اسلامی نیٹو کا خواب !
اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور یہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے خطرہ ہے، اس کے باوجود قطر ثالث کے طور پر خطے میں قیام امن کیلئے مخلصانہ کوششیں کرتا رہا ہے، لیکن اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس کی قیادت کو قطرمیں ہی نشانہ بنادیا،اسرائیل کی جانب سے خطے کے ممالک کی خودمختاری پر حملہ انتہائی قابلِ مذمت ہے، اسرائیل ایک طرف اسلامی ممالک کی خود مختاری کو چیلنج کررہا ہے تودوسری جانب فلسطینیوں کی نسل کشی میں لگاہے،
اس نے جرائم کی تمام حدود پارکرلی ہیں، اس پرایک بار پھر او آئی کا اجلاس بلایا گیا ،ایک بار پھر سارے مسلم ممالک نے مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کیا ، لیکن کیا اس فیصلے پر عمل ہو پائے گا یا گزشتہ فیصلوں کی طرح کاغذ ی کاروائی پر ہی رہ جائے گا؟
یہ ہی سب سے بڑا سوال ہے اور اس کا جواب کوئی تسلی بخش طور پرنہیں دیے پارہا ہے ، یہ سارے ہی جانتے ہیں اور سارے ہی دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں کیا کررہا ہے اور بھا ت کشمیر میں کیا گل کھلا رہا ہے ،اقوام متحدہ ، سلامتی کو نسل اور اوآئی سی سے لے کر ہر پلیٹ فارم پر ثبوت کے ساتھ بتاجارہا ہے ،
اس کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر قراداد بھی منظور کروائی جارہی ہے ،اس کے باوجود اسرائیل اور بھارت اپنی جارحیت سے باز آرہے ہیں نہ ہی کسی کی بات مان رہے ہیں ،ونصرف اپنی من مانیاں ہی نہیں کررہے ہیں ،بلکہ اپنے حواریوں کو بلیک میل بھی کررہے ہیں کہ اگر اس کا ساتھ نہ دیا تو ان کیساتھ بزنس کریں گے نہ ہی ان کے ساتھ چلیں گے ، بلکہ اکیلئے ہی اپنے جاریحانہ عزائم پورے کر یں گے ۔
اگر دیکھا جائے تو ان کی ڈھٹائی کے سامنے پورا عالمی نظام ہی بے بس نظر آتا ہے‘ اس وجہ سے ہی دنیا میں ایک نئے بین الاقوامی نظام کی ضرورت شدت سے محسوس کررہی ہے،اس جانب ہی نائب وزیراعظم ، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک انٹر ویو میں تو جہ دلائی ہے ،نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی مذمت ہی کافی نہیں‘ ہمیں اب کوئی واضح لائحہ عمل کیساتھ اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا،نائب وزیر اعظم نے عرب لیگ اور او آئی سی کے رکن ممالک کی مشترکہ سکیورٹی فورس کی تجویز بھی پیش کی ہے ،اس کا مقصد صرف امن قائم کرنا اور جارح قوتوں کو روکنا ہے ۔
یہ سب کچھ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، اس سے قبل جب کبھی ایسا کوئی مر حلہ آیا ہے ، یہ سب کچھ ایسے ہی ہوتا رہا ہے ، سلامتی کو نسل اور او آئی سی کا اجلاس بلایا جاتا رہا ہے ، ساری ہی مختلف تجاویز اور حل پیش کرتے رہے ہیں ، سارے ہی اتحاد ، یکجہتی کی باتیں کرتے رہے ہیں ،اس کے ساتھ کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کر نے کا عیادہ بھی کرتے رہے ہیں، اس پر قرارد بھی منظور کرتے رہے ہیں ،
اس قسم کی قرار دادوں سے سارے ہی بڑے پلیٹ فارمز کی الماریاں بھری پڑی ہیں ،لیکن اس میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہو پارہا ہے ، اس کا مطلب ایسا نہیں ہے کہ اس پر عمل کروانے میں کوئی قباحت ہے ، بلکہ اپنی ہی نیت میں فتور ہے ، اس پلیٹ فارم پر بیٹھے لوگ ہی کروانا نہیں چاہتے ہیں ، یہ باہر سے اتحادو یکجہتی کا ڈرامہ کرتے ہیں ، جبکہ اندر سے ایک دوسرے کے خلاف اور اندر سے اپنے مشترکہ دشمن سے ملے ہوئے ہیں اور اس کے ہی ایجنڈے پر عمل پیراں ہیں ۔
اس وقت دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ جہاں یہ فیصلہ کرنا ہی ہو گا کہ ہمیں مستقبل میں کیسی دنیا چاہیے‘ وہ دنیا جہاں قانون‘ انصاف اور امن کا بول بالا ہو یا وہ دنیا کہ جہاں کمزوروں کی کوئی شنوائی نہ ہو اور طاقتور کا ہی راج چلتا رہے ، پاکستان کی کبھی ایسی پالیسی رہی ہے نہ ہی ایسے غیر انسانی اقدامات پر یقین رکھتا ہے،لیکن کسی طاقتور ملک کی جارحیت کو قبول نہیں کیا جا سکتا ہے، لہٰذا یہ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے
کہ بھارت اور اسرائیل جیسی بے قابو ریاستوں کی جارحیت کو روکنے کیلئے ایک متفقہ اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور ایک سلامی نیٹو کے ادھورے خواب کو پورا کیا جائے ،پاکستان او آئی سی کے رکن کی حیثیت سے نئی ذمہ داریوں کیلئے پوری طرح تیار ہے،لیکن کیااس کا ساتھ دینے کیلئے مسلم دنیا بھی تیار ہے؟
یہ ایک اچھی بات ہے کہ امت مسلمہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تقاضوں کو سمجھنے لگے ہیں اور دوسروں پر بھر وسہ کر نے کے بجائے اپنوں پر ہی تکیہ کرنے لگے ہیں ، ایک دوسرے سے دفاعی معاہدے کر نے لگے ہیں ، ایک ملک پر حملے کو اپنے ملک پر حملہ تصور کر نے لگے ہیں ،اس حوالے سے سعودی عرب نے پا کستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر کے نہ صرف ایک بڑا قدم اُٹھا یا ہے ، بلکہ ساری دنیا کو بتا یا ہے
کہ اب کوئی مسلم ملک تنہا نہیں رہے گا ، اب ہر جارحیت کا مل کر جواب دیا جائے گا ،پاک سعودی عرب دفاعی معاہدہ ایک مشترکہ حکمت عملی کی جانب پہلا قدم ہے ، اس کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک متحدہ اسلامی دفاعی معاہدے کی نہ صرف شکل اختیار کر لے گا، بلکہ اسلامی نیٹوفورس کا خواب بھی پورا کرے گا اور اسلا می ممالک کی باریاں لگانے والوں کو سبق سکھا ئے گا ۔