اپنے سر مایہ کار باہر جارہے ہیں!
ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو گا ،قیام امن نہیں ہو گا ،معاشی استحکام کیسے آئے گا، لیکن اس حکو مت کے وزیر خزانہ دعوئیدار ہیں کہ ملک میں بیرونی سر مایہ کاری کے ساتھ معاشی استحکام بھی آرہا ہے ،جبکہ حقائق با لکل ہی بر عکس ہیں ، ملک میں بیرونی سر مایہ کاری کیلئے ماحول ہی ساز گار نہیں بنایا جارہا ہے تو معیشت کیسے بہتر ہو گی اور معاشی استحکام کیسے آسکتا ہے،ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں غیر ملکی سر مایہ کاری نہیں آرہی ہے تو حکو مت کو چاہئے تھا
کہ اس بجٹ میں ایسی پالیسیاں متعارف کراتے کہ جس سے کم از کم ملکی سر مایہ کاروں کو ہی نئی سر مایہ کاکی جانب راغب کرایا جاسکتا ، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ، بلکہ حکو مت نے بجٹ میں ایسی پا لیسیاں متعارف کرادی ہیں کہ نئی سر مایہ کلاری تو کیا آئے گی ،جن سر مایہ کاروں نے پہلے سے کاروبار میںسر مایہ لگارکھا ہے ،وہ بھی احتجاج کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اتحادی حکومت جب سے آئی ہے ،اس نے اپنا کوئی وعدہ پورا کیا ہے نہ اپنے دعوئوں پر پورا اُتر رہی ہے،ساری ہی زبانی کلامی بیانات دیئے جارہے ہیں ،سارے ہی نمائشی اقدامات کیے جارہے ہیں ،اس لیے ان سے عوام خوش دکھائی دیتے ہیں
نہ ہی تاجر برادری خوش دکھائی دیتی ہے،اس حکومت کے خلاف ایک طرف عوامی احتجاج ہورہا ہے تو دوسری جانب ملک کی تجارتی و صنعتی انجمنوں نے مشترکہ طور پر اُنیس جولائی ہڑتال کی کال دیے دی ہے،ایوان صنعت و تجارت لاہور کے صدر نے تو ٓآن ریکارڈ کہہ دیا ہے کہ مو جودہ ماحول میں صنعت کاروں کیلئے فیکٹریاں چلاناممکن ہی نہیں رہا ہے اوروہ اپنی فیکٹریوں کی جابیاں حکومت کے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں ۔
یہ بات کراچی اور لا ہور تک محدود نہیں رہی ہے ، اس طر ح کے ہی خیالات کا اظہار سیالکوٹ ،فیصل آباد اور پشاور سمیت ملک کے دیگر ایوان صنعت و تجارت کے رہنما بھی کررہے ہیں ،ایک طرف ان خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب فیکٹریاں بند ہو نے کی خبریں بھی آنے لگی ہیں ،تین روز قبل ہی ایک پرانی سپینگ مل نے کاروبار بندکر نے کا اعلان کیا ہے ،اس طرح ہی دوسرے مالکان بھی دبے الفاظ میں اپنی فیکٹریاں بند کر نے اظہار کررہے ہیں
اور بتارہے ہیں کہ ملک میں ناساز گار حالات اور بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث ملیں خسارے میں جارہی ہیں،اس خسارے کو موجودہ حا لات میں منافع میں بدلنا ممکن نہیں رہا ہے تو فیکٹریاں کیسے چلائی جاسکتی ہیں۔
اس ملک میں کوئی پہلی فیکٹری بند ہورہی ہے نہ ہی ان حالات میں کوئی آخری محسوس ہورہی ہے ، گزشتہ دوبرس سے ملک بھر میں ڈی انڈسٹریلائزیشن کا عمل بڑی تیزی سے ہورہا ہے ،فیصل آباد میں پاور لومز کا شعبہ تقر یباختم ہو کر ہی رہ گیا ہے ،اس کا حکو مت کوئی نوٹس لے رہی ہے نہ ہی جاننے کی کوئی کوشش کررہی ہے کہ ان کے مسائل کیا ہیں کہ جس کی وجہ سے فیکٹریاں ایک ایک کرکے بند ہورہی ہیں ،حکو مت تا جر اور صنعت کاروں کے مسائل کا تدارک کر نے کے بجائے آئی ایم ایف کی خشنودی اور وزیر خزانہ کے معاشی استحکام کے دعوئوں میں ہی بدمست دکھائی دیتی ہے اور اسکوش فہمی سے ہی نکل نہیں پارہی ہے
کہ پا کستان میں بے انتہا بیرونی سر مایہ کاری ہو نے جارہی ہے،جبکہ دور دور تک بیرونی سر مایہ کاری کے آثار بھی دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ۔اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس حکو مت نے اپنے پرانے بجلی گھر فروخت کیلئے پیش کیے توکوئی غیر ملکی سر مایہ کار تو در کنار ملکی سر مایہ کار بھی آگے نہیں آئے،جو چندآئے ،وہ بھی پیچھے ہٹ گئے اور اب اطلاعات کے مطابق ان پرانے بجلی گھروں کو ایک سرکاری ادارے کو اسکریپ میں دینے کا فیصلہ کیا ہے،اس طرح ہی تمام تر کوششوں کے باوجود پی آئی ایخرید نے کیلئے پہلی بار کوئی ملکی سر مایہ کار بھی نہیں آیا ،
جبکہ اب دوسری بار کوئی غیر ملکی سر مایہ کار بھی سامنے نہیں آیا ہے،اس طرح کے حالات میں حکومت کو بجٹ میں تاجروں ،صنعت کاروں کو اعتماد فراہم کر نے کی ضروت تھی ، لیکن حکومت نے برعکس کیا ہے ، حکو مت نے بجلی ، گیس ، پٹرول مزید مہنگا کیا ہے ، ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ایف بی آر کو تا جر براداری کو گرفتار کرنے کا اختیار بھی دیا ہے ،ایک طرف ناقابل بر داشت بجلی ، پٹرول کی قیمت ہے تو دوسری جانب ٹیکسوں میں بے جا اضافہ ،اوپر سے تا جر براداری پر گرفتاری کی تلوار لٹکادی گئی ہے ، اس کے بعد تاجر کاروبار بند نہیں کریں گے ، ہڑتال نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے؟
دنیا بھر میں صنعت کاروں اور تاجروں کے خلاف گرفتاری کے اختیارات شازو ناذر ہی دیئے جاتے ہیں ۔لیکن ہمارے وزیر خزانہ نے نہ صرف تجویز کر دیا ، بلکہ ہماری پارلیمان نے اسے منظور بھی کردیا ، اب وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ وہ تا جر برادری سے ملاقات کریں گے اور انہیں بتائیں گے کہ اس قانون میں بہت سارے سیف گارڈ لگائے گئے ہیں ، تا کہ اس اختیار کا بے جا استعمال نہ ہو سکے ، اس وضاحت کے بعد ہو سکتا ہے کہ وزیر خزانہ تاجر براداری کی ہڑتال ملتوی کرانے میں کا میاب ہو جائیں ،لیکن اس حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ جب تک بجلی ،گیس ، پٹرول کی قیمت کم نہیں کرے گی اورتاجر برادری کو ساز گار ماحول فراہم نہیں کرے گی ، اس وقت تک بیرونی سر مایہ کاری آئے گی نہ ہی اندرونی سر مایہ کاری ہو پائے گی ، بلکہ اپنے سر مایہ کار بھی باہر منتقل ہو جائیں گے ، جو کہ ہورہے ہیں!