اظہار تشکر باعزاز تہنیت اعزازی ڈاکٹریٹ
ڈاکٹر محمد فاروق شاہ بندری
المعروف نقاش نائطی / ابن بھٹکلی
۔ +966563677707
13 جون 2025 ہماری زندگی کا مسرور کن دن تھا جب ہمارے سابقہ چار پانچ دہوں پر محیط، مختلف اخبارات و رسائل نیز عالمی سطح نیوز پورٹل کے ذریعہ سے، اور دیش کے مختلف روزناموں میں مستقل طبع ہونے والے، اپنے متنوع مضامین، نیز فیس بک ٹیوٹر کے واسطے سے اور ساتھ ہی ساتھ،اپنے ان گنت واٹس آپ میسیجز کے ذریعہ سے،ہزاروں لاکھوں اردو قارئین کے ذہن و تفکر تک دستک دئیے، میڈیا آگہی مشن انسانیت کی ذہن سازی میں منہمک ہم جو تھے۔
اردو ادب حلقہ والی عالمی سطح ایک این جی او کے ذمہ دار ہارویسٹ مشن انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ساتھ ہی ساتھ متعدد بین الاقوامی یونیورسٹیز کے مختلف تعلیمی شعبوں سے منسلک و معاون پروفیسر ڈاکٹر عبد العقیل عبدالجبار کی طرف سے، نوید نو ہمیں دی گئی کہ مہاراشٹرا ہی کے دو پروفیسر صاحبان کے ساتھ آنریری ڈاکٹریٹ ڈگری تہنیت کے لئے، ہمارا بھی انتخاب ہوا ہے جس کے لئے ہمیں شہر بلاد ممبئی نور الاسلام ہائی اسکول و جونیر کالج متجوزہ کنووکیشن میں پہنچنا ہے
غالبا” دو دہائی قبل حیدر آباد مرحوم سلطان صلاح الدین اویسی علیہ الرحمہ کےنام نامی سے، قلم کی طاقت میڈیا آگہی، سونے کی تلوار جب سعودی عرب کےانگریزی روزنامہ عرب نیوز کے نائب ایڈیٹر المحترم سراج وہاب کو دیا گیا تھا
اور ان ایام الجبیل مقیم علیگھ ایسوسیشن نے،انکے اعزاز میں ایک شاندار تقریب رکھی تھی۔اس وقت اس تقریب کے نوشاء سراج وہاب سے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے مختلف ای میل گروپ میں ترسیل کئے ہمارے مضامین پر، سب کے سامنے ہماری تعریف و توصیف کئے، ہماری ہمت افزائی کئے، ہم میں موجود لکھنے کے فن کو پہلی بار عوامی سطح سراہتے ہوئے، اسے حیات دوام بخشا تھا۔
عرب نیوز کےنائب ایڈیٹر سراج وھاب
آٹھ سال قبل 5 فروری 2017 کچھ ہندستانی دوستوں نے،
مشہور روزنامہ اردو نیوز ممبئی اور اودھ نامہ لکھنو میں، ہم یعنی نقاش نائطی پر لکھے گئے 5 فروری 2017 کے لکھے ادارتی مضمون کی پیپر کٹنگ، واٹس آپ پر ہمیں بھیجی تو ہم پہلے تو ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئے کہ
ہندستانی اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت، اپنے وقت کے بہت بڑے نقاد اردو ادب، علیگڑھ یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ پروفیسر ،صحافت کی دنیا کی لازوال شخصیت مرحوم عالم نقوی صاحب علیہ الرحمہ نے،ہم جیسے غیر معروف قلم کار پر تبصراتی اداریہ لکھتے ہوئے، ہمیں اردو ادب دنیا میں کماحقہ نیک نام کیوں کر کیا ہے؟ یہ انکا وصف خاص تھا جو بھارت بھر میں شائع ہونے والے موقر روزناموں پر، دور رس نگاہ رکھے،
ہم جیسے نؤزائدہ قلم کاروں کی کما حقہ تعریف و توصیف کئے، ایک طرف ہم میں موجود صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع عنایت کرتے تھے تو دوسری طرف ہمارے مضامین پر مثبت تبصرے کرتے ہوئے، دیگر قارئین کو ہماری طرف ملتفت کئے،ہمیں پڑھنے، انکے لامتناہی قارئین کو اکسایا کرتے تھے۔انکی ان مخلصانہ کوششوں کو اللہ رب العزت قبول کرے اور ان کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت کے اعلی مقام کو انکے لئے محجوز رکھے۔آمین یا رب العالمین
5 فروری 2017 لکھے انکے اداریے میں،اردو ادب گہوارے دہلی لکھنؤ اودھ علیگڑھ سے ہزاروں کلومیٹر دور، وادی سنگلاخ دراوڑ اقوام، کنڑا ملیالم تامل ٹلگو نگری کے چھوٹے سے شہر بھٹکل سے، شستہ اردو میں، متنوع مضامین لکھتے ہوئے، شہر بھٹکل کے اردو ادب سے جڑے رہنے کو ثابت کرنے کی جو کوشش ہم نے کی تھی یقینا” اس کی سند کے لئے مرحوم عالم نقوی علیہ الرحمہ کا، آج سے آٹھ سال قبل تحریر کیا
یہ اداریہ ہی کافی ہے۔ جو ہم اپنے عام قارئین کے استفادہ کے لئے، اس مضمون کے ساتھ ترسیل کر رہے ہیں۔فی زمانہ اس مادیت پرستانہ پونجی واد معشیتی ماحول میں، جہاں فیس بک و دیگر سائبر میڈیا پر اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگریاں، کچھ ہزار ڈالر کے بدلے تشہیرتا” نہ صرف بیچی جارہی ہیں بالکہ اعزازی ڈگری کے متمنی شخصیات سے، مکرر رابطہ قائم کئے، انہیں کچھ ہزار ڈالر ادا کئے اعزازی ڈاکٹریٹ آفر کی جارہی ہے۔ایسے میں اعزازی ڈاکٹریٹ سند سے ہمیں تہنیت کئے جاتے واقعہ پر، دو ہفتہ دوران قوم و ملت کی بہت ساری معتبر و معروف شخصیات نے، ہمیں ڈاکٹریٹ سند نوازے جانے پر خصوصی ملاقات و موبائل لاسلکی ملاقات کئے “دیر آید درست آید” کہتے ہوئے، ہمیں مبارکباد دی ہے جس کے لئے ہم انکے مشکور ہیں
دار الخلافہ ھند دہلی کے مشہور روزنامہ”قومی میزان” کے مالک ڈاکٹر ماجد دیوبندی علیہ الرحمہ اور کرناٹک شیموگا سے طبع و توزیع ہونے والے مشہور روزنامہ”آج کا انقلاب” کے ایڈیٹر ان چیف مدثر احمد صاحب کے ہم مشکور ہیں، جنہوں نے ہمیں نہ صرف اپنا مستقل کالمسٹ متعین کیا ہوا ہے بالکہ قومی میزان میں تو اکثر ہمارے مضامین ہفت واری اداریاتی طرز ہی طبع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی سے نشر ہونے والے مشہور اردو نیوز پورٹل اسٹار نیوز ٹیلوزن نے تو ہمیں نائب ایڈیٹر کے عہدہ تمکنت پر سابقہ کئی سالوں سے متمکن کیا ہوا ہے جس کے لئے ہم انکے کے بھی مشکور ہیں،پڑوسی پاکستان و یوکے ویلز سے مشترکہ نشر کونے والے مشہور برالاعظمی اردو نیوز پورٹل “قلم کی طاقت، دی فائر اسٹون” اور حیدر آباد سے نشرہونے والے مشہور اردو نیوز پورٹل “الھلال نیوز ڈاٹ کام” والے بلا ناغہ ہمارے مضامین، من وعن پوسٹ کیا کرتے ہیں۔میڈیا سے منسلک انہی شخصیات کی منجملہ کاوشیں ہیں
جو آج اس لائق ہوئے ہیں کہ نہ صرف ہماری میڈیا آگہی خدمات کو سراہتے ہوئے، ہمیں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا ہے بلکہ جنوب ھند اردو اخبارات کے ساتھ ہی ساتھ، دہلی سےطبع و توزیع ہونے والے متعدد ھندی اخبارات میں ہمیں اعزازی ڈاکٹریٹ سند تہنیت فوٹو کے ساتھ شائع کئے ہمیں اردو ادب کے ساتھ ھندی علاقوں میں بھی نیک نام کیا ہے۔ دو ایک دن قبل، اعزازی ڈاکٹریت سند نوازنے والی این جی او ذمہ داران سے لاسلکی موبائل تبادلہ خیال دوران، مستقبل کے اس این جی او کی طرف سے اعزازی ڈاکٹریٹ سند نوازے والی ھندستان گیر کمیٹی یا این جی او کا رکن رکین بھی ہمیں بنایا گیا ہے۔
خدائی صلاحیتوں سے سرشار معتدل و غریب طبقہ کو انکے زندہ رہتے، انکی مکرر ٹانگیں کھینچے، انہیں نیک نامی سے محروم رکھنے والے ہی، انکی وفات بعد، تعزیتی اجلاسوں میں،انکی تعریف و توصیف کے پل باندھتے ہوئے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے کی کوشش پس منظر والے مردہ پرست دور انسانیت میں، خدائی صلاحیتوں سے، تونگر وقت بنی شخصیات، خود تو صدا سرپرستان بزم بنے رہتے اور والیان و قائدان قوم ملت بنتے پائے جاتے ہیں ایسے شرفاء و زرداران قوم و ملت، خود کو وقت کا فرعون و شداد سمجھتے ہوئے،
اپنے چند ٹکوں کے عوض حاصل، ان کے اطراف صدا جی حضوری کرتے رہنے والوں کو استعمال کر، بزم و ادارتی نششتوں میں واہ واہی بٹورتے ہم جیسوں کاجائز حق مارتے، ہمیں صدا مغموم و متاسف چھوڑتے ہیں انہیں معلوم ہونا چآہیئے کہ
وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ💐
اور(اللہ) جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے💖 وما علینا الا البلاغ
5 فروری 2017 کے روزنامہ اردو نیوز ممبئی اور روزنامہ اودھ نامہ لکھنو میں بیک وقت چھپا اداریہ
“بھارتیہ سیاست اور مسلمان”
مرحوم عالم نقوی صاحب علیہ الرحمہ
دراوڑ اقوام کی وادی سنگلاخ سرزمین کنڑا تیلگو تامل ملیالم زبان درمیان، شستہ اردو تحریر سے،اردو ادب کی دنیا میں، اپنی الگ خاص پہنچان بنانے والے نقاش نائطی پر، اردو ادب دنیا کے مشہور و معروف نقاد و تبصرہ نگار قلمکار المحترم مرحوم عالم نقوی علیہ الرحمہ کا بے لاگ تبصرہ
کرناٹک شیموگا سے شائع ہونے والے روزنامہ آج کا انقلاب میں، عالمی و ملکی سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی اور اسکے اسباب کے موضوع پر الجبیل سعودی عربیہ کے رہنے والے ایک بھارتیہ شہری محمد فاروق (شاہ بندری قلمی نام، نقاش نائطی یا ابن بھٹکلی) صاحب کے دو مضامین ایک ساتھ شائع ہوئے ہیں جو اس لائق ہیں کہ ملک کی پوری اردو دنیا کے مطالعہ میں آنا چاہئیے۔ ہم اسکے اہم نکات قارئین کے ساتھ شئر کرنا چاہتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ “یہ کوئی فلسفہ نہیں، زندگی کی حقیقت ہے کہ جب کسی ریوڑ کا چرواہا نہیں ہوتا، یا اسکے تحفظ کی معقول تدابیر سے غفلت برتی جاتی ہے تو ریوڑ پوری طرح بھیڑیوں کےرحم و کرم پر ہوتا ہے۔اور بھیڑیوں کی تو فطرت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ بلا امتیاز جانداروں کے خون سے اہنی بھوک کا ازالہ کرے۔ مثال کے طور پر دہلی ذو (چڑیا گھر) میں،جب ایک نوجوان غلطی سے تیندوے کے باڑے میں گرگیا تو، تیندوے نے اسکی گردن دبوچنے میں ذرا تاخیر نہ کی. جبکہ بھوپال جیل میں آتھ مسلم نوجوانوں کے ساتھ بھی، گذشتہ دنوں جو کچھ ہوا، وہ بھی کچھ ایسا ہی سانحہ تھا۔ فرق بس اتنا تھا کہ تیندوا حیوان تھا،اور بھوپال پولیس کے آدم خود انسان! دراصل مسئلہ یہ نہیں، کہ صرف بی جے پی ہی مسلمانون کے ساتھ ایسا سلوک کررہی ہے۔
بالکہ مسلمان آزادی ھند کے بعد سے، سامراجی صیہونی بھیڑیوں کے بنائے اور نافذ کئے ہوئے، سیاسی نظام اور سنگھ پریوار کے سیاسی بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ براعظم عظیم کے مسائل کی جڑیں سامراجی نظام اور اسکے مقامی چاکروں اور دوستوں کے غریب دشمن اور انسانیت دشمن سیاست میں پیوست ہیں۔ برعظیم کی گذشتہ ستر برسوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان کسی خاص سیاسی پارٹی کا نہیں، اس سیاسی اور جمہوری فاشزم اور نسل پرستی کا شکار ہے۔جو اراکان سے ھندوکش تک رائج ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے جو ظلم دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر کئے جاتے تھے،
اب وہ مودی کے عہد میں، براہ راست ہورہے ہیں۔اور چونکہ ہم فوری طور پر، اس انسانیت دشمن اور غریب دشمن، نسل پرستانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لئے وقتی ضرورت یہی ہے،کہ سنگھ پریوار کے ہاتھوں سے زمام اقتدار بہر طور کھینچ لی جائے۔مقابلہ چونکہ براہ راست حق و باطل کے درمیان نہیں، بالکہ باطل ہی کی مختلف صورتوں کے عظیم تر برائی(گریٹر ایویل) کے مقابلے میں کمتر برائی ( لیسر ایویل) کے درمیان ہے اس لئے وہ ہماری مجبوری ہے
موجودہ سیاسی نظام جو عوامی طاقت کے بل بوتے پر، قائم قانون کی حکمرانی کا دعوے دار ہے۔اسے عوامی فلاح و بہبود، حقیقی سماجی بہبود،حقیقی سماجی مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کے نظام میں، تبدیلی کئے بغیر، انصاف کی حکمرانی Rule of Justice کا قیام ممکن ہی نہیں،
اور جب تک ایسا نظام نافذ العمل نہیں ہوگا، جس میں، In letter and Sprit لفظا” و معنا” راجہ اور رنگ ، امیر و غریب، حاکم وعوام، ووٹ دینے والےاور ووٹ لینے والے، منصف و وکیل،کلرک وبیورو کریٹ، امیت شاہ اور محمد آخلاق، نریندر مودی اور روہت ویملا، نجیب احمد اور اکلیش سنگھ، سب برابر ہوں۔ وطن عزیز اور برعظیم بھارت،بنگلہ دیش،پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی حصے میں،امن قائم نہیں ہوسکتا،انصاف میں تاخیر تو انصاف کی نکیر ہے، انصاف کا مہنگا ہونا اور غریبوں کی دسترس سے باہر ہونا بھی،انصاف سے انکار Justuce Denied جیسا ہی ہے
۔سچی بات یہ ہے کہ ہم بھی اوصولی طور پر، کانگریس اور سماج وادی کے حامی نہیں ہیں، لیکن سر دست وہ ہماری مجبوری ہے۔دوسرا آپشن مایاوتی کا ہے۔جو ملک کی بدنام ترین، کرپٹ ترین وزیر اعلی ہونے کے ساتھ ساتھ ناگ ناتھ اور سانپ ناتھ کے ساتھ،ہاتھ ملانے کا شرمناک ریکارڈ بھی رکھتی ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں، انکے برسر اقتدار آنے کے امکان نہیں، تیسرا آپشن ہی ہے جو ہمارے نزدیک بہترین ہے
.یہ آپشن ملک کی چھوٹی پارٹیوں اور مسلم تنظیموں کے اتحاد کا ہے۔لیکن وہ بھی خواب سے حقیقت بنتا نظر نہیں آتا۔ملک کی استحصالی قوتیں اور انکے حامی موالی پندرہ بیس یازیادہ سے زیادہ پچیس تیس فیصد سے اوپر نہیں، اس کا مطلب یہ کہ ملک کی پیٹھ سے ستر فیصد آبادی محرومین و مظلومین پر مشتمل ہے۔جس میں مسلمان دلت بیک ورڈ سب شامل ہیں۔ ان مستضعفین میں بھی، اکثریت غیر مسلم اہل وطن کی ہی ہے۔ یہ65% تا 70% جدھر بھی چلے جائیں اسی کو زمام اقتدار سونپ سکتے ہیں۔ اور سب سے غیر متحد اور دشمنوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بھی یہی ہیں۔ اس صورتحال میں، تبدیلی ناممکن تو ہرگز ہی نہیں کہ اس عالم میں سب کچھ ممکن ہے۔لیکن وہن کی شکار قیادت کی منافقت کی وجہ سے مشکل ضرور ہے،
دراصل ہمیں عبدالستار ایدھیوں، بدرالدین اجملوں، عبدالستار کالسیکروں، مدر ٹریساؤں، ایروم شرمیلاؤں، کنہیا کماروں، کجریوالوں، ہرش مندروں، زان ڈریزوں اور رویش کماروں کی شدید ضرورت ہے۔ان سبھوں میں جو چیز مشترک ہے وہ بے لوث جذبہ خدمت ہے۔کانگرئس اور بے جے پی جیسی منافقانہ اورفرقہ وارانہ سیاست کرنے والوں اور سامراجی نظام کو بدلنے کی کوشش کے بجائے، اسے اپنی ہوس و اقتدار کے لئے، استعمال کرنے والوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، لیکن مسئلہ یہی ہے
کہ تیسرا آپشن ابھی، خدمت اور ہردلعزیزی کی سطح پر موجود نہیں، اس لئے بدرجہ مجبوری اترپردیش میں، سنگھ پریوار کو روکنے، اور بڑی برائی سے بچنے کے لئے، کمتر برائی کو ووٹ دینے کے آپشن پرعمل کرنےکے سوا، اور کوئی چارہ نہیں، لیکن یہ صرف وقتی حکمت عملی ہے۔ دائمی نہیں۔ گلشن ھند میں تنگ دامانی کا علاج موجود ہے۔ضرورت صرف اس کی ہے کہ بھیک کی طرح ملی چند کلیوں پر قناعت کرلینے کے بجائے، مومنانہ فراست کی طرح جانے والی طویل مدتی منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے۔ اوروہ بھی کچھوا رفتار سے نہیں،جنگی پیمانہ پر، اور ہر طرح کے اسراف اور دہن سے خود کوبچاتے ہوئے۔ ممکنہ تیزی کے ساتھ
“کچھ مرحوم عالم نقوی کے بارے میں”
لکھنؤ – معروف صحافی عالم نقوی نے طویل علالت کے بعد 30 اکتوبر 2024 جمعہ کی صبح نئی دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال میں آخری سانس لی۔ وہ اپنے پیچھے صحافت میں ایک عظیم ورثہ چھوڑا ہے۔
عالم نقوی کو ایک تجربہ کار اور اصول پسند صحافی سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی دنیا کے بارے میں ان کا وسیع مطالعہ اور گہری تفہیم اکثر ان کی تحریروں میں جھلکتی تھی۔ انہوں نے کئی سالوں تک روزنامہ انقلاب میں نیوز ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں جہاں ان کی ادارتی صلاحیتوں کو سراہا گیا۔ انہوں نے اخبار کے سنڈے میگزین میں “نقطہ نظر” کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھا، جس میں ان کے بصیرت افروز مضامین مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر روشنی ڈالتے تھے۔
نقوی کا صحافتی کیریئر لکھنؤ میں روزنامہ عظیم سے شروع ہوا اور بعد میں انہوں نے اردو ٹائمز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ ان کے مضامین قومی آواز اور آواز نامہ سمیت مختلف اشاعتوں میں اکثر شائع ہوتے ہیں۔ وہ اپنی واضح رائے اور ان مضامین کی مکمل جانچ کے لیے جانا جاتا تھا جن کا وہ احاطہ کرتا تھا، اکثر اپنے نقطہ نظر کی تائید کے لیے قرآن کا حوالہ دیتا تھا۔ ان کے ساتھی، جمیل مہدی، جنہوں نے نقوی کے ساتھ دو دہائیوں تک کام کیا، انہیں پیار سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ “ان کا دل اپنی برادری کے لیے ہمدردی سے بھرا ہوا تھا، اور ان کی تحریریں اس کی گہرائی سے عکاسی کرتی ہیں۔”
1952 میں پیدا ہوئے، نقوی کا تعلق اتر پردیش کے رائے بریلی ضلع کے ناصر آباد سے تھا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے سے پہلے لکھنؤ کے سینٹ زیویئر کالج اور شیعہ کالج میں اپنی تعلیم مکمل کی، جہاں انہوں نے نفسیات میں اپنی تعلیم کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا۔
معروف صحافی و دانشور عالم نقوی کی یاد میں ایک دعائیہ اور تعزیتی اجلاس اتوار کو ان کے چھوٹے بھائی ایم طاہر نقوی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔
اس تعزیتی میٹنگ کی صدارت جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے سابق پروفیسر پروفیسر معین الدین اے جنبادے نے کی۔ حاضرین میں منصور عالم قاسمی، لائق رضوی، آصف فہمی (دین دنیا میگزین کے)، ڈاکٹر محمود عالم (پروفیسر، شعبہ کامرس، ذاکر حسین کالج)، نعیم الدین، اور محمد عارف اقبال وغیرہ شامل تھے۔
۔
الیکٹرانک میڈیا کے سینئر صحافی لائق رضوی نے صحافت میں نقوی کی چند شراکتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دلی خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے نقوی کو شبانہ اعظمی اور دوسروں کی طرف سے اپنے ایک شائع شدہ مضمون پر درپیش دھمکیوں کا بھی ذکر کیا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ نقوی ان چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے پرسکون اور بے خوف رہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں، پروفیسر معین الدین جنبادے نے عالم نقوی کے ساتھ اپنی گہری دوستی کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ نقوی نے خود کو مذہبی اور لسانی شاونزم سے بہت دور رکھا۔ وہ لکھنؤ کی ثقافت کی تمام قابل تعریف خصوصیات کے مالک تھے لیکن اس کی برائیوں سے دور رہے۔ نقوی میں تعمیری فکر کو تشکیل دینے کی قابل ذکر صلاحیت تھی۔ پروفیسر جنبادے نے اپنے خراج تحسین کا اختتام پُرجوش الفاظ کے ساتھ کیا: ’’آخر میں زندگی کی شام آگئی…‘‘