78

پاکستان پولیس اور ایک عام عورت

پاکستان پولیس اور ایک عام عورت

(تحریر: سمیرا فرخ یو۔کے)

بڑے کہا کرتے تھے خدا تھانے نہ لے جائے اور سوشل میڈیا نے پولیس کا جو چہرا دکھا رکھا تھا اُس سے ڈر لگتا تھا جیسے کوئی وطن کے عوام کے مُحافظ نہ ہوئے لُٹیرے ڈاکو اور خُود سر جنگلی ہوئے جو دیکھتے ہی مار دیتے ہیں، جان نکال لیتے ہیں، کِسی دوسری دُنیا کی مخلوق ہیں جن کے چہرے ہم سے نہیں ملتے لہجہ سخت چہرے کرخت کوئی اور ہی دُنیا کے باسی ہیں۔ جب کوئی کہتا کہ اللہ کا شُکر ہے کبھی تھانے کی شکل نہیں دیکھی تو سوچتی تھی کوئی جن بھوت ہیں جنھیں دیکھنے سے بھی بندہ ڈر جاتا ہے

کوئی آسیب ہیں جو چمٹ جاۓ تو پھر پھلتا پھولتا انسان زرد ہو جاتا ہے لیکن اس بار پولیس سے پالا پڑ ہی گیا وہی ڈائیلاگ میرا بھی تھا ہم جیسے لوگ یہاں نہیں آتے ہمارے گھروں کی بیٹیوں نے تھانے کی شکل کبھی نہیں دیکھی لیکن شکل دیکھنے کے بعد سب کُچھ اُلٹا نظر آیا کہیں کِسی جگہ کِسی اُفیسر سے ملنے سے روکا نہیں گیا کوئی دروازہ پیسہ ڈال کر کُھل جا سِم سِم کر کے کُھلتا نہیں دیکھا کوئی پرچی لکھوا کر نہیں لیجانی پڑی کوئی آسیب نہیں چمٹا کسی ڈاکو نے رقم نہیں لُوٹی اور نہ ہی ایسا لگا کہ یہ آنے کی جگہ نہیں، یہاں آنے والوں کی عزت ختم ہو جاتی ہے البتہ اپنے عورت ہونے پہ وہ بھی پاکستانی ہونے پہ مزید فخر ہوا کیونکہ پاکستان کو جتنا بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اُتنا پاکستان کا نظام خراب نہیں چند لوگوں کی وجہ سے پوری فورس کو ایک ترازو میں تولنا زیادتی ہے اور یہ میں اپنے ذاتی تجربے کے بعد لکھنے پہ مجبور ہوئی ہوں۔ میرے لکھےکالم ہمیشہ سسٹم کی بے ترتیبی، نظام کی بالا دستی پر رہے

پر آج کا لکھا کالم پاکستان کی ایک بیٹی کا دل سے لکھی وہ روداد ہے جو اُس کی آنکھوں نے دیکھااور اُس پہ خود گُزرا۔ سوچا ایک عام عورت کی طرح اس سسٹم میں داخل ہوتی ہوں بنا کوئی تعارف، بنا کسی سفارش، بنا کسی رشوت پھر دیکھتی ہوں کہ ہمارا اتنا مضبوط ادارہ ایک عام عورت کے ساتھ کیا انصاف کرتا ہے۔ لیکن جب تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ ایک عام عورت کو مرکزی پولیس آفس سے لیکر چھوٹے افسر تک رسائی میں کوئی دقت نہیں پیش آئی۔ ہمارے پاکستان میں جیسے ہر جگہ عورت کی لائن ہی الگ ہوتی ہے ویسے ہی یہاں بھی عورت کی شُنوائی بھی پہلے دیکھی۔ جبکہ برطانیہ، یورپ میں مرد عورت کی برابری کی وجہ سے مرد و زن ایک ہی لائن میں کھڑے اور برابری پہ ڈیل ہوتے دیکھے۔ ہم اوور سیز پاکستانیوں کے سب سے بڑے مسائل ہماری پراپرٹی اور پیسوں کے غبن کے مسائل ہوتے ہیں

جو کوئی باہر سے کم مگر اپنے زیادہ ہی کھڑا کر کے ہمارے لیے عذاب بناتے ہیں۔ جن کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں پر اس ایک ہفتے میں سمجھ آیا ہم لوگ سسٹم کو سمجھے بغیر کہ اصل میں کام کی نوعیت کیا ہے اور یہ کام کس سے وابسطہ ہے ادھر ادھر بھاگ کر خود کو ہلکان کرتے رہتے ہیں جبکہ ہم وطن سے دور رہنے والوں کو حکومتِ نے بُہت سی سہولیات دے رکھی ہیں پر ہم پاکستان کو بدنام کرنے کے چکر میں اُن فورمز پر اپنی بات کو ثبوت کے ساتھ پیش کرنے کی جگہ پہلے ہی نظام کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور شاید میں بھی یہی کرتی اگر میرا اپنا واسطہ نہ پڑتا کیونکہ معاشرے سے یہی سُنا ہوا تھا۔ مگر آج میں اپنے اس کالم سے پڑھنے والوں سے گزارش کروں گی

کہ جب کِسی ایسے ادارے سے واسطہ پڑے تو اُن کو عزت دیں اُن کے سامنے اپنی بات رکھیں تو پورے ثبوت کے ساتھ رکھیں اور یقین رکھیں اپنے رب پر کہ وہ نہ انصافی نہیں ہونے دیتا اور جب آپ اپنے دل میں ہی بُرا سوچ کے جائیں گے تو جیسا گُمان ویسا حاصل ہو گا۔ یہ ادارے ہمارے لیے ہی بنے ہیں ان میں بُہت پڑھے لکھے لوگ بیٹھے ہیں جو بات سُنتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو ہو ہی نہیں سکتا وہ میرٹ پر آپ کا ساتھ نہ دیں اور اگر کوئی غلط انسان اُس راستے میں مل بھی جاۓ تو بد دل نہ ہوں رب نے اپنے بُہت اچھے لوگ بھی اپنے بندوں کی مدد کے لیے بھیج رکھے ہیں۔ ذرا دل بڑا کریں اپنے اداروں کو عزت دیں تا کہ آپ کو عزت ملے۔ تھانے جانا بےعزتی سمجھنے کی جگہ اپنے وطن کا مُحافظ ادارہ سمجھ کر جائیں۔

انہیں ہماری مدد کے لیے بنایا گیا ہے وہ ہماری مدد کے لیے ہی معمور ہیں، اُن سے مدد لیں۔ میں پاکستان کی بیٹی ہونے کے ناطے اپنے ضلع راولپنڈی سے تحصیل گوجرخان تک ہر ایک اُفیسر کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے اپنی مدد سے میرے دل میں جمی کائی ہٹا کر ہمارے وطن کی پولیس کا اچھا چہرا روشن کیا۔ اللہ میرے وطن کے سب بیٹوں جو پولیس فورس کا حصہ ہیں میرے ان بھائیوں کی عزتوں میں اضافہ کرے۔

پاکستان کی ماؤں نے غیور بیٹے پیدا کیے ہیں جو اپنے وطن کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں اور لا اینڈ آرڈر کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو سبق سکھانا بھی جانتے ہیں۔ میں نے ایک عام عورت بن کر پاکستان پولیس کو بہترین فورس پایا اور یہی اس برس کا سب سے بہترین تحفہ ہے جو میں پاکستان سے لے جا رہی ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں