اگست ماہ آزادی کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
تحریر: حفصہ سرفراز
آزادی یہ لفظ سننے میں سکون کی سانس جیسا لگتا ہے، جیسے بند کمرے میں پہلی بار کھڑکی کھلے اور تازہ ہوا اندر آئے۔ مگر اکثر یہ ہوا دھوئیں میں لپٹی ہوتی ہے ایسی کہ سانس بھی گھٹ جائے۔ سبز پرچم، کھلی فضا، اور آزاد فضاؤں میں لہراتی ہوائیں یہ سب حسین ہیں، لیکن کیا یہ سب ہماری حقیقت ہے یا محض ایک خواب کا فسوں؟ہم نے ایک خطہ تو حاصل کر لیا، مگر کیا اپنے دل و دماغ کی زنجیریں بھی توڑ پائے؟ کیا ہمارے خیالات آزاد ہیں یا اب بھی خوف، جبر اور منافقت کے حصار میں قید ہیں؟ اگر اختلافِ رائے جرم ہے، سچ بولنا خطرہ ہے، اور حق مانگنا گناہ، تو پھر یہ آزادی نہیں، ایک نیا قید خانہ ہے۔
انصاف… وہ مقدس چراغ جو ہر ریاست کی بنیاد میں جلتا ہے۔ مگر جب یہ چراغ صرف طاقتور کی چوکھٹ روشن کرے اور کمزور کا آنگن اندھیرا چھوڑ دے، تو یہ روشنی نہیں، دھوکا ہے۔ قانون تب معتبر ہے جب اس کے الفاظ ہر ہاتھ میں ایک جیسے محسوس ہوں—چاہے وہ ہاتھ غریب کا ہو یا امیر کا۔
معاشی غلامی بھی ایک ایسی قید ہے جس کی زنجیریں نظر نہیں آتیں مگر روح کو جکڑ لیتی ہیں۔ جب ایک طبقہ دولت میں نہاتا ہے اور دوسرا روٹی کو ترستا ہے، تو یہ عدم توازن ریاست کے وجود میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔
آزاد ریاست میں عورت اور مرد کو ایک ہو کر، حسد اور انا کے بغیر، ملک و معاشرے کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ دوسروں کی زندگیوں میں بےجا مداخلت، آزادی کی روح کو زخمی کرتی ہے۔ اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب انسان غریب ہوتا ہے، بھوکا پیاسا سڑک پر رات گزارتا ہے، تو نہ کوئی حکومت اس کا حال پوچھتی ہے اور نہ کوئی سرکار اس کے حق میں کھڑی ہوتی ہے۔ مگر جیسے ہی وہ اپنی محنت سے کچھ بنا لے، اس کا بینک بیلنس ہو جائے، اچھی زندگی مل جائے، تو ہر طرف سوالات اٹھنے لگتے ہیں۔ جب غربت میں اس کا حال نہیں پوچھا گیا، تو اب اس کی خوشحالی پر سوال اٹھانے کا حق کس نے دے دیا؟
ہماری سماجی دیواروں پر ذات، برادری، رنگ اور مفاد کے بورڈ آویزاں ہیں۔ انسان کو انسان کے بجائے لیبل سے پہچاننا، معاشرتی قید کا بدترین روپ ہے۔ اور ایک مسلم ریاست کی اصل خودمختاری تب ہے جب شریعت اور اسلامی اصول صرف تقریروں میں نہیں، زندگی کے ہر گوشے میں نظر آئیں—عدل، مساوات، رواداری اور خدمتِ خلق کے رنگوں میں۔
ہمیں آزاد پاکستان تو مل گیا، مگر ابھی آزاد انسان پیدا ہونا باقی ہے۔ ہماری سرحدیں آزاد ہیں مگر سوچ ابھی قید میں ہے۔ ہمارا پرچم لہراتا ہے مگر انصاف، معیشت، اور تعلقات کے رنگ پھیکے ہیں۔
آزادی کا دن صرف 14 اگست نہیں، بلکہ یہ ہر دن، ہر سوچ، ہر فیصلے، اور ہر عمل میں ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اپنے اندر کے خوف، تعصب اور ناانصافی کو دفن نہیں کرتے، ہماری آزادی محض ایک خوش فہمی رہے گی، اور ہماری خودمختاری ایک ادھورا وعدہ۔