58

تعلیم کیلئے تشدد ضروری نہیں !

تعلیم کیلئے تشدد ضروری نہیں !

پاکستان میںدوسرے کئی حوالوں کی طرح تعلیم و تدریس کے حوالے سے استاد کی مار بھی ایک روایتی جملہ رہاہے کہ اگر کسی کو بچپن میں استاد کی مار پڑ گئی ہوتی تو وہ ایسا نہ ہوتا، جیسا اب نظر آرہا ہے، بلکہ بالکل سُدھر گیا ہوتا،در اصل روایتی طور پر استاد اور مدارس کی مار کو طالب علموں کی بہتری سے تعبیر کیا جاتا ہے ، جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ، مغرب میں ایسا کوئی تصور بالکل ہی نہیںہے ، وہاں پربچے کی دماغی اور جسمانی نشونما کے لئے اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے

کہ بچوں کو ڈرایا یا دھمکایا نہ جائے، بلکہ انہیں خود کچھ کرنے کا موقع دیا جائے ،اس لیے ہی بچوں کی تعلیمی بنیاد مضبوط ہوتی ہے ،بلکہ اُن میں بلاکی خود اعتمادی بھی آتی ہے ،لیکن یہاں پر مار پیٹ سے بچوں کو پڑھائی سے نہ صرف بھگایا جارہا ہے، بلکہ زندگی سے بھی محروم کیا جارہاہے،گزشتہ دنوں سوات کے علاقے خوازہ خیل میں ایک دینی مدرسے کے 14سالہ طالبعلم کی اپنے استاد کے بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں لرزہ خیز موت جہاں ہر جہاں صاحب اولاد کے لئے دل دہلا دینے والا واقعہ ہے، وہاں ارباب اختیار کے لئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے؟
یہ کوئی پہلا واقعہ ہے نہ ہی کوئی آخری ہو گا ، کیو نکہ اس ملک کے حکمرانوں کی تر جیحات میں عوام ہیں نہ ہی اُن کے در ینہ مسائل رہے ہیں ، اس لیے ہی ایک کے بعد ایک ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں

اور اس کا کو ئی مستقل تدارک کر نے کے بجائے وقت گزاری کیلئے عارضی حال نکالا جاتا ہے ،اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے ، مذمت کے بیانات دیے جاتے ہیں اور ہر بار ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنانے کا عزم دہرایا جاتا ہے ، لیکن اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جاتا ہے نہ ہی اس کے سد باب کیلئے کوئی موثر اقدامات کیے جاتے ہیں،اس طرح کے ظلم وتشددکی روک تھام کے لئے قوانین تو موجود ہیں، مگر اس پر جہاںعملدرآمد نہیں ہوتا ہے ،وہیں اسے مزید موثر بنانے کے اقدامات بھی نہیں کیے جاتے ہیں، بلکہ ہمیشہ کی طرح ڈنگ ٹپائو پر و گرام کے تحت خانہ پری ہی کی جاتی ہے۔
اس لیے ایسے واقعات میں کمی آنے کے بجائے بتدریج اضافہ ہی ہورہا ہے ،اس سوات کے علاقے میں ہونے والے دینی مدرسے کے واقعہ میں بھی بتایا جارہا ہے کہ مارے جانے والے بچے نے اپنے استادوں کی مارپیٹ کی وجہ سے ہی مدرسہ چھوڑ دیا تھا ،مگر مدرسے کے مہتمم کی یقین دہانی پر بچے کا باپ اسے دو بار ہ مدرسے میں چھوڑ گیا تھا، اس موقع کا ظالم استاد نے فائدہ اٹھایا اوراس بچے کی پٹائی شروع کر دی،یہ استاد اتنا سنگ دل تھا کہ جب مار پیٹ کرتے ہوئے تھک جاتا تو بچے کو دوسرے استاد کے حوالے کر دیتا،

اس طرح کئی افراد نے بچے کی اتنی پٹائی کی کہ وہ بے ہوش ہوگیا، اس کی سانس بند ہونے لگی تو اسپتال بھجوا دیا گیا ، ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی بچے نے دم توڑ دیا، اس بہیمانہ قتل کا مقدمہ درج کرکے چار میں سے دو ملزم پولیس نے گرفتار کرلئے ہیں، جبکہ مزید 9زیرحراست ہیں، لیکن ا ن درندوں کی وجہ سے جوبچہ اپنی زندگی ہار گیا اور کبھی واپس نہیں آئے گا۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس اسلامی ملک میں رہنے والے والدین اپنے بچوں کو دینی علم سے آراستہ کرنے کیلئے مدرسوں میں داخل کراتے ہیں، اس ملک کے مدارس میں بعض شقی القلب اساتذہ جو خود دینی تعلیمات سے زیادہ تر نابلد ہوتے ہیں، انہیں محبت اور اخوت کا درس دینے اور ذمہ دار شہری بنانے کی بجائے معمولی باتوں پر اذیت ناک سزائیں دینا شروع کردیتے ہیں، بعض معصوم بچوں کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے،

اس قسم کے متعدد واقعات کا ذکر میڈیا میں بھی آتا رہتا ہے ، لیکن اس قسم کے مدارس کے واقعات کو میڈیا پر زیادہ تر ہائی لائٹ نہیں کیا جاتاہے ، کیو نکہ اس سے اپنے ہی پر جلنے کا اندیشہ ہوتا ہے، حکومت کو چاہئے کہ غیر رجسٹرڈ مدرسوں پر مکمل پابندی عائد کردے، مارپیٹ کی روک تھام یقینی بنائے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دے، تاکہ اسلامی علوم کے اداروں کی ساکھ خراب کرنے کی کسی میں جرأت پیدا نہ ہوسکے،لیکن ایسا کچھ اب تک کیا جاسکا ہے نہ ہی شائد کیا جاسکے گا ،

کیو نکہ جب ایسا کچھ کر نے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ، مدارس کے منتظمین اور ان کی پشت پناہی کر نے والی سیاسی قوتیں حکو مت کے خلاف نہ صرف صف آرا ہو جاتی ہیں ، بلکہ اس کو مذہبی رنگ دیتے ہوئی اسلام کے خلاف سازش بھی قرار دینے لگتی ہیں،اس کے بعد کس کی مجال ہے کہ اس کے خلاف کوئی بات کرے یااس میں اصلاحات لانے کی کوشش کرے ، سارے ہی اپنا دامن بچا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
یہ بے حسی اور لاپرواہی کب تک ایسے ہی چلے گی اور کب تک معصوم بچے تعلیم کے نام پر جنسی و جسمانی ظلم تشدد برداشت کرتے رہیں گے ،اپنی جانیں دیتے رہیں گے ،اس تعلیم کے نام پر ظلم تشد د کو اب روکنا ہو گا ، ،مدرس ہوں یا تعلیمی ادارے ،ہر جگہ پر مار پیٹ کے کلچر کا سختی سے خاتمہ کر نا ہو گا ،اس کیلئے جہاں سارے ہی تعلیمی اداروں میں اصلاحات لانا ہوں گی ،وہیںاس جرم ارتکاب کرنے والوںکو سخت سزائیں بھی دینا ہوں گی ،اگر مصالحت اور مفادپر ستی کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو تعلیم کے نام پر تشدد کلچر کا کبھی خاتمہ ہو پائے گا نہ ہی معصوم بچوں کو کبھی تحفظ مل پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں