50

عوام کی کسے پروا ہے !

عوام کی کسے پروا ہے !

ملک ایک طرف قدرتی آفات میں گھرا ہے تو دوسری جانب سیاسی انتشار کی دلدل میں دھنسا ہے،حکو مت کی تر جیحات میں عوام ہیں نہ ہی عوام کو نااُمیدی اور مایوسی کے اندھیروں سے نکلاجارہا ہے، ہمیں تاریخ چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ طاقت کی بنیاد عوام کا اعتماد ہے، اگر عوام سیلاب و قدرتی ا ٓفات کی زد میں مرتے رہیں گے ،مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے، بھوکے ،ننگے پھرتے رہیں گے، اگر ان کے بچوں کو تعلیم نہیں ملے گی، اگر ان کی محنت کا پھل کرپٹ اشرافیہ کھا جائیگی تو پھر عوام ایک دن اٹھ کھڑے ہوں گے،

وہ ایوانوں میں گھس جائیں گے، تخت اقتدار الٹ دیں گے، اور وہی منظر پاکستان کی گلیوں میں بھی نظر آ سکتا ہے، جو کہ ہم نے کابل، ڈھاکہ، کولمبو اور کھٹمنڈو میں دیکھا ہے، کیا اس کا حکمران اشرافیہ اور فیصلہ سازوں کو ادارک ہورہا ہے ؟
یہ سب سے اہم سوال ہے اور اس کا جواب نفی میں ہے ، اس کا حکمرانوں کو ادارک ہے نہ فیصلہ سازوں کے پاس اتنا وقت ہے کہ اس بارے سوچیں اور بدلتے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ،اپنے روئیوں کو بدلیں ، یہاں کو ئی اپنے ماضی سے سبق سیکھ رہا ہے نہ ہی اپنی غلطیوں کا ازالہ کررہا ہے ، بلکہ انہیں ہی دہرایا جارہا ہے اور باور کرایا جارہا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں ، وہ بالکل ٹھیک کررہے ہیں اور اس کے رزلٹ حسب منشاء آرہے ہیں ، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے ، زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں اور اس کا اندازہ بھی ہو نے لگا ہے ، اس کے باوجود کوئی ضد و انا پر ڈٹا رہنا چاہتا ہے اور ہر چیز کو دائو پر لگانا چاہتا ہے تو کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے ، اس کے نتائج بھگتیں گے ، جو کہ اس کے ذمہ دار ہیں، لیکن یہاں زیادہ تر عوام پس رہے ہیں اور عوام ہی بے موت مر رہے ہیں۔
اس ملک میں عوام کبھی حکمرانوں کی تر جیحات میں شامل رہے ہیں نہ ہی عوام کو اپنی تر جیحات میں شامل کیا جارہا ہے ، عوام کو بہلایا جارہا ہے ، ور غلایا جارہا ہے اور منہ میں لالی پاپ دیے کر سہلایا جارہا ہے ، اس بار حکمران اشرافیہ کچھ بھی کر لے عوام ان کے کسی چکر میں آنے والے ہیں نہ ہی انہیں چھوڑنے والے ہیں ، عوام کا پارہ ہائی ہوتا جارہا ہے ، عوام پر واضح ہوتا جارہا ہے کہ آزمائے ہوئے عوام کی زندگی میں کوئی تبد یلی لانے آئے ہیں نہ ہی ان کی زند گی میں کوئی تبدیلی لائی جارہی ہے،عوام دیکھ رہے

ہیںکہ انہیں سیلاب سے بچایا جارہا ہے نہ ہی سیلاب کے بعد کی مشکلات سے چھٹکارہ دلایا جارہا ہے ، عوام کو اس کے ہی حال پر چھوڑ دیا گیا ہے ، سیلاب متاثرین کو پو چھنے کوئی وزیر ، مشیر آرہا ہے نہ ہی اُن کے اپنے حلقے کا نمائندہ اپنا چہرا دکھا رہا ہے ، یہ سیلاب زدگان کی دارسی اور متاثر ین کی بحالی کا ڈرمہ میڈیا پر ہی کھیلا جارہا ہے ،ایک طرف اشتہاری مہم چلائی جارہی ہے تو دوسری جانب ایک کے بعد ایک ٹک ٹاک بنائی جارہی ہے ، عوام کے دکھ درد کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے ، سیلاب پر بھی سیاست کی جارہی ہے اور اپنی ہی سیاست چمکائی جارہی ہے ۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس تباہ کاری اور بربادی کو بھی سر کار نے اپنی اشتہاری مہم کا حصہ بنا رکھا ہے، ایک ضلع کا سرکاری افسر سیلاب متاثرین کو چھ چھ روٹیوں کا جو پیکٹ دے رہا ہے، اس پر بھی وزیراعلیٰ کی فوٹو چھپی ہوئی ہے اور وہ سیلاب زدگان میں پچاس روپے مالیت کا پیکٹ تقسیم کرتے ہوئے احسان جتا رہا ہے کہ یہ روٹیاں آپ کیلئے مریم نوازشریف نے بھیجی ہیں، ہمیں حیرانی ، اس بات پر نہیں کہ روٹی کا پیکٹ دیا جارہا ہے ،

بلکہ اس بات پر ہے کہ اس تباہی اور بربادی کے درمیان چھ روٹیوں کے پیکٹ پر وزیراعلیٰ کی تصویر چھپوانے کا نادر خیال کس کو آیا اور اس سے بڑھ کر اس افراتفری‘ ایمرجنسی اور آفت کے دوران چھ روٹیوں کیلئے خصوصی لفافے بنوانے اور اس پر وزیراعلیٰ کی تصویر چھپوانے کی فرصت کیسے مل گئی ہے ، لیکن جب آئے روز ایک کے بعد ایک فلم دیکھنے کو ملتی ہے کہ کہیںمتاثرین کے خیمے میں بچہ اُٹھا یا جارہا ہے تو کہیں بوڑھی خاتون کو گلے لگایا جارہا ہے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ دکھاوا کیا جارہا ہے ، جبکہ زمینی حقائق بالکل ہی مختلف ہیں ، سیلاب زدگان کے پاس کھانا ہے نہ ہی پانی ہے ،

اگرسیلاب سے بچ رہے ہیں تو بیماریوں سے مررہے ہیں ۔
اس ملک میں عوام کا کوئی پر سان حال نہیں ہے ،عوام سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور حکمران اشرافیہ بیرون ممالک کے دورے کررہے ہیں ،جبکہ انتظامیہ کا کچھ آتا پتہ ہی نہیں ہے ،ہماری بیورو کریسی عوام کی خد مت گار کے بجائے سیاسی جماعتوں کی گھر کی باندی بنی ہوئی ہے ،میرٹ کا قتل سر عام جاری ہے، بیورو کریسی کا کلچر بن چکا ہے کہ اچھی اور اہم پوسٹ پر تعینات ہونے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنا ہے اورحکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاکر راضی رکھنا ہے، حکمران اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے‘ انہیں عیش کرانی ہے اور اور خود بھی عیش کر نی ہے ،اس ملک کی تباہی وبربادی میں سیاستدانوں کے ساتھ بیورو کریٹس بھی برابر کے شریک کار رہی ہے، آپ جب گریڈ بیس کی پوسٹ پر گریڈ اٹھارہ کا ڈپٹی کمشنر لگائیں گے

تو وہ کیا پرفارم کر ے گا؟ کیا ایک سات آٹھ سالہ تجربہ رکھنے والا افسر بیس سال تجربہ کے حامل افسر جتنا شعور‘ فہم وفراست‘ دانائی اور حکمت رکھ سکتا ہے؟ پاکستان میں جو بھی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ر ہی ہے ،انہیں شاید کمزور ڈی سی اور اس کے ساتھ مادر پدر آزاد پولیس فورس ہی سُوٹ کرتی رہی ہے‘ کیونکہ ان کا ہر جائز وناجائز کام بیورو کریسی اور پولیس ہی کرتی ہے ، عوام کے مسائل حل ہو رہے ہیں یا نہیں ‘ عوام مر رہے ہیں یا جی رہے ہیں، اس سے کوئی سروکار یا لینا دینا نہیں ہے، انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے‘ عوام کی کسے پروا ہے۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں