61

ہائبرڈ نظام ہی چلے گا !

ہائبرڈ نظام ہی چلے گا !

اس ملک کے عوام ایک عرصہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ منصفانہ شفاف انتخابات کرائے جائیں ، لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی انتخابات مشکوک اور مشتبہ ہی رہے ہیںاور حکومت نے بھی کبھی ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کررہی ہے کہ وہ عوامی پسندیدگی کی بنیاد پر ووٹوں کی طاقت سے اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہوئی ہے ،بلکہ سرکاری صفوں میں موجود عناصر ماننے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں

کہ وہ ہائبرڈ انتظام کے تحت برسر اقتدار ہیں، سیاسی عناصر کے لیے دھاندلی زدہ انتخابات یا کسی ہائبرڈ انتظام کے تحت اقتدار ملنے پر قابل فخر نہیں ہونا چاہیے نہ ہی اسے اپنی کامیابی سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہونا چاہیے،لیکن اس کو قابل فخر سمجھا جارہا ہے،بلکہ اس کے تحت ہی آگے بڑھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا جارہا ہے،کیا یہ نظام ایسے ہی چل پائے گا اور اس کے تحت ملک آگے بڑھ پائے گا؟
یہ سب سے اہم سوال ہے اور اس کا کسی کے پاس کوئی تسلی بخش جواب بھی نہیں ہے ، اس ملک میں ایک کے بعد ایک فارمولوں پر بہت سے تجربات ہو چکے ہیں اور ایک بار پھرآزمایا فار مولہ ہی دوبارہ آزمایا جارہا ہے اور حکومت کے سینئر وزیراء برملا اعتراف کررہے ہیں کہ ہم ایک ہائبرڈ سسٹم رکھتے ہیں ،اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ا نہ صرف ہم رہا ہے، بلکہ غالب رہا ہے ،وہ جہاں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایسا بندوبست کچھ اور ممالک میں موجود ہے ، وہیں یہ پیش گوئی بھی کررہے ہیںکہ ہمارے ماحول میں ایسا ہی نظام زیادہ موزوں رہے گا، اور ہمیں اسے حکومت کی ایک مستقل شکل کے طور پر اپنالینا چاہیے، یہ دعوئے اور پیش گوئیاں آئندہ آنے والی 27ویں آئینی ترمیم کی افواہوں کی تصدیق بھی کرتی ہیں۔
یہ کتنے عجیب و غریب دعوے اورپیش گوئیاں ہیں کہ آخر یہ بے ڈھنگا امتزاج ہمارے ملک کیلئے کیونکر ساز گار ہو سکتاہے اور اس کی ہی لوگوں کیوںضرورت ہے؟اس میں ہوسکتا ہے کہ دنیا ہنگامی دور سے گزر رہی ہے اور اس کے سامنے اپنے ایسے ہی مسائل ہیں، لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم آئین، قانون کی حکمرانی اور شہری آزادیوں کو خیر باد کہتے ہوئے منصوعی معمول کو اپنا لیا جائے اوراس ہائبرڈ نظام کی تعریفیں کرنا شروع کر دی جائیںکہ جس میں بدعنوان اور مفاد پرست اشرافیہ کا ایک مخصوص ٹولہ اس ملک اور اس کے عوام کی تقدیر کے ساتھ کھیل رہا ہے، اس خود ساختہ نظام کے حامیوں کا جہاں تک تعلق ہے تواس کیلئے تاریخ میں جھانکنا ضروری ہے، تاکہ ان چیلنجوں کا ادراک کیا جا سکے

جو ایسے غیر فطری اور خطرناک گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سر اٹھاتے ہیں، یہ ایک نئی تباہی کا ہی نسخہ ہوگا ،جیسا کہ ماضی کے مصائب بھی بتاتے ہیں۔ہم نے اپنے ماضی سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،اس لیے ہی نقصان پر نقصان اُٹھا ئے جا رہے ہیں ، مگر اپنی روش بد لنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،ہم غلام ابن غلام ہیں اور غلامی میں ہی جینا پسند کرتے ہیں ،ہم نے کبھی غلامی کے چوغے کو اتارنے کی حقیقی کوشش ہی نہیں کی ہے ، ہم اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں،ہم دوسروں کے سہارے جینے کے عادی ہو چکے ہیں اور خود انحصاری سے دور ہوتے جارہے ہیں،

ہم نے نہ صرف ایک چھوٹی سی اقلیت کو اکثریت کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اجازت دیے رکھی ہے ،بلکہ موروثی نظام کے تصور کو بھی دل سے قبول کررکھا ہے کہ جہاں اقتدار باپ سے خود بخود اگلی نسل تک منتقل ہوجاتا ہے ،یہ حکمران طبقے کی غلامی میں خوش ہونے کا تصور اس المیے کی سنگینی کا احساس دلاتا ہے کہ ہم کس دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، لیکن اس دلدل سے نکلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کررہے ہیںنہ ہی اس کے خلاف کوئی موثرآواز ہی اُٹھا رہے ہیں۔یہ کسی ایک فرد یا کسی ایک طبقے کی بات نہیں ہورہی ہے،

ہمارے مجموعی وجود کو ہی خطرہ لاحق ہے، اس کا تعلق پوری قوم اور آنے والی نسلوں سے ہے، اس کے باوجود ایک بے حسی ایک لا پرواہی دکھائی دیتی ہے،اس کو دیکھتے ہوئے ایک سادہ سا سوال ہر باشعور کے ذہن میں اُٹھتا ہے کہ کیا ہم غلامی کی زنجیروں کو اپنے لیے قبول کرنے کے بعد انھیں اپنے بچوںکیلئے وراثت میں چھوڑ جائیں گے یاہر معرکہ ذہن میں ہی لڑا ئیں گے،ہمیںقدم بقدم آگے بڑھنا ہوگا،

قوم کو اس کا وقار لوٹانا ہوگا ، ہم نے بڑے حوصلے اور ہمت سے اپنا مقدر بنانا ہے، اور اس دوران اپنی عزت نفس اور وقار کو آلودہ ہونے سے بھی بچانا ہے، کیا ہم ایسا کچھ کر پائیں گے یا اس ہائبرڈ نظام کے ساتھ ہی چلتے جائیں گے،اس سے انحراف مشکل ضرور ،مگر نئی جنریشن کیلئے ناممکن نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں