کربلا کے مسافر
جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
جب خلافت کو ملوکیت نے بادشاہت میں تبدیل کردیا تو چندبڑے بڑے جلیل القدرصحابہ کرام نے اس کے خلاف مزاحمت کی ،کچھ نے حالات کی نزاکت کے پیش ِ نظرچپ سادھ لی،کچھ مصلحتوںکاشکارہوگئے کئی نے معاملات کو حالات کے رحم وکرم پرچھوڑدیابہرحال اکثریت نے ملوکیت کو دل سے قبول نہ کیا اسلامی سلطنت میں بھی نظریہ ضرورت ایجادکرلیا گیااس وقت چندصحابہ کرام اجمعین کا مؤقف یہ بھی تھا کہ حضرت امام حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری نے دوسرے فریق کیلئے میدان کھلاچھوڑدیاہے بہرحال یزید نے حکومت سنبھالتے ہی جب فوراً اپنی خلافت کا اعلان کر دیا
تو اس نے حضرت امام حسینؓ سے بھی اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطالبہ کردیا کیونکہ یزیدکے حامیوںکاخیال یہ تھا کہ نواسہ ٔ رسول ﷺکی بیعت کے بغیرحکومت مضبوط نہیں ہوسکتی کل یہ نہ ہو کہ حضرت امام حسینؓ کے ساتھیوں نے یزیدکی حکمرانی کے خلاف علم ِ بغاوت بلندکر دیا تو پھر اس پرقابو پانا مشکل ہوجائے گالیکن حضرت امام حسینؓ نے کسی مصلحت اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر بانگ ِ دہل اعلان کردیا کہ یزید خلافت کا اہل نہیں اس لئے اسے خلیفۃ المسلمین نہیں بنایا جاسکتا جس پر حکومتی ایوانوںمیں کھلبلی مچ گئی
اب امام عالی مقام نے اپنے تمام ساتھیوں کو ایک جگہ جمع کرکے ان سے فرمایا کہ اہل کوفہ نے عہدشکنی کرکے ہمیں دھوکا دیا ہے اس کے باوجود میرا نظریہ نہیں بدل سکتا کسی خوف یا ڈر سے یہاں سے پلٹ جائوں یہ مجھے کسی صورت گوارہ نہیں سب نے کہا ہمیں آپکا ساتھ عزیز ہے اس لئے ہم آپ کو تنہانہیں چھوڑ سکتے امام حسینؓ اور ان کے ساتھی ابھی راستہ میں چل ہی رہے تھے کہ دوپہر کے وقت دْور سے گرد اٹھتی دکھائی دی ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے کچھ چیزیں حرکت کر رہی ہوں ایک ساتھی قریبی ٹیلے پرچڑھ گیا
اس نے غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کئی گھڑ سوار ہیں اس نے صورت ِ حال سے آگاہ کیا حالات کی نزاکت کے پیش ِ نظرحضرت امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو کہا وہ پہاڑی کے قریب پھیل جائیں ضرورت محسوس ہوئی تو اسی جگہ کو محاذِ جنگ بنالیں گے۔ ابھی کربلا کے مسافر محاذ کی تیاری میں مصروف ہی تھے کہ ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج حر بن یزید کی قیادت میں ان کے چہاراطراف پھیل گئی معلوم یہ ہوا کہ حر بن یزید کو حصین بن نمیر نے ایک ہزار گھڑ سواروں کی فوج دے کر ’’قادسیہ‘‘ بھیجا تھا،
اس لئے یہ اور اِس کا لشکر کر امام حسینؓ کے مقابل آ گئے دونوں جانب سے سرگوشیاں ہونے لگیں کچھ اس صورت ِ حال سے ناخوش تھے لیکن وہ مجبور تھے حضرت امام حسینؓ نے حر بن یزید سے فرمایا:’’تم کس ارادے سے یہاں آئے ہو؟۔’’ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آپ کو ابن زیاد کے پاس پہنچا دیں۔۔ ‘‘ حر نے کہا وہ آپ سے ملنے کا متمنی ہے ۔‘‘‘’ اس نے بھی بیعت کی بات کرنی ہے حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ’ بیعت کے لئے مجھے مجبورنہیں کیا جاسکتا اس لئے میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جا ئوں گا۔‘‘
: ’’اللہ کی قسم ! حرنے جواباً کہا پھر ہم بھی آپ کو یہاں تنہا نہ چھوڑ سکتے آپ ضد نہ کریں تو بہتر ہے۔یہ کہہ کر امام عالی مقام نے اپنے ساتھیوںکو آگے بڑھنے کا حکم دیالشکرِحسینؓ کو کئی اندیشے اور وسوسے لاحق تھے‘ لیکن ان پر تو خوش بختی نازاں تھی ہرکوئی نواسہ ٔ رسول پر قربان ہونے کے لئے بے تاب تھا جب آپؓ’’نینویٰ‘‘ کے مقام پر پہنچے تو انہیں دور سے ایک گھڑ سوار کوفہ کی جانب سے سے آتا دکھائی دیا دونوں جانب سے دل دھڑکنے لگے حضرت عباس ؓ علم بردار رک گئے کہ اس ماحول میں نہ جانے کون آرہاہے ؟
حر بن یزید کا لشکربھی آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا گھڑ سوارکو قریب آتا دیکھ کر سب رک گئے درجنوں اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر گئے۔ گھڑسوار حر بن یزید کی جانب چلاگیااور اسے بڑے تپاک سے سلام کیا اس نے ابن زیاد کا اسے مکتوب دیا۔ حر نے ابن زیاد کا خط پڑھ کر امام حسینؓ کو سنایا اور نرمی سے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے کہا : ’’میںدل سے آپ کی عزت کرتاہوں جوکچھ آپ کے ساتھ روا ہے اس کا مجھے انتہائی رنج ہے اِس وقت میرے سر پر جاسوس مسلط ہیں، اس لئے فی الحال میں آپؓ کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت کرسکتاہوںنہ آپ کو کوئی رعائت دینے کی پوزیشن میں ہوں۔‘‘
اِسی دوران ابن زیاد نے کوفہ سے عمرو بن سعد کو مجبور کرکے مزید چار ہزار سپاہیوں کا لشکر دے کر امام حسینؓ کے مقابلے کے لئے روانہ کر دیا۔ عمرو بن سعد نے حضرت امام حسینؓ سے پوچھا آپ کوفہ میں کیوں چلے آئے ؟
’’ اہل کوفہ نے خود مجھے یہاں آنے کی دعوت دی تھی۔۔حضرت امام حسینؓ نے پورا واقعہ سناکرفرمایا وہ میری بیعت کرنا چاہتے تھے پھرنہ جانے کیا ہوا ان کی رائے بدل گئی اس صورت ِ حال میں میں واپس مدینہ جانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
عمرو بن سعد نے ابن زیاد کو تمام صورت ِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے ایک مکتوب بھیجا کہ حضرت امام حسینؓ واپس مدینہ جانے کے لئے تیار ہیں میرے لئے اب کیا حکم ہے میں انہیں جانے دوں یا روکے رکھوں۔7محرم الحرام کو ابن زیاد کا مکتوب آیا اس میں دوٹوک تحریر تھا شاید وہ یزیدپر اپنی وفاداری ثابت کرنا چاہ رہا تھا مکتوب پڑھ کر عمرو بن سعد تلخی سے مسکرایا ابن ِ زیاد نے واضح لکھا تھاکہ: ’’ اب میں کوئی شرط ماننے کو تیار نہیں امام حسینؒ کے سامنے صرف یہ ایک شرط رکھی جائے کہ وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلیں! جب وہ ایسا کر لیں تو پھر غور کیا جائے گا کہ اْن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
’’ میںآپ لوگوںسے کوئی نرمی نہیں برت سکتا عمرو بن سعد نے امام حسینؓ کو واضح کہاآپ ریاست کے باغی ہیںاگر آپ حاکم کی بیعت نہیں کریں گے تو مجھے یہ حکم دیاگیاہے کہ لشکرِ امام حسین کا پانی بند کر دیا جائے۔
’’میں کسی صورت یزید کی بیعت نہیں کروں گا امام عالی مقام نے بڑے عزم سے جواب دیا
’’ پھر نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے عمرو بن سعد نے یہ کہتے ہوئے تلوار کے دستے کو مضبوطی سے پکڑ لیا پھرکربلا کے مسافروںپرپانی بند کردیا گیا شہادت ِ حسین سے تین دن پہلے تک بچے،جوان، خواتین الغرض ہر فرد پیاس کی شدت سے نڈھال ہوگیا ہرکوئی تشنہ لب تھا جب پیاس سے حبق میں کانٹے چبھنے لگے
تو حضرت امام حسینؓ نے اپنے بھائی عباس بن علیؓ کو تیس گھڑ سواروں اور تیس پیادوں کے ساتھ پانی لانے کے لئے بھیجا، جب یہ لوگ پانی لینے کے لئے جا رہے تھے تو راستہ میں عمرو بن سعد کی فوج سے ان کی مڈبھیڑ ہوگئی لیکن اس کے باوجود پانی کی تقریباً بیس مشکیں بھر کر لے آئے ۔ امام حسینؓ نے عمرو بن سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ ’’ آج رات ہماری ملاقات ہونی چاہیے تا کہ ہم سب بالمشافہ ایک دوسرے کے سامنے اس نازک صورت ِ حال سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں۔‘‘ عمرو بن سعد نے آپ کا یہ پیغام قبول کرلیا ملاقات میں امام حسین ؓ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فضیلت بیان کی پھرعمرو بن سعد کے سامنے مندرجہ ذیل تین شرطیں رکھ دیں
اول: میں جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلا جاؤں۔
دوم: میں یزید سے خود اپنا معاملہ طے کرلوں۔
سوم: مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچا دو، وہ لوگ جس حال میں ہوں گے میں بھی اسی حال میں رہ لوں گا۔ عمرو بن سعد امام حسینؓ کی باتوں سے بہت متاثرہوا اور ابن زیاد کی طرف دوبارہ ایک خط روانہ کرکے لکھا تھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ بجھا دی اور مسلمانوں کا کلمہ پرمتفق کر دیا ہے ۔ مجھ سے امام حسینؓ نے ان تین باتوں کا اختیار مانگا ہے جن سے یقینا آپ کا مقصد پورا ہو جائے گا اور امت کی اسی میں صلاح و فلاح ہے میرا خیال ہے کہ ان میں سے کسی ایک تجویزکو مان لیا جائے یہ معقول بات ہوگی۔‘‘
ابن زیاد نے جب یہ خط پڑھا تو وہ بھی کافی متاثر ہوا لیکن شمر بن ذی الجوشن جو ابن زیاد کے پاس ہی ایک طرف بیٹھا ہوا تھا تلملاکررہ گیااسے یہ صورت ِ حا ل قبول نہ تھی نہ جانے اسے کیوں حضرت امام حسین ؓسے کوئی پرخاش یا عداوت تھی۔اس نے بڑی سنجیدگی سے کہاابن ِ زیاد ’’ کیا آپ امام حسینؓ کو مہلت دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ قوت حاصل کرکے دوبارہ ریاست کے مقابل آ کھڑے ہو ں؟وہ ایک بار یہاں سے نکل گیا تو ہم سب کے لئے خطرہ بن جائے گا یادرکھنا پھر حاکم تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
‘‘ ابن زیاد کے چہرے پرتفکرات کی لکیریں پھیلتی چلی گئیں وہ سوچنے لگا یقینا امام حسین ؓاسلامی دنیا کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں اگر وہ کسی طریقے مدینہ منورہ ،مکہ مکرمہ یا کوفہ میں جانے کیلئے کامیاب ہو گئے تو بہت سے صحابہ کرام ؓ ،تابعین اور دیگر لوگ ان کو مرکز و محور بنالیں گے یہ ہم سب کے لئے خطرہ ہے ۔
’’پھرکیا کیا جائے‘‘ ان ِ زیاد نے خوفزدہ ہوکر پوچھااس کی پیشانی پر پسینہ پانی بن کر بہنے لگا
’’انہیں کوئی رعائت دینا خود کشی کے مترادف ہوگا۔ شمربن ذی الجوشن نے فوراً کہاپہلا حکم ہی برقراررکھا جائے امام حسینؓ کو ہر صورت بیعت کیلئے آمادہ کیا جائے۔ابن ِ زیاد نے شمربن ذی الجوشن کی رائے کو قبول کرتے ہوئے سرہلایااور پھر عمرو بن سعد کو ایک خط لکھ کر اسے شمر کے ہاتھ روانہ کردیاجب وہ گھوڑے پرسوار ہونے لگا
تو اور اسے ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ اگر عمرو بن سعد میرے اس حکم کی فوراً تعمیل نہ کرے تو تو اسے قتل کر دینا اور اس کی جگہ لشکر کا امیر تو خود بن جاناموجودہ صورت ِ حال میں مجھے یہی بہترمعلوم ہوتاہے۔شمربن ذی الجوشن کے مکروہ چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی وہ کامیاب ہوگیا تھا۔
شمربن ذی الجوشن جب ابن زیاد کا مکتوب لے عمرو بن سعد کے پاس پہنچا تو اس کے تیور ہی الگ تھے عمرو بن سعدسمجھ گیا کہ میرا مشورہ ردّ کر دیا گیا ہے اسی لئے اب حالات خراب ہو جائیں گے۔ مکتوب پڑھ کر عمرو بن سعدنے شمربن ذی الجوشن سے کہا کہ ’’تو نے بڑا ظلم کیا جب مسلمانوں کا اتفاق ہو رہا تھا اور تو نے اس کو ختم کرڈالا اب قتل و قتال کا بازار گرم ہونایقینی ہے ۔‘‘
حضرت امام حسینؒ کو ابن ِ زیاد کا پیام پہنچایا گیا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر تے ہوئے کہا میرا پہلے ہی دن سے ایک ہی اعلان ہے کہ میں کسی صورت یزیدکی اطاعت نہیں کروں گا میں اس کی بیعت کیسے کرلوں جو فاسق اور فاجرہے۔
اتنے میںشمربن ذی الجوشن کے لشکر سامنے آکر تلواریں لہراناشروع کریں بہت سے سپاہیوںنے گھوڑوںپر سوارہوکر تیرکمان تان لئے ۔آپ کے بھائی حضرت عباسؒآگے بڑھے اور اپنے مدمقابل حریف کو سمجھایا کہ تم خانوادہ ٔ رسول سے جنگ کروں گے جس کے قافلے میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔۔تم اس کے مقابل ہو جسے آخری نبی ﷺ نے جنت کے نوجوانوںکا سردار قرار دیا تھا۔
شمربن ذی الجوشن نے غصے سے کہا اطاعت کرو ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائو اس کا لہجہ انتہائی کاٹ دار تھا جیسے یہ فیصلہ حتمی اور آخری ہو ۔ حضرت عباسؓ نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ دوسری جانب چلاگیا اور جاتے جاتے زور سے بولا اب جنگ ہوگی اس کے ساتھ گھوڑ سوار بھی جنگ۔۔ جنگ کا راگ الاپنے لگے ۔ (جاری ہے)