جان ہے تو جہاں ہے
دھوپ چھا ؤں
الیاس محمد حسین
دیکھنے میں تو وہ اچھا خاصا مہذب شخص دکھائی دے رہا تھا وہ چلتے چلتے ایک دکان پررکا کوئی چیز خریدی واپسی کیلئے مڑا اچانک بوکھلاکرپھر دکان کی طرف بھاگا دکاندار نے اسے یوں آتے دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے پوچھا خیریت ہے ۔۔ آپ کی یکایک یہ حالت کیونکر ہوگئی اس نے کچھ دور آتے ہوئے ایک آوارہ کتے کی طرف اشارہ کیا اور مرے مرے لہجے میں بولا مجھے اس سے ڈر لگتاہے۔
دکاندار نے اسے دلاسہ دیا پانی پلایا پھر کہا جناب خاطر جمع رکھیں ہرکتا پاگل کتا نہیں ہوتا
وہ بولا اب کیا پہ کون سا کتا پاگل ہے مجھے تو ہر کتے سے ڈر لگتاہے پتہ نہیں میے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے میں ہرکتے سے خوفزدہ ہوجاتاہوں!اب تو شہرکیا گائوں کیا ہر جگہ آوارہ کتوں نے لوگوںکی زندگی تلخ کرکے رکھ دی ہے وہ بڑبڑایا اور حکومتوںکو اس کی کوئی فکرنہیں کہ عوام پر کیا گذرتی ہے کسی کے کسی پیارے کو کتا کاٹ لے تو اس کے پورے خاندان پر کیا بیت جاتی ہے اس کا کسی کو کوئی ادراک نہیں۔
دکاندار نے اثبات میں سرہلایا پاگل کتے کا ٹنا بڑی اذیت ناک موت ہے لیکن لوگوںکو اوویئرنس وتو زندگی بچ سکتی ہے پچھلے دنوںکاواقعہ ہے کتے کے کاٹنے سے۔ جوڑا کلاں تحصیل نور پور تھل ضلع خوشاب میں 16 لوگوں کی جان پر بن چکی ہےایک لمحے کی غفلت… ایک زندگی کی قیمت!
اکثردیکھنے میں آیا ہے کہ کئی دیہاتوں اور شہروں میں ایک پاگل کتا اچانک کہیں سے نمودار ہوتا ہے، غراتاہوالوگوں پر جھپٹتا ہے اس کے منہ سے چھاگ نکلتی ہے وہ آئو دیکھا نہ تائو جو سامنے آجائے اس کو نوچتا ہے
بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان میں زیادہ قوت ِ مدافعت ہوتی ہے نہ وہ تیزی سے بھاگ کر جان بچاسکتے ہیں اور چند لمحوں میں ایک مکمل گھرانے کو عمر بھر کے صدمے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹروںکا کہناہے کہ ریبیز ایک ایسا جان لیوا وائرس ہے جو کسی بھی جانور، خاص طور پر کتے کے کاٹے سے انسان کے جسم میں داخل ہو کر آہستہ آہستہ دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔ اور پھر متاثرہ کی زندگی اندھیر ہو جاتی ہے یہ سچ ہے کہ ایک بار ریبیز علامات آ جائیں تو پھر کوئی دوا کام نہیں کرتی۔ریبیز کے ہولناک مراحل ہیں پہلے صرف زخم ہوتا ہے، کچھ دن خاموشی… وائرس دماغ کی طرف سفر کر رہا ہوتا ہے
پھر بخار، بے چینی، نیند اْڑ جاتی ہے… پانی دیکھ کر خوف آتا ہے، آوازوں سے وحشت ہونے لگتی، ہے… جسم میں اکڑاو، پٹھوں کا کھچاو ، سر درد ، کھانا نگلنے میں مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے اور آخر میں… دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، کومہ اور موت ہی متاثرہ شخص کی جان لے کر چھوڑتی ہے! پاگل کتے کے کاٹنے سے جو مرض لاحق ہوتاہے اسے ہائیڈروفوبیا کہتے ہیں اس مرض میں مریض کو پانی سے بے انتہا خوف محسوس ہوتاہے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ریبیز کی علامات ایک بار ظاہر ہو گئیں تو 100% موت یقینی ہے ایک مصدقہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ ہزاروں لوگ اس بیماری سے مرتے ہیں
… اور ان میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے! اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کسی کو اگر کتا کاٹ لے تو فوراً کیا کیاجائے؟ اس کا ایک سیدھا سادہ حل تو یہ ہے کہ متاثرہ شخص کے زخم کو فوراً 15 منٹ تک صابن اور پانی سے دھوئیں وقت ضاع کئے بغیر ڈاکٹریا قریبی مرکزِ صحت پر جا کر فوری اینٹی ربیز ویکسین (ARV) لگوائیں اور اس کا کورس پورا کریں یادرکھیں اگر زخم گہرا ہو، تو ربیز امیونوگلوبیولن (RIG) بھی ضروری ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ کسی عامل، حکیم یا دیسی ٹوٹکوں پر وقت ضائع نہ کریں!
ایک اوربات ذہن نشین کرلیں کہ ریبیز صرف کتے سے نہیں، بلکہ پاگل بلی، بندر، گیدڑ، یا کسی بھی پاگل جانور کے کاٹنے سے بھی ہو سکتا ہے۔ یہ وائرس تھوک سے منتقل ہوتا ہے۔ صرف زبان مار دینا بھی خطرناک ہو سکتا ہے اگر جسم میں تیڑ ہے یا جسم پر پہلے سے خراشیں ہیں یا جانور نے پنجہ مار کر جسم پر خراش ڈالی ہوں، دانت سے کاٹاہویاپھرجانور نے چاٹ لیا ہو اسے ایک خوفناک سچائی یا سنسنی خیز حقیقت بھی کہاجاسکتاہے کہ کتے کے کاٹنے کے 1 مہینے بعد بھی علامات آ سکتی ہیں،
اور کئی بار 6 ماہ بعد بھی علامات عود آتی ہیں اس لئے متاثرہ مریض سے بچوں کو دور رکھیں بلکہ گھر کے ہر فردکیلئے احتیاط لازم ہے کیونکہ ہائیڈروفوبیا مرض ہی ایساہے اپنے بچوں کو تلقین کریں کہ وہ آوارہ کتوں سے دور رہیں گلی محلوں کے کتوں کو بلانے یا چھیڑنے سے باز رکھیں اس کے ساتھ ساتھ کتے پالنے والوں سے گزارش ہے: اپنے جانوروں کو ویکسین ضرور لگوائیں! جان بچانے والی معلومات کو عام کرنا بھی صدقہ ہے
اس سے کسی کی زندگی بچ جائے… کتوں سے بچیں، اپنے آپ کو اور انپے پیاروں کو ریبیز سے بچائیں! محکمہ صحت، میونسپلٹی اور بلدیاتی اداروںکے چیئرمین، وائس چیئرمین و کونسلرزکو چاہیے کہ وہ انپے اپنے علاقوںمیں آوارہ کتے تلف کرنے کیلئے اقدامات کرتے رہیں آخر جان ہے تو جہان ہے!