فی زمانہ سائینسی اقدار پر کھرا اترنے والا دیں آسمانی ہی اصل دین خداوندی ہے
۔ نقاش نائطی
۔ ×966572677707
جس کو بڑی عزت تکریم عقیدت سے ڈھول باجےکی دھنوں کے ساتھ اپنے اعزہ و اقرباء کی موجودگی میں, اپنے گھروں میں لایا اور اہم اور متبرک جگہ پر براجمان کیا جاتا ہے، ان میں اپنے بھگوان شیو وشنو ایشور کے اوتار، پریکرما کو دیکھ، ان سے ہزاروں منتیں خواہشات اور دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ دو چار دن اپنے گھر رکھے، ان کی ہر اعتبار بزرگی کو دھیان میں رکھے عزت و توقیریت کئے جاتے ، انہیں وداع کئےجاتے وقت، آنکھوں میں آشک کی لڑیاں لئے، اپنے روتے بلکتے قلبی احساسات کے ساتھ وداع کیا جاتا ہے، انہی بھگوان ایشور وشنو شیو کے اوتار پریکرماؤں کے ساتھ الھڑ ، بے راہ رؤ، شرابی کبابی آوارہ مزدور نما نوجوانوں کے ہاتھوں ، کس بے دردی کے ساتھ سلوک ناروا کئے، انہیں دریا برد یا سمندر برد کیا جاتا ہے دیکھا جاسکتا ہے۔
(بھگوان ایشور وشنو کی پریکرماؤں بتوں کی انسانی ہاتھوں بنتی درگت)
سناتن دھرمی ھندو دھرم تو ہم مسلمانوں کے علم تاریخ کےاعتبار سے، آٹھ دس ہزار قبل والا دیں ہے جبکہ ابھی آسمانی ادیان کے آخری ورشن کی طرح انسانیت کے لئے،نبی آخرالزمان یا کلکی اوتار کے طور آئے دین محمد مصطفی ﷺ پر ابھی پورے ڈیڑھ ہزار سال پورے ہونے میں ابھی 54 سال کا طویل عرصہ باقی ہے اور محمد مصطفی ﷺ کےعاشقان میں سب سے آگے ہونے کا خود ساختہ دعوہ کرنے والے “اہل سنہ والجماعہ” والوں نے، ہزاروں سالہ ویدک سناتن دھر۔ی ھندو بھائیوں کے، اپنے وحدانیت والے سناتن دھرمی ھندو دھرم میں سناتن دھرمی رشی منی منو کی تعلیمات کےسراسر خلاف بھگوان ایشور وشنو کی پری کرمائیں، اپنے ہاتھوں سےبنوائے خود انکی پوجا پاٹ کئے کروائے، خود انہی بھگوان کی پریکرماؤں کی بےعزتی، بے قدری کئے، اسے توڑے پھوڑے دریا برد کرتے واقعات کی نقل، خود ساختہ عاشقان رسول ﷺ ہو بہو نقل کرتے ہیں
تو اس میں تعجب خیزکونسی بات رہ جاتی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا، اب کی بار سناتن دھرمی ھندوؤں میں ابھی کچھ پچاس ساٹھ سال قبل سے گھر کر گئے،سب کےچہیتے ، اپنے بھگوان ایشور شیو وشنو کی پریکرما والے بھگوان گنیش کی مورتیوں کے ساتھ کئے جانے والی، بے عزتی بے توقیری والا عبرتناک حشر کیا ہم مسلمانوں میں سے،اپنے آپ کو سب سے بڑے دیندار عاشقان رسول ﷺ میں سے گرداننے والے اہل سنہ والجماعہ والے، ابھی کچھ دن بعد عید میلاد تقریبات کے بہانے رسول اللہ ﷺ کے وفات پاگئے متفقہ دن 12 رییع الاول ہی کو، بڑی ہی دھوم دھام سے، یوم ولادت منائے، اپنے عشق رسول ﷺ درشانے، رسول اللہ ﷺ سے متعلق ،اللہ کے گھر، خانہ کعبہ مکہ اورآپﷺ کی آخری آرامگاہ مسجد نبوی ، گنبد خضراء مدینہ منورہ کی پری کرمائیں اپنے ہاتھوں سےبنائے، سجائے سنوارے، جلوس کی شکل میں، ڈی جے والی دھوم دھڑاکہ گانے باجے تیز میوزک درمیان ، پورے مسلم علاقوں میں جلوس کی شکل گھمائے ،اپنے رسول ﷺ کی تعملیمات پر آنا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے یوئے،
اسوئے رسول ﷺ کی تعلیمات لاتشرک باللہ کے عین خلاف ، سنگھی ھندوؤں کی نقل کرتے ، رسول اللہ ﷺ سے تعلق خاص رکھنے والی چیزوں کی پریکرمائیں ندی نالوں،گندے کیچڑ زد پرنالوں میں پھینکے، خود اپنے آخری نبی کی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی کرتے کیا پائے نہیں جاتے ہیں؟
بھگوان ایشور اللہ کے ہزاروں دیگر مخلوقات کے ساتھ ہی ساتھ ہم انسانوں کوتخلیق کئے، اپنے آسمانی ہدایت والی کتاب قرآن مجید میں، ہمیں اشرف المخلوقات قرار دئیے ہم انسان، قدرت کے ہم میں ودیعت کئے عقل و فہم و ادراک کو سامنے رکھ، کچھ لمحات،کچھ دیر اس پورے پس منظر پر غور کریں تو ہمیں یقینا” اس کا صحیح احساس و ادراک ہوجائے گا کہ کہیں نہ کہیں ہم سے چوک، لغرش غلطی واقع ہوہی جاتی ہے
یا تو خود ہم انسانوں کے ہاتھوں مٹی سے تخلیق پائے بے جان جسم کو، ہم کہیں بھگوان ایشور وشنو کی پریکرما تصور کئے، ہم انسان ہی کے ہاتھوں تخلیق پائے، بے جان مخلوق، کیا پوچا ارچنا، جو کئے جاریے ہیں کیا وہ صحیح ہے؟ کیا یہ بے جان مورتیاں، بھگوان کی پریکرما قرار دئیے جانے کے لائق بھی ہیں؟ ایشور اللہ وشنو بھگوان نے، ہم ہی میں سے، ہم مسلم کرسچین اور قوم یہود کے اور ایک حد تک کروڑہا کروڑ سناتن دھرمی ھندؤں کے جد امجد، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے، جو کہ اس وقت کے شہنشاء نمرود کے درباری شاہی مورتی ساز یاکہ بھگوان کی پریکرما ساز آذر کےبیٹے تھے، اور وہ ہمہ وقت آپنے والد بزرگوار آذر کے ہاتھوں تخلیق پائی مٹی کی مورتیوں کی پوجا ارچنا کرتے دیکھتے تھے جو اپنے اوپر بیٹھی مکھیوں کوتک، اپنے اوپر سے اڑانے، بے بس پائے جاتے ہیں، ایک شب کہلاڑی سے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ کئے، اس کلہاڑی کو بڑے بت کے ہاتھوں تھمائےجیسا رکھ دیتے ہیں۔
اور دوسرے دن تمام بتوں کی بنی درگت کے بارے میں، لوگوں کے پوچھنے پر، بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ “یقینا” بڑے بت نے یہ سب کچھ کہیں نہ نہیں کیا ہوگا اور اگر اس نے نہیں بھی کیا ہے تو، اسکے سامنے وقوع پذیر، دیگر بتوں کے ساتھ ہوئی اس اندھیر نگری چوپٹ راج منظر نامہ کو، اپنی چشم کشا آنکھوں سے دیکھ وہ اس تمام نازیبا کرتوت سے یقینا” باخبر بھی ہوگا”۔ الغرض شاہی بت ساز آذر کے بیٹے کے ہاتھوں، اپنےاوپر مکھیوں تک کو اڑا سکنے میں ناکام، انسانی ہاتھوں تراشے گئے، مٹی پھتر سے بے جان بتوں کی پرستش پوجا ارچنا لائق، بھگوان ایشور وشنو کی پری کرمآؤں کو لائق پوجا پاٹھ نہ سمجھنے کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مسلسل دعوت دین آلی اللہ سے تنگ آئے ، قوم نمرود کے دباؤ میں، شہنشاء نمرود نے، انسانی تاریخ کا سب سے بڑی بھڑکتی آگ کا آلاؤ پہاڑی کےدامن میں تیار کروائے،
پاس کی پہاڑی اونچی چٹان سے، ایک بڑی منجنیق کی مدد سے حضرت ابراہیم عنیہ السلام کو اس بھڑکتے آلاؤ میں ہھینکوانے کا انتظام کیا تھا پھر حکم خالق دو جہاں “قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ”(ترجمہ)”ہم نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا” (سورہ انبیاء69) اور تاریخ انسانیت اس بات کی شاھد ہے کس طرح عالم انسانیت کی سب سے بڑی بھڑکتی آگ کا الاؤ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئےدرمیان سے ٹھنڈا لہلاتا گل گلستان بن جاتا ہے، قرآن مجید میں تفصیل سے بین کئے گئے اس پورے واقعہ کو مملکت ترکیہ میں موجود، وہ پہاڑی چٹان جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نیچے پہاڑی کے دامن میں، آگ کے الاؤ میں منجنیق سے پھینکے گئے واقعہ کے نشانات اور نیچے جلتے جلتے جنگل و بیاباں کے بیچ، بہتی ٹھنڈے ہانی۔کی نہر و لہلاتا گلستان اس واقعہ قرآنی کے منھ بولتےثبوت کے طور،آج ساڑھےچار ہزار سال بعد بھی دیکھا جاسکتا ہے
۔بے شک خالق کائینات نے ہزاروں سال قبل والے مختلف نبیوں والے واقعات کے بارے میں،جو کچھ بھی واقعات و قصص قرآن میں تذکرتا” پیش کئے ہیں، عالم کے کسی نہ خطہ ارض میں، ان قرآنی واقعات وقوع پزیری کو، ٹیوت کے طور، ہم موجود پاتے ہیں۔ اور قرآن مجید کو، اسکے نزول محمد مصطفی ﷺ پر، آج ساڑھے چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعدبھی، اسلام دشمن یہود ونصاری سازش کنان کے اسلام و قرآنی احکام کو طنز و طعن بدنام کرتے اور آج سے ساٹھ آٹھ سو سال قبل سکوت غرناطہ اسپین و بغداد بعد سازشتا” ان ایام مطبوعہ قرآن مجید،کم عدد،عدم دستیابی پس منظر میں بھی، تمام مطبوعہ قرآن مجید نسخوں کو جمع کرجلادئے جاتے اور اپنے طور قرآن مجید کو صفہ ہستی سے منائیے جاتے یہود ونصاری کی ناکام کوشش بعد بھی، اور شروع دن سے آج تک ہزاروں مرتبہ کئی کئی
لاکھ تعداد طباعت قرآن مجید باوجود، آج بھی عالم بھر میں پھیلے اپنے سینوں میں قرآن مجید کو محفوظ رکھے کروڑہا کروڑحفاظ قرآن مجید، کسی بھی ناگہانی حالات میں بھی، کسی بھی سازشانہ اسلام دشمن کاروائی بعد بھی، ایک زیر و زبر فرق سے ماورا،وقت نزول قرآن والے نسخوں مانند، اپنی اصلی حالت میں،قرآن مجید کے ہزاروں نسخے، تاقیامت دنیا والوں کے سامنے لانے، کروڑہا کروڑ مسلم حفاظ قرآن کریم اہل و شکشم ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کل آسمانی مذاہب میں سے، اسلام ہی وہ آسمانی مذہب آخری ورشن ہے
جسکا آسمانی کتاب قرآن مجید اسکے نزول پر ڈیڑھ ہزار سال بعد بھی، اپنے شروعاتی اثاث کے ساتھ، فی زمانہ موجود ہے۔ آج سے ہزاروں سال بعد، وقت قیامت تک، اس دھرتی پر،بغیر کسی لفظ و زیر وزیر تحریف و تفاوت کے، قرآن مجید کو باقی رکھنے کی ذمہ داری بھی خود خالق کائینات نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے۔ اس لئے ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تمام آسمانی ادیان کے مقابلے، دین اسلام کے پاس صد فیصد اصل حالت میں خالق کائیبات کے کتاب رشد و ہدایت قرآن مجید اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ دین اسلام کے علاوہ سناتن دھرمی ھندو بھائیوں کے پاس انکے پاس تشریف لائے خالق کائینات کے ایمبیسڈر یا دودھ، رشی منہ حضرت آدم سے رشی منی حضرت نوح علیہ السلام تک،مختلف انبیاء کرام اور خالق کائینات کے ان کے توسط بھیجے گئے، صحوف اولی یا زبر الاولین ہی کی صورت ، رگ وید، اتھر وید، سام وید، اور یجر وید مختلف اقسام کے وید اور منواسمرتیان سناتن دھرمی ھندو بھائیوں کے پاس موجود ہیں،یقیناً ہزاروں سالہ زمانہ کی تغیر پسندی رجحان کے چلتے، بہت سارے احکامات تبدیل کئے جاچکے ہیں لیکن پھر بھی قرآن مجید کے احکامات کے سامنے،ان ویدوں میں موجود احکامات کا تقابل کر دہکھیں
بعض مشترکہ مساوی احکامات آسمانی وید وقرآن پر سناتن دھرمی ھندو و مسلم بھائیوں کے آپسی اختلافات نفرتین ختم کئے، یہود و نصاری مابین دین براہیمی طرز مشترکہ اشتراک اخوت بھائی چارگی شروع کئے جیسا مختلف وید و قرآن مشترک اقدار وآحکام پر مشتمل دین نوح اسلام یا دیں منو اسلام مشترکہ اقدار پر، سناتن دھرمی مسلم مشترکہ محبت اخوت بھائی چارگی کو، ایک ڈھال کی طرح ھند میں دانستا پھیلاتے ہوئے،ا اٹل بہاری واجپائی کےزمانے والے، سافٹ ھندتوا تو، 2014بعد، قاتل گجرات، ٹری پار جوڑی والے، نفرتی ھندتواد کو، دین منو،دین اسلام محبت اخوت بھائی چارگی میں بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اور یقینا” اندرون ھند بڑھتی مہنگائی و بڑھتے بے روزگاری کےچلتے، مسابقتی عالمی بازار معیشت میں، کریش کرتی اور صاحب امریکہ کےہندستانی برآمدات پر 50فیصد لیوی ٹیکس لگاتےپس منظر منظر میں، دھڑام سےگرتی بھارتیہ معشیت و تمام چھوٹے بڑے، پڑوسیوں سے پنگا لیتےجھگڑتے،
انہیں اپنے قابو میں کرتے پس منظر میں، بنتے بگڑتے رشتوں والی بیرون ھند عالمی سطح ناکام ترین خارجہ پالیسی، حکومتی ریسورسز لوٹی رقوم ہزار ہا کروڑ بکاؤبھونپو میڈیا پر اڑائے، کبھی “مائی فرینڈ ٹرم” کے نعروں کے ساتھ، ملمع سازی، خود کو وشؤگرو سے بھگوان کے اوتار غیر مرئی شخصیت قرار دیتے ڈھکوسلے شبیہ سے آزاد ، اپنی اردھانجلی بیوی تک کے وفادار نہ ہونے والے، فی زمانہ ہر سو ناکام بدنام ہوتے بھگوان کے اوتار خود ساختہ وشؤگرو کی گرتی شبیہ پس منظر میں، کیا یہ صحیح موقع نہیں لگتا ہے
بھگوان ایشور وشنو کی پریکرماؤں بتوں کی انسانی ہاتھوں بنتی درگت
ج سے کم و بیش 4200 سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمود کے ہاتھ بھڑکائے عالم انسانیت کی سب سے بڑی آگ آلاؤ کے آثار ترکیہ کے بالکلیگول حصہ میں آج بھی موجود ہیں