیٹس گورننس کو مؤثر بنانے کے لیے 10 تجاویز بھی دی ہیں۔ 1) اہم شعبوں اور پروجیکٹس کے لیے مضبوط بنیاد بنانا اور اس کا ڈیٹا انفراسٹرکچر تشکیل دینا۔ 2) تحفظ، برابری اور عوامی شرکت کو واضح فریم ورکس کے ذریعے قانونی بنانا، پیشگی رضا مندی یعنی ایف پی آئی سی، اور شکایات کے ازالے کے نظام کی تشکیل جس کے ذریعے اراضی کے تنازعات، منافع جات کی تقسیم، مانیٹرنگ، رپورٹنگ اور ویریفیکشن سے متعلق اختلافات اور رضا مندی کی خلاف ورزیوں کے تنازعات حل کیے جاسکیں۔ 3) پاکستان میں کاربن کی خرید و فروخت سے متعلق تمام سرگرمیوں کے لیے بنیادی قانونی اختیار کے طور پر ایک جامع کاربن مارکیٹ قانون نافذ کرکے قانونی اور ضابطہ جاتی بنیادوں کو مضبوط بنایا جائے۔ 4) موجودہ ادارہ جاتی نظاموں کو بہتر بنائیں اور قومی کاربن کوآرڈینیشن کونسل (این سی سی سی) کے قیام کے ذریعے ان کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

یہ کونسل ایک مرکزی حکومتی ادارہ ہوگا جو کاربن مارکیٹس کی نگرانی اور وزارتوں، صوبوں، اور اداروں کو ذمہ داریاں تفویض کرے گا۔ 5) تکنیکی تربیتی اور صلاحیت سازی پروگرام تشکیل دیے جائیں۔ پاکستان کو وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطحوں پر تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہے جو کاربن مارکیٹس آپریشنز انجام دے سکیں جیسے ایم آر وی پروٹوکولز، منافع جات کی تقسیم، رجسٹری کمپلائنس، اور ماحولیاتی مالی منصوبہ بندی۔ علاوہ ازیں وزارتوں کے درمیان صلاحیت سازی کی بھی ضرورت ہے، جن میں وزارت ماحولیاتی تبدیلی، پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس، وزارت توانائی، صوبائی جنگلات کے محکمے، اور اقتصادی منصوبہ بندی کمیشنز شامل ہیں۔ 6) ایک مرحلہ وار، حقیقت پسندانہ، اور لچکدار حکمت عملی اپنائی جائے

، جس میں بہتر امکانات والے پائلٹ پروجیکٹس جیسے لاکھودیر لینڈفل گیس پروجیکٹ، سیفائر ونڈ فارم، اور ڈیلٹا بلیو کاربن مینگروو انیشی ایٹو کا جائزہ لیا جائے اور ان سے حاصل شدہ تجربات کو ضابطہ جاتی فریم ورکس میں شامل کیا جائے۔ 7) شفافیت اور معلومات افشا کرنے کے عمل کو ادارہ جاتی شکل دی جائے جس کے لیے پبلک پلیٹ فارم یا رجسٹری دستیاب ہو جو کاربن مارکیٹس کی ٹرانزکشن، اتھرائزیشن اور سیف گارڈز کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔ اس کے ذریعے بین الاقوامی روابط مضبوط کیے جائیں تاکہ کاربن مارکیٹس پر اعتبار قائم ہو اور مزید مارکیٹس تک رسائی حاصل ہو۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے چیئرمین جسٹس (ر) ضیا پرویز کا کہنا ہے کہ امید کی جاتی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، بین الاقوامی ڈویلپمنٹ پارٹنرز، اور سول سوسائٹی اسٹیک ہولڈرز اس رپورٹ میں دی گئی اہم تجاویز اور اسباق سے رہنمائی حاصل کریں گے تاکہ پاکستان کاربن مارکیٹس سے بطور ایک تزویراتی (اسٹریٹجک) ماحولیاتی مالیاتی ذریعہ، بہتر فائدہ اٹھا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں