تحریر:نعیم الحسن نعیم. 185

احتیاط کیجیے،کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔

احتیاط کیجیے،کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔

تحریر:نعیم الحسن نعیم
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی پولیٹیکل پولرائیزیشن اب عدم برداشت کی صورت میں ہم سب کے گھروں میں اور نجی تعلقات میں آ گھسی ہے۔سیاسی تفریق اب دلوں میں تفریق لانے لگی ہے۔جب کہ سیاست بنیادی طور پر انسانوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے اور انہیں قریب لانے کا نام ہے۔ایسی سیاست جو نفرتیں پیدا کرے، دوریاں لے آئے، وہ کچھ بھی ہو، سیاست نہیں۔آپس میں گفتگو کا معیار اس قدر گر چکا ہے

کہ باہمی احترام نام کی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی۔ ایسے ایسے سنجیدہ احباب کی زباں بگڑتے دیکھائی پڑتی ہیں کہ حیرت اور رنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔درجنوں دوست و احباب ایک دوسرے کوسوشل میڈیا پر انفرینڈ کر چکے ہیں، گھریلو تعلقات بھی باہمی تفریق اور بے ادبی کی صورتحال سے دو چار ہیں۔کیا یہ مناسب ہے کہ ھم ایک ایسی صورت حال کی وجہ سے آپس میں بدزن ہوں جس میں براہِ راست ہمارا کوئی ہاتھ بھی نہیں۔

جھوٹے وعدوں اور بلند و بانگ دعووں کا سلسلہ سیاسی قائدین سے شروع ہو کر ہی عوام تک پہنچتا ہے مگر معاشرے کو اس دلدل سے نکالنے کی ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے وہ اس سے بری الذمہ نظر آتے ہیں. عوام کے دل و دماغ میں جو زہر گھول دیا گیا اور گھولا جا رہا ہے اس کا نتیجہ معاشرتی، اخلاقی انحطاط اور سماجی تباہی کی صورت میں سامنے ہے. لغویات، فحش گوئی، بدکلامی، الزام تراشی اور بہتان روز مرہ معمولات میں شامل.تعلیم کا نور کہ جس نے ہر فرد کو اخلاق سے مزین اور منور کرنا تھا بجھ چکا اور تعلیمی اداروں کی صورتحال فلم انڈسٹری کے ماحول سے کم نہیں. جب میڈیا دن رات اخلاق باختہ پروگرام چلائے،

والدین اپنی اولاد کی تربیت سے پہلو تہی برتیں، مغرب سے مرعوب زدہ نظام تعلیم ہو تو غزالی، و فارابی تو پیدا ہونے سے رہے. تیزی سے بڑھتی ہوئی پولیٹیکل پولرائیزیشن اب عدم برداشت کی صورت گھروں میں نجی تعلقات تک خراب کر چکی ہے. سیاسی تفریق نے رشتوں سے اگے اب دلوں میں نفرت پیدا کر دی. ایسی سیاست جو نفرتیں پیدا کرے، دوریاں لے آئے، وہ کچھ بھی ہو، سیاست نہیں۔ آپس میں گفتگو کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ باہمی احترام نام کی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی۔ سنجیدہ احباب کی زباں بگڑتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مہذب اور دلیل کی ساتھ گفتگو جو سیاسی کارکن کا زیور تھا،

لٹ گیا.بدکلامی، بدزبانی، بے ہودہ گفتگو، جھوٹ اور بہتان تراشی اگر ہمیں اپنی ذات کے لیے پسند نہیں تو پھر سوشل میڈیا کے ذریعے یہ آگ دوسروں پر کیوں برسائی جا رہی ہے. دوسروں کو چھوڑیے اپنی اور گھر کی اصلاح سے آغاز کریں تو معاشرہ سنور سکتا ہے مگر اس کےلئے مذہبی و سیاسی شدت پسندی کو چھوڑ کر اعتدال کا رستہ اپنانا ہو گا. باقی اپنا تو حال کچھ یوں کہ ”ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا،دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں“
سیاسی عدم برداشت، تناؤ اور نفرت کی فضا پیدا کرنے میں آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے۔ اس کی آج سے کچھ عرصہ پہلے تک کوئی نظیر نہیں ملتیسیاسی مخالفت میں نفرت اور رویے میں شدت پسندی نے سیاست میں عدم برداشت کا جس کلچر نے فروغ پا لیا ہے۔ اس منفی رجحان کے خاتمے کے لئے سیاسی رہنماؤں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستانی سیاست دانوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کی سیاسی اور جمہوری طرز پر تربیت کریں جہاں معاشرے میں عدم برداشت اور عدم استحکام کو فروغ نا مل سکے.
موجودہ حالات کو ہی دیکھ لیں کسی بھی طرف سے مفاہمت، میانہ روی اور صلح کی بات سننے کو نہیں مل رہی۔ سب اپنے اپنے فلسفے کے مطابق بیانات جاری کر رہے ہیں اگر اس طرح ہی چلنا ہے تو آگے کے ستر سال بھی پاکستانی معاشرہ ارتقائی عمل میں ہی رہے گا جہاں عدم برداشت اور عدم استحکام کم کرنے کی ذرا بھی کوشش کسی بھی طرف سے ہوتی ہوئی نظر نہیں آئے گی
اس کے لئے وسیع قومی بحث کی ضرورت ہے

تاکہ جب لوگ احساسات کی بجائے حقائق پر توجہ مرکوز کریں، تو وہ تنازعات کے بارے میں ایک پرسکون اور وسیع تر سمجھ پیدا کریں۔ یہ زیادہ متوازن نقطہ نظر، بدلے میں، دوسری طرف کے لیے عدم برداشت کو کم کرتا ہے۔دوبارہ تشخیص معاشرے کے لیے سب سے زیادہ موثر ہے جو پریشان نہ ہونے پر رواداری کی قدر کرے اور لوگ جمہوری اصولوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار کے ساتھ دوسرے کو بھی برداشت کا درس دیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کا باعث بنیں۔ہمیں اپنے جیسے عام انسانوں کی زندگیوں کو سہل بنانا اور انکو ہنستا بستا دیکھنا چاہئے،دین کے بتائے راستے کو اپنائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لیڈروں کی وجہ سے دین اور ایمان کو ہاتھ سے گنوا بیٹھیں۔ حق اور باطل میں فرق سمجھیں، کسی پر اپنی بات نا تھوپیں اور سنی سنائی باتوں کو پھیلانے سے پرہیز کریں پہلے تحقیق کریں۔
افواہیں پھیلانے والے عناصر کا حصہ نا بنیں، یہ مفاد پرست جھوٹ پر مبنی تصاویر ویڈیوز پوسٹیں ہماری اندھی تقلید کا سہارہ لیتے ہوئے ہمارے ہی ذریعے سے معاشرے میں پھیلا رھے ہیں، جسکی وجہ سے عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔
پیارو محبت کو پروان چڑھائیں اچھے معاشرے کے مہذب شہری بنیں۔ آئیے عہد کریں کہ حالات کی آندھی کو اپنے اوپر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں گے۔ایک قوم بنے رہیں گے،محبت اور باہمی احترام کے ساتھ مکالمہ کرتے رہیں گے، آگے بڑھتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں