تہذ یبوںکا عروج و زوال 63

کچھ تاریخی حقیقتیں

کچھ تاریخی حقیقتیں

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

دوسرے خلیفہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اپنی ماں کو گالیاں دیتا ہے یہ سن کر آپ کو بہت رنج ہوا آپؓ نے اس شخص کو بلوایا بازپرس کے بعد ثابت ہوگیا کہ وہ ایسا ہی کرتاہے امیرالمومنین نے حکم دیا کہ پانی سے بھری ہوئی مشک لائی جائے پھر وہ مشک اس کے پیٹ پر خوب کس کر بندھوا دی گئی آپ نے حکم دیا تمہاری یہ سزا ہے کہ تجھے سارے معمولات اسے اسی مشک کے ساتھ اداکرناہیں اٹھنا بیٹھنا ،چلنا پھرنا ، کھانا پینا اور سونا جاگنا بھی ایسے ہی کرنا ہوگا۔

ایک دن بھی نہ گزرا تو وہ شخص عاجز آگیا وہ روتا ہاتھ جوڑناحاضرہوا اور دہائی دینے لگا کہ اس کو معاف کر دیا جائے وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ امیرالمومنینؓ نے پانی آدھا کر دیا مگر مشک بدستور اس کے پیٹ پر بندھی ر ہنے دی لیکن اس کی زندگی عذاب بن گئی تھی اس نے اپنی ماں کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے پھر ایک دن کے بعد و ہ شخص ماں کو بھی سفارشی بنا کر ساتھ لے آیا کہ اس کو معاف کر دیا جائے اور اس مشک کو اس کے پیٹ سیہٹا دیا جائے وہ دو دن سے نہ تو سو سکا ہے اور نہ ہی ٹھیک سے کھا پی سکا ہے۔

امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ماں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس نے تجھے پیٹ کے باہر نہیں بلکہ پیٹ کے اندر تمہارے وزن کے ساتھ 9 ماہ اٹھا ئے رکھا نہ وہ ٹھیک سے سو سکتی تھی اور نہ ٹھیک سے کھا سکتی تھی ،پھر تو اسے موت کی سی اذیت دے کر پیدا کیااور تم نے 2 سال اس کا دودھ پیااور جب اپنے پاؤں پر کھڑا ہواا تو تیر ی ماں کیا اس سلوک کی حقدار تھی جو تونے روا رکھا اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے لئے تیرے منہ سے گالیاں نکلتی تھیں افسوس صد افسوس اگر آئندہ یہ شکایت موصول ہوئی تو یادرکھناتجھے نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا وہ شخص سخت نادم ہوا(تاریخی واقعات سے مستعار)
کہاجاتاہے جب ملیشیا کے صدرمہاتیرمحمد برطانیہ کے دورے پر گئے اگلی صبح ایک مقامی اخبار میں ان کا مزاحیہ کارٹون چھپ گیا۔ جب ان کی سرکاری طور پر وزیراعظم برطانیہ سے ملاقات ہوئی تو سب سے پہلے مہاتیرمحمد نے کارٹون ٹیبل پر رکھ کر پوچھا: *”کیا آپ کے ملک میں میں مہمان کے استقبال کا یہی طریقہ ہے؟
وزیراعظم برطانیہ نے کہا ایک عجیب سے لہجے میں کہا جناب یہاں میڈیا آزاد ہے۔”
مہاتیر محمد نے جواب دیا: ٹھیک ہے جب تم میڈیا کی آزادی اور دوسروں کی دل آزاری میں تمیز سیکھ لوگے تو پھر ہماری ملاقات ہو گی۔ انہوں نے پائوں پٹخ کر اپنی ناراضگی کااظہارکیا اور ملاقات ختم کرکے پرائم منسٹر آفس سے باہر آگئے۔ وہیں سے انہوں نے ملیشیاء اپنے آفس فون کرکے ہدایت کی کہ ان کے وطن واپس پہنچنے سے پہلے پہلے تمام برطانوی باشندوں کے ملیشیاء میں موجود کاروبار فورا ً بند کرکے ان کے بینک اکاؤنٹ سیل کر دئیے جائیں

اور انگریزوں کو 24 گھنٹے کے اندر اندر ملیشیاء بدر کر دیا جائے۔ حکم پر فوری عمل ہوا۔ جب مہاتیر محمد ملیشیا پہنچا تو ان کے دفتر میں انگلینڈ کے وزیراعظم کا معافی نامہ ان سے پہلے پہنچ گیا تھا ساتھ ہی کارٹونسٹ کو پابند جیل کر دیا گیا۔ اور سوچئے پاکستانی حکمرانوں سے یہ لوگ کیا سلوک کرتے ہیں اور ہم ردِ عمل بھی ظاہر نہیں کرتے “جاگ امت مسلمہ جاگ
علاؤ الدین خلجی ایک انتہائی جری بہادر اور با ہمت بادشاہ تھا۔ ایک بار منگول سردار اولجیتو خان نے منگولوں کا ایک گروہ علاؤ الدین خلجی کے دربار میں بھیجا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ علاؤ الدین خلجی اپنی شہزادی کو ان کے حوالے کر دیں، کیونکہ منگول سردار شہزادی کو اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا۔ علاؤ الدین خلجی نے اس طرح جواب دیا کہ اس کے دربار میں آنے والے تمام 18 منگولوں کے سر ہاتھیوں کے پاؤں سے کچلوا دئیے

، اور منگولوں کو یہ پیغام بھیجا گیا کہ یہ علاؤ الدین کا جواب ہے۔ اس کے بعد منگولوں نے کبھی ہندوستان کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت منگولوں سے زیادہ وحشی کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے پورے ایشیا کو تباہ کر دیا تھا۔ لیکن جب وہ ہندوستان آئے تو انہیں علاؤ الدین خلجی اور اس کے بہادر کمانڈر ظفر کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ کمانڈر تھے جو ساری زندگی منگولوں سے لڑتے رہے۔ اگر وہ منگولوں کو نہ بھگاتے تو اس جگہ کی تاریخ اور جغرافیہ مختلف ہوتا۔
کئی سال پہلے بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا۔ تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نامور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف کی درخواست دی۔ ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کیے، نظریں اٹھائیں اور بیوروکریٹ کی طرف دیکھ کر بولے: “میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟”

سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔ ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس کی طرف دیکھ کر کہا: “تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہو رہی تھیں۔ وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنہیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو۔ تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے۔” سرکاری ملازم اور مصنف نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ (مْختار مسعْود کی “آوازِ دوست” سے اقتباس)
بانی ٔ پاکستان قائداعظمؒ محمدعلی جناح 10 محرم کا کس قدر احترام کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ5 دسمبر 1946کے روز شہنشاہ برطانیہ جارج ششم کی طرف سے خصوصی تقریب طے تھی۔ اس روز محرم کی دس تاریخ تھی، قائداعظمؒ نے یہ کہہ کر اس میں شرکت سے انکار کر دیا:’’چونکہ یہ تقریب ایسے دن منعقد ہو رہی ہے جو کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اور اس دن ہم مسلمان کسی قسم کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے۔‘‘ قائداعظمؒ کے جذبات کے احترام میں یہ تقریب ملتوی کر دی گئی۔(حالاتِ قائداعظمؒ – ص 298 – آتش فشاں لاہور)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں