تہذ یبوںکا عروج و زوال 72

آب اور سیلاب

آب اور سیلاب

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

پاکستان کا حال بھی عجیب ہے بارشیں نہ ہوں توقحط سالی۔۔ قوم کو نماز استسقاء کی اپیلیں بارشیں ہونے لگیں تو پورا ملک ڈوب جاتاہے اس سال لاہور،کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کا جو حشرہوااس کی تفصیلات میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ویسے تو پورا پاکستانی ہی شدید متاثرہوا ان بارشوں سے جہاں200 سے زائد افراد جان سے گئے وہاںکھربوںکا نقصان بھی ہوا ہزاروں غریب عمر بھر کی پونجی سے محروم ہوگئے لیکن حکمرانوںکی کوئی پلاننگ ہے نہ حکمت ِ عملی ہرسال بارشیں،سیلاب قحط سالی ایک عذاب بن جاتی ہے ہم وقتی طورپر آہ و فغاں کرتے ہیںپھر بھول جاتے ہیں

کہ ماضی میں ہمارے ہم وطنوںپرکیا بیت چکی ہے اور غریب پھر سے بے یارو مددگار اللہ کے آسرے پر محنت مشقت کرکے منہدم گھروںکو رہنے کے قابل کرتے ہیں کہ پھر بارشیں آجاتیں ہیں یا سیلاب سب کچھ ملیا میٹ کرکے چلے جاتے ہیں عمریں بیت جاتی ہیں لیکن متاثرین کی ایکسرسائز ختم نہیں ہوتی ان کے لئے یہی زندگی اور یہی موت کا سامان۔۔ لیکن اس ساری صورت ِ حال میں حکومت اور حکمران کیا کرتے پھرتے ہیں کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا۔کہاجاتاہے کہ 2015ء میں لاہور کے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیاتھا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے ذریعے ایک ایسا ماحول دوست حل تجویز کیا جس پر عمل کرنے سے ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم لاگت میں پورے لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے بچایا جا سکتا تھاکیونکہ لاہور میں پینے کا سارا پانی زیرِزمین ایکوائفر سے آتا ہے جس کا ری چارج دریائے راوی سے ہوتا تھا

جوکہ انڈیا کی طرف سے راوی پر 2000ء میں تھہین ڈیم بنانے سے 85فی صد کم ہو گیا تھا اور اب اس سال شاہ پور کنڈی بیراج کی تعمیر کے بعد تقریباً صفر ہو گیا ہے۔ دوسری طرف لاہور کے زیرِزمین پینے کے قابل پانی کی سطح 6سو سے 8 سو فٹ تک گرچکی ہے اور 12 فٹ انتہائی حد ہے جس کے بعد زیرِزمین پانی موجود نہیں۔ زیرِزمین پانی کی سطح ہر سال 3 فْٹ کی رفتار سے گر رہی ہے۔ اس ریسرچ کے لئے انجینئرز نے شہر لاہور کی سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی کی جو مون سون میں بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ان کا اندازہ تھا کہ سڑکوں پرصرف ان 43 مقامات پر ہی 1000 ایکڑ فٹ حجم کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے جس کا بہت سا حصہ پانی چوس کنویں بنا کر زیرزمین اتارا جاسکتا ہے۔

اپنی اندازے کی سچائی جانچنے کے لئے انجینیئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے ساتھ والی نشیبی سڑکوں پر دو پانی چوس کنویں بنائے۔ ہر ایک کنواں6x9x8 فْٹ کا تھا جس کی سطح پر انہوں نے 2 فْٹ موٹے پتھر اور ایک ایک فٹ بجری اور ریت کی تہہ جما دی جس کے نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیرزمین پانی تک پہنچا دیا۔ حیرت انگیز طور پر پہلی ہی بارش میں سڑک پر کھڑا ہونے والا ایک لاکھ لٹر پانی صرف تین گھنٹوں میں کنووں نے چوس لیا تھا اور بارش میں ہر دفعہ بند رہنے والی سڑک پر تھوڑی دیر بعد ہی ٹریفک رواں دواں تھا۔ مزید تسلی کے لئے انجینیئرز نے سڑک پر اکٹھا ہونے والے بارشی پانی اور کنوؤں میں فلٹر ہو کر جانے والے پانی کی کوالٹی کے مختلف ٹیسٹ مستند لیبارٹریوں سے کرائے تو پتہ چلا کہ کنوؤں نے فلٹر کے عمل میں بارشی پانی سے آلودگی بھی صاف کردی تھی اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف ستھراتھا

۔سب اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے ریچارج نے زیرزمین پانی کی سطح 3.5 فٹ بلند کر دی تھی۔ یہ فوائد صرف 15 لاکھ کی لاگت سے بنے2 کنوؤں سے حاصل ہو گئے تھے۔اگر اس حساب سے پورے لاہور میں بھی پانی چوس کنویں بنا دئیے جاتے تو ان کی مجموعی لاگت صرف ایک بڑا فلائی اوور بنانیسے کم ہوتی۔ انجینئرز نے تخمینہ لگایا کہ 1800 اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے لاہور شہرسے مون سون میں پڑنے والی بارشوں سے ایک کروڑ سے زائد لاہور یوں کے لئے پورے سال کا پینے کاپانی اور ہر قسم کے صنعتی استعمال کا پانی زیرزمین ذخیرہ کروایا جاسکتا ہے۔ اس سے شہر کی سڑکیں برسات میں تالاب یا جوہڑ نہیں بنیں گی نہ ہی بارشوں میں سڑکوں پر ٹریفک پھنسے گا اور سڑکوں کی مرمت یا تعمیر نو پر اضافی خرچ بھی بچے گا۔ لاہور کا زیرِ زمین پانی جو کبھی 15 فٹ کی گہرائی پر مل جاتا تھا

آج کل 150 فٹ سے نیچے جا چکاہے۔ پرانے شہر میں تو یہ 600 فٹ گہرائی پر بھی مشکل سے ملتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح ہر سال تین فٹ کے حساب نیچے گرتی جارہی ہے کیونکہ شہر کے دو ہزار ٹیوب ویلوں سے روزانہ 3500 ایکڑ فٹ پانی زمین سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ لاہور کو اپنے زمینی پانی کی سطح بحال رکھنے کے لئے سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ حجم کے پانی کے خسارے کا سامنا ہے جبکہ انجینئرز کا تخمینہ ہے کہ ہر سال صرف مون سون کے موسم میں لاہور شہر سیبارش کا پانی اس سے دْگنا حجم میں زیرزمین ایکوائفر میں واپس بھیجا جاسکتاہے۔
لاہور میں زیرِ زمین پانی کوریچارج کرنے کے لئے جدید طرز کا’’،چھپڑ ْ’’سسٹم بحال کرنا ہوگا جس نے ماضی میں صدیوں تک اس شہر کے زیر زمین پانی کو میٹھا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھا۔چھپڑ کی طرز پر لاہور شہر کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر کثیر تعداد میں ڈونگی گروانڈز کا قیام عمل میں لایا جائے

جن کے اطراف میں ریچارج کنویں بنے ہوں۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دفاتر فیکٹریوں الغرض تمام کھلی جگہوں پر ریچارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین پانی کو مون سون کے دوران ہی پورے سال کے استعمال کے لئے ریچارج کیا جائے۔اس کام کو پھر تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پہنچانا ہوگا۔ ہمیں فی الفور ریچارج اتھارٹی بناکر کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ 2015ء کے بعد بھی کئی برساتیں گزر چکی ہیں لیکن لاہور کی سڑکیں ابھی بھی تالاب بنی ہوتی ہیں۔ ایل ڈی اے، واسا، پنجاب اریگیشن، جماعت اسلامی، WWF ، PCRWR ، IWMI ، یو ای ٹی لاہور اور چند سوسائٹیوں اور انفرادی لوگوں کے پائلٹ ریچارج پراجیکٹس کے علاوہ انجینئرز کے اس دلچسپ تجربے سے بڑے اسکیل پر آج تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اگرچہ یہ ریسرچ اور عملی تجربہ لاہور تک محدود تھا لیکن اس کے نتائج کی بنیاد پر پورے پنجاب اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ PCRWR بھی اس سلسلے میں کافی ریسرچ کرچکا ہے۔ ضرورت اب عملی اقدامات کی ہے۔ پاکستان کے خْشک ہوتے

دریاؤں کے پیشِ نظر مون سون میں بارش کے پانی سے ایکوائفر کا ری چارج ایک بہترین قدرتی حل ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ممتاز انجینئر ظفر وٹzafariqbalwatt کا کہناہے کہ یہ ریسرچ انٹرنیشنل جرنل میں شائع ہوچکی ہے جس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔بہرحال آبی ماہرین نے کئی بار حکمرانوںپر زوردیاہے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکرطویل المدتی منصوبے تیار کریں تاکہ کو مون سون کی بارشوں یا سیلاب کے دنوںمیں وطن ِ عزیزکو تباہی سے بچایا جاسکے اس کے لئے ایک ماسٹر پلان کے ذریعے متاثرہ علاقوںمیں تالاب، نہریں اور چھوٹے آبی ذخائر بنائے جائیں اور ان کا رخ ان علاقوںکی طرف موڑدیا جائے جہاں پانی کی شدید قلت ہے اس طرح تھرپارکر، چولستان، سندھ،بلوچستان کے بنجردیہاتوں اور نورپورتھل کے وسیع علاقوںکو زرخیزبنانے میں مدد ملے گی

جو ملکی ترقی کا ایک پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے یہ طرز ِ عمل پاکستان میں پانی کی کمی کا واحد حل ہے کیونکہ آبی ذخائرنہ ہونے کی وجہ سے روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے لیکن حکمرانوںکو احساس تک نہیں کہ پانی ہی زندگی ہے اس کا ضیاع نہ صرف گناہ بلکہ بنجرزمینوںکو ایک نئی زندگی سے ہمکناربھی کرتاہے اس لئے پورے پاکستان، پنجاب ،بلوچستان اور سندھ کے لئے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جس سے پانی کی کمی دورکی جاسکے حکمرانوںکو حالات کی سنگینی کاادراک کرناہوگا اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں