40

چہرے نہیں ، نظام بدلنا ہو گا !

چہرے نہیں ، نظام بدلنا ہو گا !

ملک میں مسائل کی اصل وجہ بے اعتمادی اورگڈ گورننس کا بحران ہے، حکومت کو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہیئے،لیکن اربوں روپے اپنی ذاتی تشہیر کے لیے اشتہارات پر لگائے جا رہے ہیں، ذاتی تشہیر پر خرچ کرنا سنگین جرم ہے،لیکن یہ جرم ببانگ دہل کیا جارہا ہے تو کیسے ادارتی کرپشن کوروکا جائے گا اور کیسے کرپٹ کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا،جبکہ روڈا، اتھارٹی بنا نے والے اور راوی اربن ڈیویلپمنٹ کے منصوبے جاری رکھنے والے بھی خود ہی ہیں،یہ ایک دوسرے کا تحفظ کرنے والا مافیا ز عوام کے سروں پر سوار ہیں اور عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں پر ہی عیاشیاں کررہے ہیں، کیا ان سے عوام کو کبھی چھٹکارہ مل پائے گا اور کسی دیانت دار قیادت کا سہارا مل پائے گا، یہ انتہائی مشکل ضرور ،مگر ناممکن نہیں ہے۔
اگر دیکھا جائے توگورننس کا مؤثر ترین ماڈل جو وراثت میں ملا ‘ اس کو ہر آنے والے حکمران نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر نقصان پہنچایا اور ایک فلاحی ریاست جہاں گورننس کا مقصد عوام کا معاشی و سماجی تحفظ‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی ہونا چاہیے تھا ،وہ اندھیر نگری چوپٹ راج میں بدل گیا، یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں بدامنی‘ قانون کی عدم حکمرانی‘ مہنگائی اورلوٹ مار جیسے سنگین مسائل پر قابو پانے کیلئے کوئی ٹھوس عملی اقدام نظر نہیں آرہے ہیں، اشیائے خوراک افلاس کے ستائے عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں‘ طلب اور رسد کی چین سے لے کر خوراک کی قیمتوں کے تعین تک ہر چیز مافیا کے قبضے میں ہے‘ بالواسطہ ٹیکسوں کے بلاواسطہ ٹیکسوں پر غلبے کے باعث عوام غربت کا شکار ہیں‘ شہروں سے دیہاتوں تک‘ محلوں سے پوش علاقوں تک ہر جگہ گندگی کے ڈھیر‘ سیوریج کا ناقص نظام اور سڑکوں کی حالت ِزار سینہ کوبی کو اکساتی ہے

،لیکن بے حس حکمران ایسے ہیں کہ سب اچھا ہے ، کی ہی ا ٓوازیں لگائے جارہے ہیں۔
اس ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں ہے ، اس بارے ملک کے اندر اور باہر کے ادارے اپنی اپنی سالانہ رپورٹس میںملک کے گورننس کے نظام پر بنیادی سوالات اٹھاتے رہتے ہیں اور ان مسائل پر مختلف سطح کی تجاویز بھی دیتے ہیں،لیکن ہمارے حکمران طبقات نے ان رپورٹس اور تجاویز پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں،اس وجہ سے ہی ملکی سطح پر گورننس کا نظام لوگوں میں بداعتمادی پیدا کرکے اپنی ساکھ ختم کرچکا ہے ، لیکن ہم دنیا میں گورننس کے نظام میں ہونے والی بہتری سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہاں حکمرانی کے نام پر بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں اور میڈیا سمیت، ڈیجیٹل میڈیا پر بڑی بڑی تشہیر بھی کی جاتی ہے ،لیکن اس تشہیری مہم سے لوگ مطمئن ہوتے ہیں نہ ہی ان کے پیٹ بھرتے ہیں،وسائل کی بندر بانٹ جو کی جاتی ہے اس میں انسانی ترقی کا پہلو بہت کمزور ہے اور حکومتی وسائل یا مواقعوں پر عام آدمی کی رسائی کا پہلو بھی انتہائی کمزور نظر آتا ہے۔
ہمیںبنیادی طور پر گورننس کی بہتری کے لیے سیاسی،انتظامی، قانونی اور مالیاتی ڈھانچوں میںسخت گیر بنیادوں پر اسٹرکچرل اصلاحات سمیت پورے نظام کی اصلاح میں ایک بڑی سرجری درکار ہے ،لیکن ہمارا حکمرانی نظام ایسا کچھ کر نے کیلئے تیار نہیں ، ہماری حکمرانی سوچ پرانی روائتی سوچ کے گرد ہی گھومتی ہے اور ہماراپارلیمانی سمیت سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام، اس حد تک کمزور ہے کہ عام آدمی سے جڑے مسائل پر بحث اور ان کا حل تلاش کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے اور اس کو اپنی تر جیحات میں شامل کر نا بھی نہیں چاہتے ہیں ، کیو نکہ حکمران اشرافیہ عوام کی حمایت سے عاری ہو چکی ہے اور وہ سمجھنے لگی ہے کہ انہیں اقتدار میںا ٓنے کیلئے عوام کی حمایت نہیں ، طاقتور حلقوں کی اشیر باد در کار ہے ،اس لیے ان کیلئے عوام غیر اہم اور یہ عوام کیلئے غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔
اس صورتحال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سیاسی وابستگی کو نظرانداز کرکے ملک کے موجودہ حکمرانی نظام کو چیلنج کریں اور سیاسی وقانونی راستے کو بنیاد بنا کر ایسے نظام کے خلاف اپنی سطح پر مزاحمت کریں، لیکن اس مزاحمت کی بنیاد نظام کی تبدیلی اور شفافیت سے جڑی ہونی چاہیے، تاکہ ملک کو بہتری کی طرف لایا جاسکے ،ہمیں اپنی سیاسی قیادت اور اقتدار میں شامل جماعتوں پر عوامی دبائوکی سیاست کو آگے بڑھانا ہوگا اور ان کو قائل کرنا ہوگا کہ ہمیں موجودہ بوسید ہ نظام کسی حالت میں قابل قبول نہیں، اس نظام میں عوام کی مشکلات اور دیرینہ مسائل میں مزید اضافہ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے ،یہ نظام اپنی افادیت کھوچکا ہے، اس نظام سے چمٹ کر رہنے سے قومی مسائل حل ہونگے نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے، ہمیں چہرے نہیں،خود کے ساتھ نظام کو بھی بدلا نا ہو گا تو ہی ا ٓگے بڑھ پائیں گے اور ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں