حوا کی بیٹی کب تک غیر محفوظ رہے گی !
اس ملک میںہوا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے مظالم سالوں سے نہیں،عشروں سے جاری ہیں،ایک کے بعد ایک خواتین پر جنسی تشدد ، گیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات ہو رہے ہیں ، گزشتہ روز بھی بلوچستان میں مبینہ طور پر پسند کی شادی کرنے والے ایک جوڑے کو سرعام گولیاں مار کر قتل کردیے جانے والی ویڈیو نے ہر حساس اور باشعور شخص کو سخت کرب میں مبتلا کردیا ہے،اس پر انسانیت جہاں شرمندہ ہے، وہیںقدرت بھی افسردہ ہوگی،مگر انہیںروکنے والا کوئی نہیں ہے، اس واقع پر ایک بار پھر وفاق اور صوبائی حکومت کی مذمت کے ساتھ ملزمان کو نشانہ عبرت بنانے کے دعوئوں کے ساتھ تحقیقات کا حکم دیے دیا گیا ہے ، لیکن اس کا انجام بھی وہی ہو گا ،جو کہ اس سے قبل ہو نے والے واقعات کا ہو تا رہا ہے،
لیکن اس طرح حواکی بیٹی کب تک غیر محفوظ رہے گی؟اگر دیکھا جائے توپاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں پر صنفی امتیاز اور تشدد کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے،اس بارے عالمی ادارے نشاندہی کرتے رہتے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کے مطابق پاکستان میں 15 سے 49 سال کی عمر کی 28 فیصدخواتین جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں‘ شادی شدہ خواتین میں سے 34 فیصدکو ازدواجی‘ جسمانی یا جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار کے قریب خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے اور زیادہ تر واقعات میں قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں،
اس حوالے سے2024 ء میں خواتین کے قتل کے 980 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے،مگراس قسم کے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے یا حقائق تبدیل کر دیے جاتے ہیں‘اس وجہ سے ہی خواتین کے خلاف تشدد کے مجرموں کی سزا کی شرح بظاہرنہایت کم نظر آتی ہے، جبکہ حقائق قدرے مختلف ہیں۔
یہ بات وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی تسلیم کی ہے کہ کوئی بھی متعلقہ شخص ایف آئی آر درج کرانے کیلئے تیار نہیںہوتا ہے ،پولیس جب تفتیش کیلئے جاتی ہے تو اس پر پتھرائوکیا جاتا ہے،لیکن وزیر اعلی نے بتانا گوارا نہیں کیا ہے کہ ان لوگوں کی پشت پناہی کون کرتا ہے اور یہ کس کی اجازت سے جرگہ کرتے ہیں،اس طرح ہی2011ء میں خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان کی ایک وڈیو سامنے آئی تھی ،
اس کے بعد پانچ خواتین کو قتل کر دیا گیا، مگر برسوں تک کیس چلنے کے بعد اکتوبر 2023ء میں عدالت نے تمام ملزمان کو قتل کے الزام سے بری کر دیا، ایسے واقعات سے نہ صرف عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوتی ہے، بلکہ ملک کے اندر خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھ جاتا ہے، اس قسم کے واقعات کا مؤثر سدباب ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے رجحان میں کمی کیلئے ازحد ضروری ہے، لیکن سزا و جزا کی عمل داری میں امتیازنہ رویہ ہی سد باب میں بڑی رکاوٹ بن رہاہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے
کہ اس حوالے سے سارے ہی قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہو پارہا ہے،کیو نکہ ان قوانین کی خلاف ورزی کر نے والے طاقتور لوگ ہوتے ہیں ، جو کہ اپنے خلاف بننے والی رپورٹ اپنی مرضی کی بنوالیتے ہیں ، اس کمزور استغاثہ یا دیگر قانونی سقم کے باعث ہی ملزمان سزا سے بچ نکلتے ہیں،اس سے پھر دیگر کو بھی شہ ملتی ہے، بلو چستان واقعہ بھی ایسی ہی شہ داری کا شا خسانہ ہے کہ علاقے کے طاقتور لوگ نہ صرف قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، بلکہ جر گہ کے نام پر اپنی ہی عدالت لگاتے ہیں اور غیرت کے نام پرفیصلہ سنا کر سر عام بے گناہ لوگوں کو نہ صرف گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں ،
نہ ہی کسی کو ان کی پشت پناہی کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے،یہ بلو چستان میں مظلوم جوڑے کا قتل، کوئی پہلا واقعہ ہے نہ ہی آخری ہو گا ، لیکن اس کوآخری بنا نے کیلئے وفاق اور صوبائی حکومت کو مل کر کچھ نہ کچھ کر نا ہو گا ،اس قسم کے واقعات کی روک تھا کیلئے ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا ، اس کیس کے مجرموں کو نشانِ عبرت بنانا ہو گا،یہ ہی ریاستی رِٹ کے نفاذ کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ ہے، اگر اس بار بھی کسی غفلت کا مظا ہرہ کیا گیا یا کوئی مصالحت کاجواز تراشا گیا تو ایسے واقعات میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گا ،بلکہ ریاست سے عوام کا اعتماد با لکل ہی اُٹھ جائے گا اور حوا کی بیٹی کبھی محفوظ نہیں ہو پائے گی۔