تحریر:مریم ظہور 50

“جنسی جرائم اور سماج کا مکروہ چہرہ”

“جنسی جرائم اور سماج کا مکروہ چہرہ”

تحریر:مریم ظہور

جب معاشرہ ظاہری ترقی کی چکاچوند میں اخلاقی زوال کا شکار ہو جائے، تو انسانیت کی بنیادی قدریں دفن ہونے لگتی ہیں۔ آج کے دور میں جہاں تعلیم، ٹیکنالوجی، اور شعور کے دعوے کیے جا رہے ہیں، وہیں دوسری طرف جنسی زیادتی اور حراسانی جیسے انسانیت سوز جرائم روز افزوں بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک فرد یا ایک جنس کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری سوسائٹی کے ضمیر کا امتحان ہے، جو لمحہ بہ لمحہ ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔
جنسی حراسانی اب صرف خواتین یا بچوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ مرد، بزرگ، اور خواجہ سرا بھی اس درندگی کا شکار بن رہے ہیں۔ ایسے جرائم صرف جسم پر نہیں، روح پر زخم چھوڑتے ہیں، اور اکثر متاثرہ فرد پوری زندگی ذہنی اذیت، شرمندگی، اور خاموشی کے بوجھ تلے دب کر جیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب قانون موجود ہے، تعلیم عام ہو چکی ہے، تو پھر یہ رویے کیوں نہیں تھم رہے؟ یہی وہ نکتہ ہے

جس پر ہمیں اجتماعی طور پر غور کرنے اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جہاں بات جنسی ہراسانی کی جائے وہاں منٹو کو یاد نہ کیا جائے تو منٹو کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے جنسی جرائم اور معاشرتی بے حسی کو جس جرات، سچائی اور درد کے ساتھ بیان کیا، وہ آج بھی سماج کا آئینہ ہے۔
منٹو نے کہا تھا:
“اگر آپ ان کہانیوں کو برداشت نہیں کر سکتے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے، میں تو صرف سچ لکھتا ہوں۔”سال (2024) میں جنسی جرائم کا مجموعی اعداد و شمار دیکھا جائے تو پاکستان میں سال 2024 کے دوران صنفی بنیاد پر تشدد (Gender-Based Violence – GBV) کے 32,617 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں 5,339 ریپ، 24,439 اغواء، 2,238 گھریلو تشدد، اور 547 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل تھے۔
پنجاب میں 26,753 کیسز، جن میں 20,720 اغواء، 4,641 ریپ، 1,167 گھریلو تشدد، اور 225 غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں۔
اسلام آباد میں 220 کیسز، جن میں 176 ریپ، 22 غیرت کے نام پر قتل، اور 22 گھریلو تشدد شامل ہیں۔
سندھ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان میں مجموعی طور پر 5,864 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں ریپ، اغواء، گھریلو تشدد، اور غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں۔
آج کے دور میں سے بچوں کے ساتھ زیادتی عام بات بن چکی ہے۔بچے جنہیں پھولوں کا باغ کہا جاتا تھا وہ بچے جہنوں نے گلیوں کوچوں میں کھیلنا تھاوہ بچے جنہوں نے باپ کے انگلی پکڑ کر جینا سیکھنا تھا آج وہ ظلم وزیادتی، جبر و تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں کچھ زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو کوئی جسمانی اعضاء سے ۔سال 2024 میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 7,608 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 2,954 جنسی زیادتی، 2,437 اغواء، 683 جسمانی تشدد، اور 586 بچوں کی اسمگلنگ کے واقعات شامل تھے

۔ ان میں سے 72% کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔یہ تمام جرائم پاکستان کے کئی اضلاع میں ابھی بھی جاری ہیں جن کے لیے قانونی کاروائی ضروری ہے
اسی کے ساتھ اگر آزاد کشمیر میں ان جرائم کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو 2025 تک آزاد کشمیر میں رپورٹ شدہ چند نمایاں واقعات میں جنوری 2025: ضلع سدھنوتی میں ایک 22 سالہ خاتون کے ساتھ گھر میں مبینہ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ ملزمان میں سے ایک گرفتار کر لیا گیا، دوسرا گرفتار کرنے کی کارروائی جاری ہے۔
نومبر 2023: ضلع نیلم کی عدالت نے ایک طالبہ کے ساتھ 2019 میں پیش آنے والی زیادتی کے مقدمے میں مجرم کو کلی طور پر 20 سال ایک ماہ قید، 50 کوڑے اور 5 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔
2021: ضلع باغ میں دو طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں ایک پولیس کانسٹیبل گرفتار ہوا۔
مظفرآباد (2021–2025): ایک نجی اسکول کے پرنسپل کی جانب سے سکول طلبہ کے جنسی استحصال کی ایک متاثرہ لڑکے نے شکایت کی۔ پولیس نے کارروائی کی، تاہم متاثرہ نے بتایا کہ سماجی دباؤ اور ثبوت کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاملے کو آگے نہ بڑھایا گیا۔
ستمبر 2025 تک پاکستان میں (غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ) کے مطابق پہلے 6 ماہ میں 950 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے۔اس میں آزاد کشمیر سمیت کئی علاقہ جات شامل ہیں، لیکن آزاد کشمیر کا حصہ تقریبا 6 فیصد ہےمحدود درج کیسز آزاد کشمیر میں رپورٹ شدہ کیسز کم ہیں لیکن ان میں شدید نوعیت کے واقعات شامل ہیں۔حساسیت و دباؤ متاثرین کو اکثر قانونی و سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے ثبوت نا ہونے پر شک، سماجی ڈر وغیرہ۔
قانونی جوابی کاروائی عدالتی اور پولیس کارروائیاں ہوئی ہیں—کچھ کیسز میں مجرم سزا یافتہ ہوئے، بعض میں جاری ہیں، اور بعض معاملے متاثرین نے خودعرائی یا حالات کی بنا پر پیچھے لے لیے۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں بھی یہ مسئلہ موجود ہے، اگرچہ رپورٹنگ کی شرح کم ہے۔
ان جرائم کی کئی وجوہات ہیں

جن میں سزا کی شرح کم ،ریپ اور غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں سزا کی شرح صرف 0.5% ہے، جو نظامِ انصاف کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔متاثرین اور ان کے خاندان سماجی بدنامی کے خوف سے کیسز رپورٹ نہیں کرتے تحقیقات میں خامیاں، ثبوتوں کی کمی، اور عدالتی تاخیر مجرموں کو سزا سے بچنے کا موقع دیتی ہیں۔پاکستان اور آزاد کشمیر میں جنسی ہراسانی اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت اور استعداد کار میں اضافہ کیا جائے۔متاثرین کی حفاظت اور ان کی مدد کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے جائیں۔عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اور میڈیا مہمات چلائی جائیں۔عدالتی نظام میں اصلاحات لا کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
ان اقدامات سے نہ صرف جرائم کی شرح میں کمی آئے گی بلکہ متاثرین کو انصاف کی فراہمی بھی ممکن ہو سکے گی۔
اس حوالے سے ایک حدیث حدیث نبوی ﷺ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”
(صحیح بخاری: حدیث 10)
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام میں کسی بھی شخص کو جسمانی یا ذہنی اذیت دینا، چاہے وہ زبان سے ہو یا عمل سے، سختی سے منع ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں