ڈگن لگی جے
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
شاکا ہمارا محلے دارتھا وہ صحیح معنوںمیں کاج کانہ کام کا ۔۔ دشمن اناج کا کی عملی تفسیرتھا ایک دن اس کی ماںبھاگتی، دوڑتی ہماری سوشل ویلفیئرکے دفتر پہنچی حال بدحال رنگت اڑی ہوئی کپڑے اور چہرہ گرد آلود سانس پھولی ہوئی سرمدنے اسے فوراً پانی پلایا ہم نے پوچھا ماں جی خیریت ہے؟ یہ کیا حال بنارکھاہے وہ رو دینے والے انداز میں بولی شاکے کو نہ جانے کیا ہوگیاہے وہ کہیں سے بھنگ پی آیا ہے اور گھر کی دیوار سے لپٹا ہوا ہے کسی طور اسے چھوڑنے پر تیارہی نہیں۔جلدی چلو کہیں وہ تھک کر نالی میں ہی نہ جاگرے۔ اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
ہم نے جلدی سے دفترکو لاک کیا اور پانچ چھ دوست شاکے کی ماں کو ساتھ لئے سڑک کنارے اس کے گھر پہنچے تو وہاں تو ایک میلہ لگاہوا تھا بچے اس کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے کیونکہ شاکا سچ مچ دیوار کو جپھا مارے کھڑا تھا۔ ذات کی کوڑھ کلی شہتیرکو جپھے۔۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا
ایک سیا نے سے بابے کو میں نے اشارہ کیا اس نے انتہائی متانت سے بات شروع کی۔
” شکیل پتر۔۔ شاکے یار۔دیوار کیوں پکڑی ہوئی ہے؟چھوڑ دے
“چھوڑ دوں گا تو یہ گر جائے گی شاکے نے بھی بڑ ی سنجیدگی سے جواب دیا۔ اب دونوں کے درمیان بحث و مباحثہ شروع ہوگیا۔ پندرہ بیس منٹ کے صبر آزما مکالمے کے بعد سیانا با با شاکے کو قائل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا کہ اگر وہ دیوار چھوڑ دے گا تو ہرگر نہیں گرے گی۔
شاکا مان گیااب اس کے چہرے پر اطمینان تھا اس کی بیوہ ماں کو بھی سکون آگیا کہ شاکا اب محفوظ ہاتھوں میں۔ہم شاکے کو لے کر دفتر کی طرف جانے لگے کہ اسغ کچھ کھلائیں پلائیں۔ہنستے مسکراتے ہم سب ابھی دو تین فرلانگ ہی گئے تھے کہ شاکے نے بھنگ کے نشے میں جھولتے پیچھے مڑ کر دیکھا اور نعرہ لگایا “
“ڈگن لگی جے “
اور گولی کی اسپیڈ سے جاکر پھر دیوار سے لپٹ گیا ہم سب ایک لمحے کیلئے حیران رہ گئے چنانچہ سب نے باری باری مجھے دیکھا میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سب کی طرف نظر دوڑائی اب بار پھر سیانا بابا ہمارے کام آیا وہ تیزی سے آگے بڑھا ہم باقی سب وہیں کھڑے رہے سیانے بابے نے چھ سات منٹ لگا کر دوبارہ شاکے کو سمجھایا کہ دیوار نہیں گرے گی۔
پھر اسے پانچ چھ فرلانگ دور تک وہ ہمارے پاس لے کر آیا ,جیسے ہی دونوںان قریب پہنچے سرمد نے دیوار کی طرف اشارہ کرکے آواز لگائی۔
“ڈگن لگی جے “
شاکا پھرتی سے مڑا اور سپرسانک اسپیڈ سے دیوار سے جاکر پھر لپٹ گیا معاملہ دلچسپ تھا لوگوںکو تفریح کا موقع مل گیا تھا۔لوگ انجوائے کر رہے تھے کہ شاکے کی ماں نے باہر جھانک کر دیکھ لیا وہ دور ہی سے ہمی تماشائیوںکو گالیاں دینے لگ گئی اس نے
ہماری بھی ماں بہن اوپر ایک کردی اس نے پورا زور لگالیا اب سیانا بابا بھی سمجھا سمجھا کر تھک گیا لیکن شاکے نے دیوار نہ چھوڑی بدستور جھپا ڈالے رکھا اور پھر تھک کرزمیں پر گرا تو اس کی قلابازی لگ گئی
نامور فلسفی افلاطون نے کہا تھا حکمران اگرعوام کو صرف دو وقت کی روٹی میں الجھا دیں تو وہ کبھی تمہاری طاقت، چوری یا سازش پر سوال نہیں کریں گے۔ ” سچ تو یہ ہے کہ جب انسان محض زندہ رہنے کیلئے جنگ لڑ رہا ہو ، تو وہ آزاد ہونے کی جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ دیکھ لیں حکمرانوں نے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا یہ حال کردیاہے وہ سوچے جاگتے ہروقت روٹی ۔۔ روٹی۔۔ روٹی کی گردان کرتے رہتے ہیں جو تھوڑا سا اس چکرمیں نکلنے کی کوشش کرتاہے اسے بجلی کے ہوشربا بل مارڈالتے ہیں یہ تو عوام کا درد ِ سرہے اور ادھر مبارک ہو وفاقی حکومت کے قرضے 76 ہزار 45 ارب روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے حکومت کا مقامی قرضہ 53 ہزار 460 ارب، بیرونی قرضہ مئی 2025 تک 22 ہزار 585 ارب روپے تک جاپہنچا تھا ، جون 2024 سے مئی 2025 کے 11 ماہ میں 8 ہزار 312 ارب روپے اضافہ ہوگیا اب سوال تو یہ ہے کہ عوام کی حالت جوںکی توں ہے
ان کا کوئی پرسان ِ حال ہی نہیں ہے پھر اتنا قرضہ ملک پر کیونکرچڑھ گیاہے؟ اسٹیٹ بینک نے مئی 2025 تک وفاقی حکومت کے قرض سے متعلق اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں، دستاویز کے مطابق حکومت کا مقامی قرضہ 53 ہزار 460 ارب روپے ہوگیا، وفاقی حکومت کا بیرونی قرضہ مئی 2025 تک 22 ہزار 585 ارب روپے رہا۔ڈان نیوز کے مطابق ایک سال میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں 8 ہزار 312 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال 25-2024 کے پہلے 11 ماہ میں وفاقی حکومت کا قرضہ 7 ہزار 131 ارب روپے بڑھا، مئی کے ایک مہینے میں مرکزی حکومت کے قرضے میں 1109 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ جون 2024 سے مئی 2025 کے 11 ماہ میں وفاقی حکومت کا قرضہ 8 ہزار 312 ارب روپے بڑھا، مئی 2025 تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا مجموعی حجم 76 ہزار 45 ارب روپے رہا۔ اپریل 2025 تک وفاقی حکومت کے قرضے 74 ہزار 936 ارب روپے تھے،
جون 2024 تک مرکزی حکومت کے قرضوں کا حجم 68 ہزار 914 ارب روپے تھا، مئی 2024 تک وفاقی حکومت کے قرضے 67 ہزار 733 ارب روپے تھے یعنی یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہاہے حکمران اور اشرافیہ کاایکا کیا گل کھلارہاہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا یہ سب کے سب سسٹم کی تبدیلی روکنا چاہتے ہیں اگر لوگ روزی، بل، علاج، قرض، یا نوکری کے پیچھے دوڑتے رہیں گے تو وہ نہ حق مانگیں گے، نہ نظام بدلنے کی ہمت کریں گے اس لئے عوام کے دماغ میں انقلاب کی گنجائش ہی نہیں چھوڑنی چاہیے انہیں اتنا مصروف کر دو کہ وہ صرف زندہ رہنے کو کامیابی سمجھنے لگیں۔ سوچنے، سیکھنے، یا سوال کرنے کی فرصت ہی نہ ہو۔ انہیں لگے کہ “خاموش رہنے میں ہی فائدہ ہے۔”
آن یہی حال ا شرفیہ کا ہے وہ پون صدی سے پاکستان کے سسٹم کو جپھا مارے بیٹھے ہوئے ہیں انہیں حالات کی نزاکت کامطلق احساس نہیں سوشل میڈیا کے دور میں بھی انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا کرنا چاہیے حالانکہ عوام کب کی باشعورہوچکی ہے۔جیسے ہی انہیں ذرا لگتاہے ان کا استحصالی سسٹم زمیں بوس ہونے والا ہے کوئی نہ کوئی گھبراکوئی آواز لگا دیتا ہے “ڈگن لگی جے ” اشرافیہ اور ان کے من پسند سیاستدان دیوارکو جپھا مارکر سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن لیکن اسی کوشش میں کسی نہ کسی روز تھک کرزمیں پر گرے تو اس کی قلابازی لگ جائے گی۔