48

کربلا کے مسافر تیسرا باب

کربلا کے مسافر تیسرا باب

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

حضرت امام حسینؒ کو ابن ِ زیاد کا پیام پہنچایا گیا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر تے ہوئے کہا میرا پہلے ہی دن سے ایک ہی اعلان ہے کہ میں کسی صورت یزیدکی اطاعت نہیں کروں گا میں اس کی بیعت کیسے کرلوں جو فاسق اور فاجرہے۔
اتنے میںشمربن ذی الجوشن نے حسینی لشکر کے سامنے آکر تلواریں لہراناشروع کریں بہت سے سپاہیوںنے گھوڑوںپر سوارہوکر تیرکمان تان لئے ۔آپ کے بھائی حضرت عباسؒآگے بڑھے اور اپنے مدمقابل حریف کو سمجھایا کہ تم خانوادہ ٔ رسول سے جنگ کروں گے جس کے قافلے میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔۔تم اس کے مقابل ہو جسے آخری نبی ﷺ نے جنت کے نوجوانوںکا سردار قرار دیا تھا۔
شمربن ذی الجوشن نے غصے سے کہا اطاعت کرو ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائو اس کا لہجہ انتہائی کاٹ دار تھا جیسے یہ فیصلہ حتمی اور آخری ہو ۔ حضرت عباسؓ نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ دوسری جانب چلاگیا اور جاتے جاتے زور سے بولا اب جنگ ہوگی اس کے ساتھ گھوڑ سوار بھی جنگ۔۔ جنگ کا راگ الاپنے لگے ۔
حضرت عباسؓ نے فوراً جا کر امام حسینؓ کو ا تمام صورت ِ حال سے آگاہ کیا۔ امام حسینؓ نے جان لیا اب ٹکرائو ناگزیرہے یزیدی فوج کے ساتھ جنگ یقینی ہے آپ نے فرمایا ’ آج کی رات میں وصیت، نماز، دعا اور استغفار میں گزارنا چاہتاہوں۔‘‘ رات کو امام عالی مقام ؓ نے اپنے جانثاروں کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا جس کا مفہوم یہ تھا
’’میں اللہ تعالیٰ کا انتہائی شکر گذار ہوں، راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی۔ اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمارے خاندان کو نبوت سے نوازا، ہمیں کان اورآنکھیں اور دل دیئے، جن سے ہم ا ٓیات سمجھیں اور ہمیں تو نے قر آن پاک کی تعلیمات سے بہرہ مندفرما یا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی میری التجا ہے ہمیں تو اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما۔ آمین‘‘ اس کے بعد امام حسینؓنے بنو عقیل فیملی کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ تمہارے بابامسلم بن عقیلؓ کو شہید کردیاگیا وہ زخم ابھی تازہ ہے، تمہاری طرف سے وہی ایک کافی ہیں لہذا تم سب کے سب واپس چلے جائیں، میں تمہیں خوشی سے اجازت دیتا ہوں۔‘‘
’’ یہ کیسے ممکن ہے ۔۔مسلم بن عقیل فیملی نے کہاہم آپ اور آ پ کے ساتھیوں کو موت کے منہ میں چھوڑ کر محض اپنی جانیں بچا نے کے لئے یہاں سے چلے جائیں اللہ کی قسم! ہم تو آپؓ پر اپنی جانیں اور اولاد و اموال سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیارہیں۔‘‘ یہ باتیں سن کر امام حسین ؓکی ہمشیرہ حضرت زینب بے قرار ہو کر رْونے لگیں تو آپ نے انہیں محبت سے گلے لگاکر تسلی دی اور فرمایا ہم نے ایک عظیم مقصد کیلئے اپنا گھر،اپنا شہر چھوڑا ہے۔ آج نہیں تو کل ضرورلوگ ہمیں ہمارے نظرئیے کی بنیاد پریادرکھیں گے

ہمیں کسی کا کوئی خوف نہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے اصحاب کو ایک جگہ جمع ہونے کی ہدایت فرمائی راقم الحروف کی ریسرچ کے مطابق امام حسینؓ کے لشکرمیں 1. نواسہ ٔ رسول ﷺحضرت امام حسینؓ ابن علیؓ (شمر ذلجوشن کے ہاتھوں شہید ہوئے) 2. حضرت علی اکبرؓ ابن حسین ابن علی کو مرہ بن منقز بن نعمان العبدی نے شہید کردیا۔ 3. حضرت علی اصغرؓ بن حسین ابن علی ( حرملہ ابن خلیل الاسدی کے ہاتھوں شہید ہوئے ) 4. حضرت عبداللہؓ ابن علیؓ ( کوہانی بن ثوبیت الہدرامی نے شہیدکیا) 5. حضرت ابوالفضل العباسؓ ابن علی ؓ کو (یزید بن رقد اور حکیم بن طفیل اللہ نے شہید کیا 6. حضرت جعفر ؓبن علی کو ہانی بن توبت کے ہاتھوں شہید ہوئے جبکہ 7. حضرت عثمان ؓبن علی:ؓ (خولی بن یزید العدباحی العیادی اور ابانی الدریمی کے ہاتھوں شہید ہوئے) 8. حضرت محمد ؓبن علیؓ (ابانی الدریمی کے ہاتھوں شہید کردئیے گئے) 9

. حضرت ابی بکرؓ ابن الحسن ابن علیؓ (عبداللہ بن عقبہ کے ہاتھوں شہید ہوئے) 10. حضرت عبداللہؓ ابن الحسن ابن علی ؓ ( کوحرملہ بن خیل الاسدی نے شہید کیا) ۔11. حضرت قاسم ؓابن الحسن ؓابن علی ؓ (عمر بن سعد بن نفیل الازدی کے ہاتھوں شہید ہوئے) ۔12. حضرت عونؓ ابن عبداللہ ابن جعفرؓ آل طیار (عبداللہ بن کْتیہ النبھانی کے ہاتھوں شہید ہوئے ) ۔13. حضرت محمد ؓبن عبداللہؓ ابن جعفر الطیار (عامر بن نہال التمیمی کے ہاتھوں شہید ہوئے) ۔14. حضرت جعفرؓ ابن عقیل ؓ (خالد بن اسد الجوہانی کے ہاتھوں شہید ہوئے

) ۔15. حضرت عبداللہؓ ابن مسلم ابن عقیل ( کوعامر بن صعصہ کوشہید کیا ) ۔16. حضرت ابو عبداللہ ؓابن مسلم ابن عقیل ؓ (عمرو بن سودائیہ سیدوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ) 17. حضرت محمدؓ بن ابو سعید ابن عقیل ( لاقیت بن نشیر ال جوہانی نے شہید کیا ) ۔18. حضرت سلیمان ؒ، جو امام حسین کا غلام تھے (سلیمان بن عوف حدرامی کے ہاتھوں شہید ہوئے) 19. قاریب ، امام حسین ؓکے غلام 20. منزہ ؒ، امام حسین کے غلام۔21. حضرت مسلمؓ ابن اوساجہ الاسدی کو( عبداللہ الذہبی اور عبداللہ خاشکارہ الباجلی نے شہید کیا) جبکہ 22. حضرت سعید اؓبن عبداللہ الحنفی ۔23. حضرت بشریٰ بن عمرو الخدرمی 24. حضرت یزید ابن الحسینؓ (قاری قرآن) 25. حضرت عمرانؒ ابن الکلب انصاری ،26. حضرت نعیم ؒابن اجلان تعالی انصاری ،

27. حضرت زہیرؒ بن قین تعالی باجلانی۔ 28. حضرت عمرؒو بن قرزہ تعالی انصاری ۔29. حضرت حبیبؒ ابن مدھاہر تعالی اسدی ۔ 30. حر ابن یزید رحمہ اللہ تعالی ۔ 31. عبداللہ بن عمیر رحمہ کلبی ۔32. نافعؒ بن ہلال تعالی جمالی المرادی ۔33. انسؒ بن خیل ابن الحارث السدی 34. قیسؒ ابن المصحر السعودی ۔ 35. عبداللہؒ ابن عروہ ابن الحراق الغفاری ۔36. عبدالرحمن ؒابن عروہ ابن الحراق الغفاری 37. شبیبؒ ابن عبداللہ نہال ۔38 . جونؒ ، ابوذر الغفاری ؒکا غلام۔39. حجاجؒ ابن زید سعدی 40. قاسط ؒابن ظہیر الثلبی 41. مقصود ابن ظہیر الثلبی۔42. کنانہ اؒبن عتیق ۔ 43. دھرم ؒابن مالک 44 . جوین بن مالک الدبائی ۔ 45. زید بن ثوبیت القیسی 46. حضرت عبداللہؓ ابن زید ابن ثوبیت القیسی 47. عبید اللہ ابن زید ابن ثوبت القیسی 48.

امیر اؒبن مسلم 49. قنابؒ بن عمرو النماری۔50. سلیم ، عامر ؒابن مسلم کا غلام 51. سیف ابن ملک ۔52. ظہیرؒ ابن بشی الخطامی 53. زید ؒبن میقال الجوفی ۔54۔ حجاجؒ ابن مسروق الجوفی 55. مسعودؒ ابن حجاج 56. مسعود ابن حجاج کا بیٹا (نام معلوم نہیں) 57. مجمعؒ ابن عبداللہ العزی 58. عمار اؒبن حسن ابن شوریب الطائی 59۔ حیانؒ بن حارث السلمانی الازدی 60. جندابؒ ابن حجر الخلانی 61. عمر بن خالد السعدوی 62. سعید ، ؒعمر بن خالد کا غلام 63. یزید ؒبن زیاد ابن مزاہی الکندی 64. ظہیرؒ کا غلام عامر ابن ہموق الخزاعی 65. جبلہؒ ابن علی الشیبانی 66. سالمؒ، بنی مدینت الکلبی کا غلام 67. اسلم ؒبن خطیر الازدی 68. ظہیرؒ بن سلیم الازدی 69. قاسم ؒبن حبیب الزدی 70. عمرؒبن امام الدھامی 71. ابوؒ ثمامہ، عمر بن عبد اللہ سعیدی 72. حنزؒہ بن اسد امام شامی 73. عبد الرحمن ؒبن عبد اللہ ارحابی 74. عمرؒبن ابو ثمامہ امام حمادامی 75. عبیسؒ ابن شبیب الشکری 76. شاذابؒ ، شاکی کا غلام 77. شبؒ ایب ابن حارث بن ساڑی 78. مالکؒ ابن عبداللہ ابن ساڑی 79. سوار ابن ابی المنحمی الحمدانی* 80.

عمارؒ ابن عبداللہ الجندعی ( جوزخمی حالت میں پکڑے گئے اور جیل میں انتقال کرگئے) پر مشتمل امام عالی مقام کے ساتھیوں کی تعداد80 تھی جبکہ کچھ روایات میں بتایا جاتاہے کہ اس وقت امام حسین ؓکے ساتھ کل بہتر72اصحاب تھے جن میں سے بتیس (32) گھڑ سوار اور چالیس (40 ) پیادہ تھے تمام شب تہجد اور دعا و استغفار میں مشغول رہے۔ یہ عاشورہ کی رات کا تذکرہ ہے اور صبح عاشورہ ( 10محرم) کا دن تھا۔ سورج طلوع ہوا تو دھوپ کا رنگ عجب محسوس ہورہاتھا شاید معمول سے زیادہ گرمی سے ریت تپنے لگی ماحول میں کشیدگی اور متحارب گروپوں کے افراد کے چہروںپر تنائو تھا یزیدی فوج کی تیاریوں سے صاف ظاہرہورہاتھا کہ وہ نواسہ ٔ رسول ﷺ کے ساتھ کوئی نرمی کوئی رعائت کی بجائے ان کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں

۔ یہ دسویں محرم جمعہ یا ہفتہ کا دن تھا فجر کی نماز ادا کرتے ہی عمرو بن سعد لشکر لے کر امام حسینؓ کے مقابل آ گیا عمرو بن سعد نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کا ایک سالار مقررکردیا یہ اس کی جنگی حکمت ِ عملی تھی کہ سارا لشکرایک ہی بارلڑائی میں جھونکنے کی بجائے وہ طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا جس کا ایک ہی مقصد تھا امام حسینؓ کو یزیدکی اطاعت پرراضی کیا جا سکے اور ان کے ساتھی خوفزدہ ہوکر امام حسینؓ کا ساتھ چھوڑ جائیں لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی۔ عمرو بن سعد لشکر نے1000سواروںپر مشتمل لشکر کا سالار حر بن یزید کو بنا دیا وہ سب سے پہلے امام حسینؓ کے مقابلہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس کا لشکر کربلاؓ کے مسافروں کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا

۔حربن یزید کا دل خون کے آنسو رونے لگا وہ سوچنے لگا حالات نے مجھے اس شخصیت کے مقابل آن گھڑاکیاہے جسے نبی آخرالزماں ﷺ نے جنتی نوجوانوںکا سردار قراردیا ہے حیف صد حیف میں نے حکمران کا ساتھ دیا خدا یقینا مجھے معاف نہیں کرے گا اس کی ضمیر سے ایک آواز اس کے دل و دماغ پر حاوی ہوتی چلی گئی حرؒبن یزید نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیامیں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کروں گا اور یہ کفارہ امام عالی مقام ؓ کا ساتھ دے کر ہی ممکن ہے اس کے دل میں اہل بیت اطہار کی محبت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگاوہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے

امام حسینؓ کے قریب چلاگیا حربن یزید کو اتنا قریب دیکھ کر امام عالی مقام کے ساتھی مضطرب ہو گئے لیکن انہوں نے غورکیا تو حربن یزید کے دونوں ہاتھ خالی تھے ایک سوار بولا شاید حرکو پیغام لے کر آیاہے دوسرا کہنے لگا میرے خیال میں پیام و پیغام کا وقت گذر چکاہے یقینا کوئی اور بات ہوگی پھر فلک نے ایک عجیب منظردیکھا حربن یزید نے اپنی تلوار حضرت امام حسینؓ کے قدموں میں پھینک دی اور دونوںہاتھ باندھ کر معافی کا طلبگارہوگیا اس کی آنکھوں سے اشک روں تھے اور چہرے پر شرمندگی کے ایثار نمایاں تھے۔ وہ کہنے لگا
’’ شایدیہ میری غفلت ہے کہ آپ کو واپسی کے لئے واپسی کے دوازے بند ہوگئے ہیں ۔ واللہ! مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ لوگ آپ کے خلاف اس حد تک چلے جائیں گے میں سخت نادم ہوں اب میں آپ کے حضور توبہ تائب ہو کر آیا ہوں للہ مجھے معاف کردیںکاش مجھے حالات کا ادراک ہو جاتااب میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کا ساتھ دینے پر میری جسم کی بوٹی بوٹی بھی ہو ئے تو کوئی پرواہ نہیں شاید ایسے ہی میں اپنی غلطیوںکا کفارہ اداکرسکوں گا۔ عجیب یہ ہوا حربن یزید جو امام حسینؓ کی جان کا دشمن تھا اب جانثاروںکی صف میں کھڑا تھا وہ راہ ِ حق کا مسافر بن گیا تھا تاریخ کافیصلہ یہ ہے کہ حربن یزید کی یہ اطاعت بہت بڑی سعادت بن گئی جس نے اس کو امر کردیا(باقی آئندہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں