کربلا کے مسافر چوتھا باب
جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
جب محسوس ہواکہ یزیدی لشکر ہر صورت جنگ مسلط کرنا چاہتاہے تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ نے سب کوجمع کیا اور پھر چراغ گل کرکے فرمایا “جس نے جانا ہے چلا جائے” اور جب اندھیرا چھا گیا اور انہوں نے خیال فرمایا شاید کچھ جانے والے چلے گئے ہوں گے تو تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا, “عباس ، اْٹھو اور چراغ جلا دو۔ !! کیسا اعتماد تھا کہ ساری دنیا چھوڑ بھی جائے لیکن عباس بیٹھے ہونگے۔
آفرین حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی انہیںچھوڑ کر نہیں گیا سب کے سب موجود تھے ہرکوئی عزم کا پہاڑ بن کر اپنی جگہ ، اپنے نظریات اور اپنی شہادت کی آرزو لئے پر استقلال تھا نبی آخرالزماںﷺکے لاڈلے نواسے حسنؓ و حسینؓ، جنہیں آپ ﷺ نماز کے دوران سجدے میں بھی اپنی پشت پر سوار ہونے دیتے اور محبت سے ان کا خیال رکھتے، وہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا کو خاندان سمیت تپتے صحرا میں ظالموں نے بھوکے پیاسے ذبح کرڈالا اگر دیکھا جائے تو یہ سانحہ صرف ظلم کی انتہا نہیں، بلکہ امت کی غفلت، بیوفائی اور حق سے انحراف کی بھی سب سے بڑی مثال ہے ظالموںکو اس کا بھی پاس نہیں رہا حسینؓ وہ تھے جن کے لبوں کو نبی اکرم ﷺ نے چوما، جنہیں جنتی نوجوانوں کا سردار کہا، مگر افسوس! یزید جیسے بدبخت کے ہاتھوں شہید کر دیا
اور آج بھی کچھ لوگ یزید کی حمایت میں زبان کھولتے ہیں ان پر انتہائی افسوس ہے۔ یاد رکھیں! جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ سے بغض رکھے، ان کے دل ایمان سے خالی ہیں، اور جو یزید کے ظلم پر خاموش ہو، وہ بھی اس جرم میں شریک ہے۔ اللہ کی لعنت ہو اہلِ بیتؓ کے قاتلوں اور ان کے حامیوں پر، اور سلام ہو حسینؓ پر، جو حق کے لئے اللہ کے حضور جان کا نذرانہ پیش کرکے دین ِ اسلام کو ایک نئی زندگی دے گئے
مگر ظلم کے آگے جھکے نہیں۔واقعی، اہلِ بیتِ اطہارؓ کی محبت ایمان کی بنیاد اور دین کی روح ہے اگر آج دین اسلام اپنی اصل روح، سچائی اور مضبوط بنیادوں پر قائم و دائم ہے، تو اس میں سب سے نمایاں اور ناقابلِ انکار کردار اہلِ بیت اطہارؓ کا ہے، جنہوں نے نہ صرف اپنے قول و عمل سے دین کی حفاظت کی بلکہ ہر قربانی دے کر حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا
اِک پل کی تھی حکومت یزید کی
صدیاں حْسینؓ کی ہیں زمانہ حْسینؓ کا
مٹی میں مِل گئے ارادے یزید کے
لہرا رہا ہے آج بھی پرچم حْسینؓ کا!۔
یہ صبح عاشورہ ( 10محرم) کا دن تھا۔ سورج طلوع ہوا تو دھوپ کا رنگ عجب محسوس ہورہاتھا شاید معمول سے زیادہ گرمی سے ریت تپنے لگی ماحول میں کشیدگی اور متحارب گروپوں کے افراد کے چہروںپر تنائو تھا یزیدی فوج کی تیاریوں سے صاف ظاہرہورہاتھا کہ وہ نواسہ ٔ رسول ﷺ کے ساتھ کوئی نرمی کوئی رعائت کی بجائے ان کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ یہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کا دن تھا فجر کی نماز ادا کرتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسینؓ کے مقابل آ گیا عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کا ایک سالار مقررکردیا یہ اس کی جنگی حکمت ِ عملی تھی کہ سارا لشکرایک ہی بارلڑائی میں جھونکنے کی بجائے وہ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا
جس کا ایک ہی مقصد تھا امام حسینؓ کو یزیدکی اطاعت پرراضی کیا جا سکے اور ان کے ساتھی خوفزدہ ہوکر امام حسینؓ کا ساتھ چھوڑ جائیں لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی۔ عمرو بن سعد لشکر نے1000سواروںپر مشتمل لشکر کا سالار حر بن یزید کو بنا دیا وہ سب سے پہلے امام حسینؓ کے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس کا لشکر کربلاؓ کے مسافروں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔حربن یزید کا دل خون کے آنسو رونے لگا وہ سوچنے لگا حالات نے مجھے اس شخصیت کے مقابل آن گھڑاکیاہے جسے نبی آخرالزماں ﷺ نے جنتی نوجوانوںکا سردار قراردیا ہے حیف صد حیف میں نے حکمران کا ساتھ دیا خدا یقینا مجھے معاف نہیں کرے گا
اس کی ضمیر سے ایک آواز اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوتی چلی گئی حرؒبن یزید نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیامیں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کروں گا اور یہ کفارہ امام عالی مقام ؓ کا ساتھ دے کر ہی ممکن ہے اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگاوہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے امام حسینؓ کے قریب چلاگیا حربن یزید کو اتنا قریب دیکھ کر امام عالی مقام کے ساتھی مضطرب ہو گئے لیکن انہوں نے غورکیا تو حربن یزید کے دونوں ہاتھ خالی تھے ایک سوار بولا شاید حرکو پیغام لے کر آیاہے دوسرا کہنے لگا
میرے خیال میں پیام و پیغام کا وقت گذر چکاہے یقینا کوئی اور بات ہوگی پھر فلک نے ایک عجیب منظردیکھا حربن یزید نے اپنی تلوار حضرت امام حسینؓ کے قدموں میں پھینک دی اور دونوںہاتھ باندھ کر معافی کا طلبگارہوگیا اس کی آنکھوں سے اشک روں تھے اور چہرے پر شرمندگی کے ایثار۔ وہ کہنے لگا ’’ شایدیہ میری غفلت ہے کہ آپ کو واپسی کے لئے واپسی کے دوازے بند ہوگئے ہیں ۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک چلے جائیں گے میں سخت نادم ہوں اب میں آپ کے حضور توبہ تائب ہو کر آیا ہوں للہ مجھے معاف کردیں۔
فرات کے کنارے اب یزیدی لشکراور حسینی لشکر آمنے سامنے تھا گویا طبل ِ جنگ بج چکا تھا لیکن کمال بات یہ تھی کہ ایک سو سے بھی کم کے مقابل ہزاروں سپاہی ہرقسم کے اسلحہ سے لیس نعرے لگارہے تھے لیکن وہ اندر سے خوفزدہ تھے امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہم پہلے نمازِ ظہر اداکریں گے آذان کی سرمدی آواز فضا میں بلند ہوئی وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے لئے صفیں بنانے لگے
کہ نہ جانے کدھر سے ایک تیر آیا اور ابو شمامہؓ صائدی کے سینے میں پیوست ہوگیا وہاں سے خون کا ایک فوارہ ان کے جسم کو رنگین کرتا ہوا پورے وجودمیں پھیل گیا بو شمامہؓ صائدی نماز کی حسرت دل ہی دل میں لیے شہید ہو گئے اس کے باوجود حضرت امام حسینؓ نے اپنے اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر ’’ صلوٰۃ الخوف‘‘ کے مطابق ادا فرمائی۔عجب بات یہ تھی کہ یزیدی لشکر سے بھی اذان کی آواز آرہی تھی جس شخصیت کے خلاف وہ صف آرا ہوکر جان کے دشمن ہورہے تھے اس کے نانا کانام سن کربھی وہ خواب ِ غفلت سے نہ جاگے یہ کمال بے حسی تھی یا اسے بے حسی کی معراج بھی کہاجاسکتاہے نماز ادا کر لینے کے بعد دونوں جانب سے صف بندی شروع ہوگئی نقارے بجنے لگے،
ماحول پر عجب وحشت کا راج تھا گویا جنگ شروع ہو گئی یزیدی لشکر نے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو انہی کے خون سے غسل دیناشروع کردیا فضا زخمیوںکی آہوں،چیخوں اور شور سے گونجنے لگی ۔ مخالفین کا ہدف امام عالی مقام تھے دشمن ان تک پہنچنا چاہتے تھے تاکہ یہ جنگ جلد از جلد منطقی انجام تک چلی جائے زہیر ؓبن القین نے ننگی تلوار لے کر آپ کے گرد چکر لگانا شروع کردئیے تاکہ دشمن کوئی نقصان نہ پہنچا سکے انہوںنے کئی خون کے پیاسوں کو واصل کردیا بالآخر وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب حضرت امام حسینؓ کے پاس چند گنے چنے رفقا ء کے اور کوئی نہ رہا تھا وہ سب جانتے تھے ہم سب کا ایک ہی انجام ہے یعنی یقینی موت ۔۔
کربلا کے مسافروںنے جان لیا تھا اب کچھ نہیں ہوسکتااس کا مطلب ہے ہم حضرت امام حسینؓکی جان بچا سکتے ہیں نہ اپنی جان ، اس لئے ہر شخص کی خواہش تھی کہ میں امام حسین ؓپرقربان ہوجائوں تو میرے لئے نجات کاسبب بن جائے گا امام حسینؓ کے ساتھی نہایت شجاعت و بہادری کے ساتھ ریاستی جبرکا مقابلہ کر رہے تھے وہ اپنا انجام جانتے تھے لیکن کسی طور پیچھے ہٹنے کے لئے ایک لمحہ کے لئے تیار نہ تھے۔ اتنے میں امام حسینؓ کے بڑے صاحبزادے علیؓ اکبر آگے بڑھے تو امام حسین کے ساتھیوں میں ایک نیا جوش نیا ولولہ پیدا ہوگیا حضرت علیؓ اکبر شعر پڑھتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے
جس کا ترجمہ ہے ’’میں حسین بن علیؓ کا بیٹا ہوں، رب کعبہ کی قسم! ہم اللہ کے رسول ﷺ کے بہت قریب ہیں۔ لشکرِ یزید کے کئی سپاہی تلواریں سونتے ان کی طرف لپکے یکایک مرہ بن منقذ نہ جانے کہاں سے نمودار ہوا اس بدبخت نے علیؓ اکبر کو نیزہ مار کر زمین پر گرا دیا انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر کچھ اور بدبخت سپاہیوں نے انہیں اپنے نرغے میں لے لیا انہوں نے لاش مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور فاتحانہ انداز میں تلواریں لہراتے ہوئے لشکر میں گم ہوگئے ۔ جگر گوشہ ٔ امام حسینؓ اپنے صاحبزادے کی کٹی پھٹی میت کے قریب تشریف لائے دو زانوں ہوکر اس کے چہرے پرپیار سے ہاتھ پھیرنے لگے
پھر آپ کے ہونٹوں سے نکلا ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برباد کرے جس نے تجھ کو قتل کیا، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کیسے بے وقوف ہیں ‘‘
حضرت امام حسین ؓ کے دو ساتھیوں نے چادر بچھا کر حضرت علیؓ اکبر کا لاشہ اس میں سمیٹا اور اٹھاکر خیمہ ٔ سادات میں لے آئے جگر گوشہ نواسہ رسول کی حالت دیکھ کر بچوں اور خواتین کی چیخیں نکل گئیں ماحول پر آہیں اور سسکیاں غالب آگئیں تھیں۔