عدالتی جنگ جیتنے کے بعد بھی سیاسی اخلاقیات کا امتحان:
✍️ تحریر: چوہدری فضل حسین
چوہدری یاسین اور ابرار قریشی کے درمیان تنازعہ — کیا جرمانہ معاف ہونا چاہیے تھا؟
برطانیہ کی ہائی کورٹ نے حالیہ دنوں میں ایک ہائی پروفائل ہتکِ عزت کیس کا فیصلہ سنایا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر چوہدری محمد یاسین اور ان کے بیٹے عامر یاسین نے معروف یوٹیوبر و اینکر ابرار قریشی کے خلاف دعویٰ دائر کیا تھا۔ عدالت نے ابرار قریشی کے خلاف £260,000 کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے اسے جھوٹے اور بد نیتی پر مبنی الزامات قرار دیا۔
عدالت کا فیصلہ انصاف کی فتح ضرور کہلاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چوہدری یاسین کو عدالت کی فتح کے بعد فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرمانہ معاف نہیں کرنا چاہیے تھا؟
کیا ایک سیاسی رہنما کی عظمت یہ تقاضا نہیں کرتی کہ وہ قانونی فتح کو سیاسی اور اخلاقی برتری میں بدل دے
کیس کا پس منظر:
ابرار قریشی نے اپنے یوٹیوب چینل پر چوہدری یاسین اور ان کے خاندان کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے جن میں کرپشن، بدسلوکی اور بلیک میلنگ شامل تھیں۔ ان الزامات کو عدالت نے “بدنیتی پر مبنی جھوٹ” قرار دیا۔ جج نے یہ بھی کہا کہ ان الزامات کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور ان کا مقصد صرف کردار کشی تھا-
قانونی فتح، لیکن اخلاقی چیلنج؟
چوہدری یاسین نے عدالتی جنگ جیت کر یہ ثابت کیا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد تھے۔ یہ ان کی ساکھ کی بحالی کے لیے اہم ترین قدم تھا۔
لیکن سوال یہ نہیں کہ وہ جیتے یا ہارے، بلکہ یہ ہے کہ کیا انہوں نے جیت کر وہ “سیاسی ظرف” دکھایا جو ایک رہنما کو عظیم بناتا ہے؟
اگر وہ چاہتے، تو:
• وہ ابرار قریشی کو عدالتی معافی نامے کے بعد ذاتی طور پر معاف کر سکتے تھے
• عدالت سے باہر راضی نامہ کر کے، جنگ کو ختم کر سکتے تھے
• “ہم نے اپنا حق عدالت سے لے لیا، اب معاف کرنا ہمارا فیصلہ ہے” جیسا بیان دے کر اپنے لیڈرشپ امیج کو مزید نکھار سکتے تھے
چوہدری یاسین نے:
• جرمانہ کی مکمل رقم واپس لینے کا مطالبہ برقرار رکھا
• عدالت کے فیصلے پر زور دیا کہ ابرار قریشی پبلک معافی شائع کرے
• سیاسی سطح پر معاملے کو نرم کرنے کے بجائے قانونی سختی کا راستہ اپنایا
یہ فیصلہ قانونی طور پر درست ہو سکتا ہے، لیکن سیاسی اور عوامی پہلو سے اس میں ظرف کی وہ جھلک نہیں آئی جس کی عوام ایک سینئر رہنما سے توقع کرتی ہے۔
ابرار قریشی کی ممکنہ حکمتِ عملی:
ابرار قریشی، اگرچہ قانونی جنگ ہار چکے ہیں، لیکن بطور اینکر پرسن ان کے پاس رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا پلیٹ فارم اب بھی موجود ہے۔
یہ خطرہ برقرار ہے کہ:
• وہ چوہدری یاسین کی ذاتی، سیاسی یا حکومتی کمزوریاں مزید اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے
• “میں مظلوم ہوں” بیانیہ لے کر عوام کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے
• مقدمے کے فیصلے کو سنسرشپ یا صحافت پر حملہ قرار دے کر ہمدردی حاصل کریں گے
اگر چوہدری یاسین نے معاف کر دیا ہوتا تو
• وہ قانونی برتری کو اخلاقی فتح میں بدل سکتے تھے
• ابرار قریشی کے پاس مزید مواد نہ رہتا
• ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے ان کا قد اور اعتماد عوام میں مزید بلند ہوتا
• صحافی برادری میں بھی اعتدال پسند پیغام جاتا
چوہدری یاسین کو عدالت سے انصاف ضرور ملا، لیکن اگر وہ سیاسی ظرف، دور اندیشی اور قیادت کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے اور ابرار قریشی کو معاف کر دیتے، تو یہ ایک مثال بن جاتی۔
سیاست دان کی سب سے بڑی خوبی مفاہمت، وسعتِ قلب اور بصیرت ہوتی ہے — اور شاید یہ وہ موقع تھا جہاں وہ اپنی سیاسی قامت کو مزید بلند کر سکتے تھےاور اپنی پیپلز پارٹی کی چیرمین شپ کو مزید وسعت بھی مل جاتی اور آنے والے سیاسی زلزلے کو بھی روکا جا سکتا تھا سیاسی سوداگروں کو ایک اور موقع فراہم کر دیا ۔
اب یہ تنازعہ بظاہر ختم نہیں ہوا، بلکہ نئی شکل میں جاری رہے گا۔