تیل کے بڑے ذخائر کااعلان !
پا کستان میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کے حواکے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں ، اس بارے وسوخ سے کبھی اعلان تو نہیں کیا گیا ، مگر اس بارے صدر ٹرمپ نے اعلان کرکے سب کو ہی حیران کر دیا ہے ،امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تیل کے وسیع ذخائر نکالنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، اس کے تحت دونوں ممالک مل کر تیل کے وسیع ذخائر کو قابل بازیافت ذخائر میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے ،اس وقت ’ہم آئل کمپنی کا انتخاب کرنے کے عمل میں ہیں ،
جو کہ اس پارٹنرشپ کو لیڈ کرے گی ، اس کا بھر پور فائدہ دونوں ہی ممالک کو ہو گا اورآنے والے وقت میں ہو سکتا ہے کہ ایک دن پا کستان، انڈیا کو بھی اپنا تیل بیچ رہا ہو گا۔اگر دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں گذشتہ چند سالوں سے مسلسل کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے
اس کی وجہ سے مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک سے ان مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ ہورہاہے،اس موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تیل کے ’’بڑے‘‘ ذخائر سے متعلق اعلان نے بین الاقوامی توانائی کے منظرنامے میں پاکستان کو ایک نئی توجہ دلائی ہے، اس اعلان کے بعد سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پاکستان واقعی تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پر بیٹھا ہے یا محض عالمی سیاسی باتیں ہورہی ہیں اوراس کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہی ہیں، جیسا کہ بھارت پر دبائوڈالنا یا پا کستان کو کسی ڈومور کے مطالبے سے قبل خوش کر نا بھی ہو سکتا ہے۔اس ملک میں تیل اور گیس کی تلاش کی باتیں کوئی پہلی بار نہیں ہورہی ہیں ، اس سے قبل بھی ایسی ہی باتیں ہوتی رہی ہیں ،
اس کی پہلی تلاش 1887 میں برطانوی ہند کے دور میں شروع ہوئی۔ 1952 میں بلوچستان میں سوئی گیس فیلڈ کی دریافت ایک اہم سنگ میل تھی، اس کے بعد 1960 کی دہائی میں مزید گیس کے ذخائر دریافت ہوئے،2014 میں ہونے والی ایک تحقیق اور امریکی ادارے ای آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ٹائٹ گیس اور شیل کے بڑے ذخائر موجود ہیں، اس کا تخمینہ 35 سے 70 ٹریلین کیوبک فٹ ہے، لیکن ان ممکنہ ذخائر کے باوجود، پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش میں بین الاقوامی کمپنیوں کی دلچسپی نہ صرف انتہائی کم رہی ہے ،بلکہ کئی بڑی آئل اینڈ گیس کمپنیاں واپس بھی جا چکی ہیں،
اس کی بنیادی وجوہات میں جہاں سیاسی عدم استحکام، سیکورٹی کے خدشات، اور اقتصادی عوامل شامل رہے ہیں ، و ہیں بین الاقوامی سیاسی پہلو بھی کار فر مارہے ہیں۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ پا کستان میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں ،لیکن پا کستان کا درینہ دوست چین کبھی نہیں چاہئے گا کہ اس پر امر یکہ پا کستا میں سر مایہ کاری کرے،،کیو نکہ چین نے سی پیک کے تحت پاکستان میں توانائی اور بندرگاہوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، خاص طور پر بلوچستان میںجہاں چینی انجینئر اور منصوبے موجود ہیں، اگر امریکا بلوچستان یا ساحلی علاقوں میں تیل کے منصوبے شروع کرتا ہے
، تو یہ چین کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے، چین اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے مشرق وسطیٰ اور افریقا پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور اس کیلئے سی پیک ایک متبادل اور محفوظ تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے، امریکی کمپنیوں کی پاکستان کے توانائی کے شعبے میں آمد چین کے لیے ایک چیلنج ہوگااور خاص طور پر سرمایہ کاری ایسے علاقوں میں کی جائے کہ جہاں چین کے اسٹرٹیجک مفادات ہیں۔
یہ صورتحال پا کستان کیلئے ایک سفارتی چیلنج ہے، پا کستان کو امریکا اور چین دونوں کے ہی ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہے،پا کستان کسی ایک کی ناراضگی مول لے سکتا ہے نہ ہی اپنے قومی مفادات دائو پر لگا سکتا ہے ، پاکستان نے ایسے موقع پر دونوں ہی بڑی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی بھر پور کوشش کرے گا،لیکن اس توازن کو نئی صورتحال مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے، اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے تیل کے ذخائر کا فائدہ اٹھانا اتناآسان نہیں ہو گا،
پا کستان نے پس پردہ پراکسی وار سے خود کو بچانا ہے اور چین کے مفادات کو بھی تحفظ دینا ہے ، پا کستان نے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنا ہے نہ ہی دونوں پلڑوں میں ڈال کر عدم توازن کا شکار ہونے دینا ہے ، پا کستان ایک عرصہ سے امر یکہ اور چین کو ایک ساتھ لے کر چلنے میں کوشاں رہا ہے ، لیکن کیااس معاملے پر بھی دونوں کو راضی رکھنے میں کا میاب ہو پائے گا ؟یہ ایک بڑا ہی اہم سوال ہے ،اس پر ماہرین کا کہنا ہے،کہ فی الحال پاکستان کا تیل مستقبل قیاسی، غیر مصدقہ اور غیر تجارتی نوعیت کا ہے
،اس تجارتی ڈرلنگ کے جب تک مثبت نتائج سامنے نہیں آتے، ذخائر کی تصدیق نہیں ہوتی، اور اقتصادی و سفارتی رکاوٹیں دور نہیں ہوتیں ، تب تک بھارت کو تیل فروخت کرنے کی بات جو سامنے آرہی ہے ،یہ محض سیاسی باتیں ہیں،تاہم یہ پاکستان کے لیے ایک اچھا مواقع بھی فراہم کرتی ہے، اگر امریکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی پاکستان میں آتی ہے، تو یہ توانائی کے شعبے میں نئی جان ڈال سکتی ہے
اور ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں جہاںمدد دے سکتی ہے،وہیں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک موقع بھی فراہم کر سکتی ہے، لیکن اس کیلئے امر یکہ پر اعتماد کر کے ایک با اعتماد دوست کی ناراضگی مول نہیں لی جاسکتی ہے ،اس کیلئے چین کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا ہو گا ، اس حوالے سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا چین کا دورا بڑا ہی اہمیت کا حامل رہا ہے ، اس دورے کے اثرات پاک امر یکہ کا میاب معاہدے کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ۔