یکم المحرم الحرام ہم مسلمانوں کے لئے اسلامی سال نؤ شروعات کا دن
ڈاکٹرنقاش نائطی
۔ +966562677707
آج یکم محرم الحرام 1447 بروز منگل بمطابق27 جون 2025 ، اسلامی ھجری سال کی شروعات، عالم کے ہر مومن مسلمان کے لئے مبارک ہو۔ ویسے عیسوی شمشی سال ہو یا اسلامی قمری ھجری سال ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوں سال اللہ رب العزت ہی کی دو مخلوق چاند اور سورج کی نقل و حرکت سے شروع کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے آقاء نامدار سرور کونین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قمری ھجری سال کو اپنی امت کے لئے پسند کیا ہے اور رمضان و حج کی تاریخ اسی قمری سال کے حساب سے شمار کئے جانے کی،امت کو ہدایت کی ہے اس لئے ہم تمام مومن مسلمان کا فرض منصبی بنتا ہے
کہ ہم اس قمری ھجری سال ہی کو اپنے لئے خیر و فلاح کا سبب تصور کریں اور مبارکباد دینی بھی ہو تو ھجری اسلامی تقویم کی شروعات کے حساب سے ہی سے ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔ ہندستان کی ایک بہت بڑی تاجر قوم گجراتی سندھی دیپاولی والے دن کواپنے سال نؤ کے طور مناتے ہیں تو کیرالہ کرناٹک والے لوگ پونگل تہوار والے دن کو سأل نؤ کےطور مناتے پائے جاتے ہیں۔عالم انسانیت کی بہت بڑی اکثریت عیسائی اور ان کی مغلوبیت میں رہنے والی عام انسانیت کی ایک بڑی تعداد اعلی تعلیم یافتہ انسانیت مسیحی سال نؤ کیلنڈر کی شب کو بڑے ہی دھوم دھام سے شب سال نؤکے طور مناتے پائے جاتے ہیں۔
عالم انسانیت کی دوسری سب سے بڑی قوم ہم 2،000 ملین مسلمانوں کی اکثریت اپنے اسلام کیلنڈر تاریخ سے بے بہرہ جئے جارہے رہیں۔ آج سے چھیالیس سال قبل پندرھویں صد اسلام کیلنڈر کے شروعاتی دنوں، پورے ھندستان میں ،علماء کرام نے، مسلم علاقوں والے گاؤں گاؤں بستی بستی گھوم گھوم کر،اسلام کیلنڈر تاریخ کو عام مسلمین میں رائج کرنے کی کوشش کیں تھیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلے۔عام مسلمین تو کجا والیاں مسلمین کی اکثریت بھی اسلامی کیلنڈر تاریخ سے نابلد نظر آتی ہے۔ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہبی کیلنڈر کو اہمیت دیتے ہیں لیکن ہم عام مسلمانوں کو چھوڑ بڑے بڑے دیندار لوگوں کو بھی سال کے کسی درمیانے دن، اسلامی کیلنڈر تاریخ پوچھی جائے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں
یہ اس لئے ہے کہ پہلے خلافت راشدہ کے نام سے تو آخری کچھ سو سال خلافت عثمانیہ کے نام سے،بارہ سو لمبے عرصے تک اسلامی حکومت و اسلامی تقویم و کیلنڈر پر عمل پیرائی، کفار ہنود و یہود و نصاری پر بڑی بھاری پڑی تھی، اس لئے جس منظم سازش کے تحت اپنوں کی وفاداریاں خریدتے ہوئے، خلافت عثمانیہ کو زوال پزیر کیا گیا تھا، اسی تیزی اور سختی کے ساتھ ہم مسلمانوں سے،اپنے دینی اقدار ، اسلامی تاریخ، اپنے اسلامی کلیدی جذبہ جہاد، ایک منظم سازش کے ساتھ چھین لیا گیا ہے
ذرا ٹہرئیے ابھی وہ ساقط لمحہ، جس لمحہ سقوط خلافت عثمانیہ ہوا تھا اور اسی جذبہ خلافت عثمانیہ کو یہود و نصاری، سو سالہ سازش میں جکڑتے ہوئے، اسے صدا کے لئے دفن کرنے کی کوشش کی گئی تھی ،وہ ساقط لمحہ اپنے اطراف جکڑے سو سالہ عقد لوزین کو ٹوٹتے دیکھنے کے لئے، بے چین، ایک دو سالوں کی مختصر مدت، نہ صرف جھیل رہا ہے،بلکہ پل پل گزرتے لمحوں کو گنتے ہوئے، آپنی آزادی کے لمحات شروع ہوتے دیکھنے، بے چین و سراسیمہ سا لگتا ہے
H
کیا عالم انسانیت نے نہیں دیکھا کہ، عالم یہود وہنود و نصاری سازشوں کے باوجود، سابقہ دو دہے سے، مملکت ترکیہ کس قدر تلملاتے، کسمساتے ہوئے بھی، اپنے آپ کو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے آزاد کراتے ہوئے، دفاعی اعتبار سے خود کو خود کفیل بناتے ہوئے، ناٹو کی عالمی دفاعی اشتراکیت کے شکنجے سے خود کوآزاد کرانے کی جدوجہد کرتے ہوئے، کتنی بے چینی سے آپنے خلافت عثمانیہ کے خواب کو ایک مرتبہ پھر روئے ارض پرجاری وساری کرنے، بے چین نظر آریا ہے؟ کیا ہم نے صدر ترکیہ کو برما کے روہنگیانی مہاجرین کے ساتھ کھڑا ہوتے، انکے درد دکھ کو بانٹتے نہیں دیکھا ہے؟
جب عالمی یہود ونصاری طاقتیں، جمہوریت کے جھنڈے تلے امداد کے نام پر، اپنے پیٹرو ڈالردولت کے بل پر ترقی پزیر عرب ممالک کو، روند رہا تھا اور انہیں تباہ و برباد کررہا تھا تو لاکھوں کی تعداد میں بلکہ یوں کہیں عالم کے اور ملکوں میں سے سب سے زیادہ سوری مہاجرین کو اپنے ملک ترکیہ میں،نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ انہیں، ہر اقسام کی اعلی سہولیات تعلیم وغیرہ دیتے ہوئے، انکے ایک بڑے بھائی کی ذمہ داری نبھانے کی کوشش ترکیہ نے کیا نہ کی تھی؟ مانا ملکی پروٹوکول کے تحت اسے ایسے بہت سے اعمال بھی اپنی مرضی کے خلاف کرنے پڑتے ہیں جن سے، اس کے دوست نما دشمن کو، اسے عالم اسلام کے درمیان بدنام و رسوا کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور وہ اس کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے سائبر میڈیا پر ترکیہ کے خلاف مواد نشر کرتے رہتے ہیں اور ہم سیدھے سادھے مسلمان جانے انجانے میں اسے ترسیل در ترسیل کئے، عالم میں ترکیہ کی بدنامی کا سامان ہم مہیا کرتے رہتے ہیں
جب سو سال تک ہم نے ان یہود و ہنود ونصاری کے ہاتھوں جانے انجانے میں ان کا آلہ کار بن رسوائی کے دن گزارے ہیں ایک دوسال بعد شاندار خلافت عثمانیہ کے ازسر نؤ طلوع ہوتے سورج کو دیکھنےکا خواب آنکھوں میں سجائے، جینے میں کیا حرج یے؟ کیا ہم نے کل تک کے اونٹوں کے گلے بان ان عربوں کواللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردہ پیٹرو ڈالر کے من سلوی سے مالا مال، معشیتی طور عالم کی رہنمائی کے قابل بننے کے باوجود، یہود و نصاری کے زیر نگیں، بے بس زندگی گزارتے نہیں دیکھا ہےاور اگر بالفرض محال ترک حکمران اپنے دکھائے اور درشائے خواب، خلافت عثمانیہ کو پورا کرتے ہچکچاتے بھی پائے جائیں گے
تو کیا ہوا وہ رب حکیم و کریم و غفار و قہار ذات جو ابابیل جیسی ننھی مخلوق سے،ابرھہہ کے ہاتھیوں والے لشکر عظیم کو تباہ کر، اپنے گھر حرم کو بچانے کی قدرت عالم انسانیت کو دکھا سکتا ہے، وہ دو ڈھائی سو کروڑ عالم کے ہم مسلمانوں کی ریبری و رہنمائی کے لئے اردغان نہ صحیح کسی صلاح الدین ایوبی کو، یا کسی نورالدین زندگی ہی کو یا علی خامنائی کی صورت کیا سامنے لاکھڑا نہیں کرسکتا ہے؟ کیا سابقہ چالیس سالوں سے یہود و نصاری عالمی حربی طاقتوں کے، امن عامہ کے نام قائم کئے اقوام متحدہ کی طرف سے معشیتی پابندیوں کو جھیل رہے ایرانی شیعی حکمرانوں کے،اپنے محدود وسائل کے ساتھ، عالمی حربی قوت امریکہ اسرائیل کو شکست فاش دیتے دنیا نے نہیں دیکھا ہے؟
شیعی قوم کو جب تک جمہور علماء حق، احمدی قادیانی فرقہ کی طرح خارج الاسلام نہیں مانتے اس وقت تک شیعی مسلمان بھی امت مسلمہ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ پہلے مختلف فرقوں میں بٹے ہم مسلمان عالم یہود و نصاری سازش شیعہ سنی اختلاف کو پروان چڑھاتے پائے جائیں تو یقینا” ہم مسلمان ہی اس کا خمیازہ یا نقصان اٹھاتے پائے جائیں گے۔ یہود و نصاری آپسی مذہبی دشمنی باوجود کس طرح اپنے مذہبی و تاریخی اختلافات بھولے، مسلم امہ کے خاتمہ کے لئے شیر و شکر بنے عالمی حرب لڑ رہے ہیں
انشاءاللہ ہم دو ڈھائی سو کروڑ عالم کے مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ کریں، صرف اسی کی پرستش و بندگی کریں اس کی ذات میں کسی مرحوم ولی بزرگ کو شریک نہ کریں اور اسی سے ان یہود وہنود و نصاری سازش کنندگان سے راہ نجات مانگتے رہا کریں یقینا اس رب کے دربار میں دیر ہے
پر اندھیر نہیں۔ انشاءالله اسکی جوار رحمت جب جوش میں آئیگی تو یقینا وہ دن ہم مسلمانوں کا، یہود و ہنود ونصاری کے سازشی چنگل سے آزاد ہونے کا دن ہوگا اور اس دن کے بعد عالم کے ہم مسلمان اس نصاری کے کیلنڈر کے بجائے پورے عالم میں اسلامی کیلنڈر کو از سرنؤ عمل میں لائے جاتے پائیں۔ انشاءاللہ
عالمی سطح مسلمانان عالم کی ذہن سازی کے لئے ہم مسلمانون کے پاس اور اقوام کے مقابلے ہفتہ میں ایک، مہینے کے چار اور سال کے 52 خطبہ جمعہ کے مواقع ہیں اور ہم مسلم امہ اس عظیم موقع کا فائیدہ اٹھاتے، ان سال 52 مہینے کے چار اور ہر ہفتہ کے ایک خطبہ کے ذریعہ تقریبا” نوے پچانوے فیصد مسلم عوام تک کوئی بھی اسلامی پیغام انکی اپنی زبان میں پہنچاتے ہوئے انکی ذہن سازی بآسانی کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم مقلد جامد مسلمان اپنے باپ دادا کے دین اسلام پر چلتے ہوئے، نوے فیصد سے زیادہ مسلم امہ کے نہ جاننے والی زبان عربی ہی میں جمعہ کا خطبہ دئیے اس عظیم موقعہ آگہی مسلم امہ کا فائیدہ نہ اٹھائے جئے جارہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں مشہور مقلد حنفی عالم المحترم مفتی طارق مسعود صاحب مدظلہ کا اعتراف کہ انکے حنفی امام اعظم ابو حنیفہ دراصل اہل حدیٹ طریقت پر عمل پیرا تھے اور اللہ کے رسول ﷺ کے قریب تر زمانے والے امام اعظم اہل حدیث مکتبہ فکر کے ماننے والے تھے تو اہل حدیث تفکر والے علماء کرام جس طرح سے اپنی جامع مساجد خطبہ جمعہ میں، عین سنت طریق شروع وآخر میں عربی زبان خطبہ دیتے ہوئے، درمیان میں مقامی اردو یا ریاستی یا ملکی زبان میں اپنے خطبہ جمعہ میں، اپنے علاقے کے مسلم امہ کی اچھی طرح ذہن سازی آگہی کرتے پائے جاتے ہیں
کاش کے عالم کی تمام مسلم امہ بھی اہلحدیثوں کی طرح اپنی اپنی جمعہ مساجد خطبات کے ذریعہ انکو آسانی سے سمجھ میں آنے والی مقامی زبان کے ذریعہ مسلم امہ کی ذہن سازی آگہی کررہے ہوتے۔عالم اسلام کی اکثر و بیشتر مساجد میں مقلد علماء کرام عام مسلمین کی نہ سمجھی جانے والی عربی زبان ہی میں خطبہ دیتے ہوئے، ایک حد تک مسلم امہ کے پاس موجود آگہی کے۔اس حسین موقعہ کا فائیدہ اتھانے سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ابھی کچھ سالوں سے کچھ مسلم اکثریتی علاقوں میں نماز جمعہ کے بعد مقامی زبان تقریر سے ایک حد تک اسلامی پیغام رسانی مسلم امہ کی ذہن سازی کی کوشش کی جاتی ہے
۔لیکن اس نماز جمعہ سلام پھیرتے ہی مسجدوں سے نکل جانے والی مسلم اکثریت پربھی نماز جمعہ مقامی زبان تقاریر آگہی پیغام سے ماورا ہی رہ جاتی ہے۔اور سب سے اہم نماز جمعہ سے قبل تقریبا” تمام جمعہ مساجد میں آنے والے لاکھوں کروڑوں مسلمان جس دلجمعی کے ساتھ مقامی زبان دئیے گئے خطبہ کو سن اور سمجھ پاتے اور ایک حد تک عمل پیرا بھی ہوتے پائے وہ نہ سمجھی جانے والے عربی خطبہ سے آگہی مشن سے بے بہرہ ہی رہ جاتے ہیں۔یہ ہمارامشاہدہ ہے کہ اہل حدیث یا اہل سلف کی مساجد میں دوران خطبہ جمعہ دئیے جانے والے عربی متن خطبہ کے درمیاں مقامی زبان دئیے جانے خطبہ کو حاضرین جمعہ نماز جس دلجمعی کے ساتھ سنتے اور عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ان کے مقابلے مقلدین جامع مساجد دئیے جانے والے عربی خطبات کو نہ سمجھ پاتے بے بہرہ ہی رہ جاتے ہیں۔ * وما علینا الا البلاغ