از سر نو تر جیحات کے تعین کی ضرورت !
ملک ایک بار پھر قدرتی آفات اور سیلاب میں گھرا ہے،ہم ہر چند سال بعد قدرتی آفات اور سیلاب کا سنتے اور اسے دیکھتے آرہے ہیں،اس میں کوئی نئے عوامل نہیں، وہی پرانے ہی عوامل ہیں اور اس پر وہی پرانا رویہ ہے، دریائوں میں پانی کی زیادہ آمد‘ شدید بارشیں اور بھارت کا پانی چھوڑنا! یہ سب ہی روٹین کے عوامل ہیں اور ان کو ختم کرنا تو ممکن نہیں ہے، لیکن ان کا بندوبست کرنا بہرحال ہمارا ہی کام ہے اور ہم اس میں مکمل طور پر ناکام ہورہے ہیں، اس بار بھی وہی اعلانات ، وہی دعوے اور وہی اندرون و بیرون ممالک امداد کی اپیلیں ہو ر ہی ہیں،ہم 78برسوں سے وہیں کھڑے ہیں اور خدا نہ کرے ،لگتا تو ایسا ہی ہے
کہ آئندہ سال بھی کچھ ایسا ہی ہوگا، ہم اللہ جانے اپنی ترجیحات کب قائم کریں گے اور کبس درست منصوبہ بندی کی طرف قدم کب بڑھائیں گے؟یہ انتہائی فسوس ناک بات ہے کہ اس وقت اعلیٰ سطح پر ملک کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں کوئی واضح منصوبہ بندی نظر آرہی ہے نہ ہی کو ئی موثر حکمت عملی واضح کی جارہی ہے ،دوسرے لفظوں یں ترجیحات کی کوئی درجہ بندی ہی مشاہدے میں نہیں آرہی ہے کہ حکومت پہلے کیا اور اس کے بعد کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، جبکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اپنی الگ ہی سیاست میں مصروف ہے، اس کی بھی توجہ عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے پر نہیں ،بلکہ حصول اقتدار کی جانب لگی ہوئی ہے، اگر یہ سلسلہ تادیر ایسے ہی جاری رہا تو بلا شبہ اور لا محالہ اس کے ملکی معیشت اور وسائل اور بالواسطہ طور پر لوگوں کے معیارِ زندگی پر منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب ملک میں پانچ سالہ منصوبے بنائے اورچلا ئے جاتے تھے ،یعنی یہ طے کیا جاتا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں کیا کچھ کرنا ہے اور کون سے شعبے کو کتنی ترقی دینی ہے، ایک منتخب حکومت کی میعاد پانچ سال ہی ہوتی ہے، یہ منصوبے بھی ایک طرح سے ایک دورِ حکومت میں طے کی گئی ترجیحات ہی ہوتی تھیں، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں تب کوئی بھی حکومت اپنی آئینی میعاد پوری نہیں کر پاتی تھی، لیکن ان پانچ سالہ منصوبوں کے مثبت اثرات بڑے واضح طور پر محسوس کئے جاتے رہے
اور کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی ریکارڈ کامیابی کے بعد جنوبی کوریا، ملائیشیا،سنگا پور اور متحدہ عرب امارات کے پالیسی سازوں نے ان منصوبوں کی تفصیلات پاکستان سے حاصل کی تھیں اور ان کے تحت ہی اپنی پالیسیاں مرتب کرکے تر قی کر گئے ، مگر ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی جارہے ہیں ۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ہم سے استفادہ کر نے والے ملک آگے نکل گئے ہیں اور ہم پیچھے ہی رہ گئے ہیں ، کیو نکہ ہم نہ صرف مختلف تجر بات کر نے لگے ہیں ، بلکہ بار بار آزمائے ناکام فار مو لے ہی آزما نے لگے ہیں ، اس میں کا میاب پانچ سالہ منصوبوں کے ساتھ کیا کچھ ہوا، کوئی جانتا ہے نہ ہی جا ننا چاہتا ہے ، کیو نکہ کسی کی تر جیحات قومی ہیں نہ ہی قو می ایجنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے تو کیسے تنزلی سے نکلا جائے گا، ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنے کے لئے وہی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ، جو کہ دوسروں کو دیتے آ رہے ہیں ، ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی کہ کون سا کام پہلے کرنا ہے اور کون سا بعد میں کر نا ہے، اس کے بغیر درپیش مسائل کی دلدل سے نکلا جاسکتا ہے نہ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلیم گیم سے باہر نکلیں اور ملک کے درینہ مسائل کے تدارک کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی مشترکہ موثر حکمت عملی واضح کریں ،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے ، ملک قدرتی آفات اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں گھرا ہے اور ہم اپنی اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں ،ہم ما ضی سے سبق سیکھ رہے ہیں نہ ہی حال سے آگاہی حاصل کررہے ہیں ، ہم ایک دوسرے کو گرانے اور دبانے میں ہی لگے ہو ئے ہیں ،اس طرح سے کبھی الجھے معاملات کو سلجھا جاسکے گا نہ ہی درپیش مشکلات سے نکلا جاسکے گا ،اگر قدرتی آفات کے ساتھ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نکلناہے
تو ساروں کو ہی اپنے روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی ، اس ملک میں ڈیم سے لے کر نئے صوبوں کے قیام تک جہاں مشاورت کر نا ہو گی ،وہیں فیصلہ سازی میں عوام کی نمائندگی بھی لانا ہو گی ، اس ملک میں طاقت کانظام چل سکتا ہے نہ ہی جمہوری ہائبرڈ نظام ملا کر چلا یا جاسکتا ہے ،اس ملک میں خا لص جمہوری نظام ہی چلایا جاسکتا ہے اوراس نظام کے تحت ہی جمہور کے مسائل کا تدارک کیا جاسکتا ہے ،اس ضمن میںمقتدر حلقے اور سیاسی جماعتیں فیصلہ ساز کی حیثیت رکھتی ہیں‘ اس کیلئے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کا ازسرِ نو تعین کریں اور عوام کو ہی فیصلہ سازی کا اختیار دیں اور عوام کے ہی فیصلے کو ما نیں،اس میں جتنی تاخیر کی جائے گی‘ اس قدر ہی خرابی بڑھتی جائے گی۔