ہم مختلف کیوں ہیں ؟ہم دوسروں سے موازنہ کیوں کرتے ہیں ؟
تحریر: طوبیٰ ارشاد
ہم میں سے ہر شخص الگ الگ ہنر رکھتا ہے،کوئی انجینیئر ہے کوئی ڈاکٹر ہے کوئی ٹیچر ہے کوئی مزدور ہے تو کوئی موچی ہے،کوئی حجام ہے کوئی آرٹسٹ ہے کوئی عالم ہے۔ہر شخص ایک مختلف ہنر کا ماہر ہے،ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم کسی کرکٹ میچ کے کھلاڑی کی طرح آل راؤنڈر کیوں نہیں ہوتے،کیوں ہمیں سب کام نہیں آتے آخر کو ہم اشرف المخلوقات ہیں،پھر ہم ایک دوسرے پر انحصار کیوں کرتے ہیں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے؟اللّٰہ چاہتا تو ہم سب کاموں میں ماہر ہوتے،وہ ہمیں اسی فطرت پر پیدا کرتا،ہم کسی دوسرے شخص پر منحصر نہ ہوتے،سارے بوجھ ساری زمیداریاں ہماری اپنی ہوتیں۔لیکن ایسا نہیں ہے،ہم انحصار (depend)کرتے ہیں ایک دوسرے پر،ہم چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے گھر میں موجود افراد پر بھی منحصر ہوتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟ہاں ہم نے پڑھا ہے کہ ہم معاشرتی جانور ہیں،
ہم رہ نہیں سکتے ایک دوسرے کے بغیر،لیکن کیا بس یہی ایک وجہ ہے؟ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے کام خود کریں،کسی کے محتاج نہ ہوں،بس فارغ وقت میں لوگوں سے ملیں۔لیکن ایسا نہیں ہے،ہمیں ہر ہفتے یا مہینے میں بال بنوانے کے لیے کسی حجام کی ضرورت ہوتی ہے،ہمیں سودا سلف خریدنے کے لیے دکاندار کی ضرورت ہوتی ہے،سوائے چند کاموں کے جو ہمیں خود آتے ہیں،باقی ہر کام کے لیے ہم dependent ہوتے ہیں۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ ہم سب جڑے رہیں ایک دوسرے سے،ہم چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے کسی اور کی مدد کا ذریعہ بن رہے ہوتے ہیں،ہمارا ایک جوتا گانٹھنا ہمیں نہ آنا کسی موچی کے لیے اس کا رزق ہوتا ہے۔دوسری وجہ یہ کہ ہم انسان ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں
۔ہم مختلف بھی اس لیے ہوتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ایک کام کا ماہر ہے تو کوئی دوسرے کا،کسی ایک کی خوبی کسی دوسرے کی کمزوری ہو سکتی ہے،ہمیں صرف finger prints ہی نہیں بلکہ مکمل شخصیت کے لحاظ سے مختلف بنایا گیا ہے،ہم اپنی ماں سے،بہن بھائیوں سے،دوستوں سے،ہر کسی سے مختلف ہوتے ہیں۔خونی رشتوں یا کسی بھی انسان سے ایک آدھ عادت میں مشابہت ہونا ہمیں ان کا دوسرا ورژن نہیں بناتا۔ہم سا کوئی اور نہیں ہوتا،کوئی دوسرا بنایا ہی نہیں گیا۔پھر یہ comparison کہاں سے آیا؟یہ کیوں ہوتا ہے؟یہ بہن بھائیوں میں بھی ہوتا ہے،دوستوں میں بھی،اور کسی اجنبی یا مشہور شخصیت سے بھی ہو سکتا ہے۔یہ آپ خود بھی کرتے ہیں اور کوئی دوسرا بھی آپ کو اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے۔کسی بھی ذہنی طور پر صحت مند انسان کے نزدیک comparison ایک ذہنی بیماری ہے
،اگر آپ کو یہ لگ جائے تو آپ اپنے رہتے ہی نہیں،آپ اپنے اصل سے بہت دور نکل جاتے ہیں،آپ صرف وہ بن کے رہ جاتے ہیں جن سے آپ خود کو compare کرتے رہتے ہیں۔ان کی اچھائیاں آپ کو اپنی لگتی ہیں،ان کی برائیاں آپ کو اپنی کمزوریاں لگتی ہیں،ان کی کامیابیاں آپ کی obsession بن جاتی ہیں،آپ ان کے گرد گھومتے رہتے ہیں،ایک endless loop میں،اور اپنے اصل سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔آپ وہ ورژن کھو دیتے ہیں جس کے لیے اللّٰہ نے آپ کو بنایا،آپ کی uniqueness ختم ہو جاتی ہے۔اللّٰہ نے انسان سے بڑھ کر کسی مخلوق کو عزت نہیں دی،اللّٰہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی عزت کریں
،اور ہم احساس کمتری کا شکار بھی اسی لیے ہوتے ہیں کہ ہم خود اپنی عزت نہیں کرتے،ہم خود کو گرا دیتے ہیں،سادہ لفظوں میں اللّٰہ کے بندوں کے غلام بن جاتے ہیں۔یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔شرک صرف پتھر پوجنے کا نام نہیں،ہم روز مرہ زندگی میں کئی چیزوں کو اللّٰہ سے زیادہ اہمیت دے رہے ہوتے ہیں۔کسی انسان سے obsessed ہونا،اندھوں کی طرح اسے فالو کرنا،کسی کے لیے خود کو تباہ کر دینا ، یہ سب شرک کی اقسام ہیں۔کیونکہ اللّٰہ کے علاؤہ کوئی شخص اتنی اہمیت کا حقدار نہیں ہے کہ آپ خود کو اس کے لیے تباہ کر دیں۔ہمیں کسی کا دوسرا ورژن نہیں بننا ہوتا،اللّٰہ نے ہمیں قوی،عزت دار اور غیرت مند بنایا ہے،اس نے ہمارے اندر self-worth کا شعور رکھا ہے تاکہ ہم خود کو اہمیت دیں۔اور کسی بھی چیز کو value تب دی جاتی ہے ۔جب ہم اس کو پہچانیں۔
لہذا اپنی عزت کریں،اپنے اصل کو پہچانیں۔یہ اصل کبھی بھی ہمیں بنا بنایا نہیں ملتا،بلکہ ہمیں خود اپنی تلاش کرنی پڑتی ہے۔انسان اپنی ذات میں ایک puzzle ہوتا ہے،جیسے ایکسرے میں veins کو دیکھ کر چکرا جاتا ہے،ویسے ہی ہماری ذات ہوتی ہے۔ ہمارا دل ہمارا دماغ ایسے ہی پزل کی طرح ہوتے ہیں ۔ہمیں انہیں ایک سرے سے پکڑ کر سلجھانا ہوتا ہے ایسے کے سارے رنگ ترتیب سے نظر آئیں ہمیں پتہ لگے کہ یہ ہماری طاقت ہے، یہ ہماری کمزوری ہے، یہ ہماری کامیابی ہے یہ ہمارے ٹریگرز ہیں۔ ہمیں ان کو جان کر زندگی گزارنی ہوتی ہے اسی زندگی میں رہ کر ہمیں جنت کمانی ہوتی ہے اسی ایک ذاتی منفرد انسان کے ساتھ جو ہم نے اپنے اندر کہیں دور سلایا ہوتا ہے۔ خود کو پہچانیے اور اپنی انفرادیت کو قبول کیجیے۔آسان رہیں،سیکھتے رہیں،مسکراتے رہیں!