قوم کی بیٹی
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کا جرم کیا تھا؟ انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ اور 50سے زائد مسلم حکمرانوں نے ان کی رہائی کے لئے کیا کیاہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا کوئی جواب نہیں یا کوئی جواب دینا ہی نہیں اہتا اس صورت ِ حال کو اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جاسکتاہے ماضی میں سابقہ وزیر ِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ عافیہ صدیقی کے بدلے جاسوس شکیل آفریدی کوامریکہ کے حوالے کیا جاسکتاہے پھرانہوں نے بھی کچھ نہیں کیا جنت مکانی علامہ خادم حسین رضوی نے ان کی رہائی کے لئے موثرٔ آواز اٹھائی تھی ان کا کہناہے کہ جیل میں امریکی انہیں روزانہ طعنے دیتے ہیں کہ تمہیں رہائی دلانے محمدؒبن قاسم ابھی تک کیوں نہیں آیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہے اور امریکہ نے اسے 86سال قید کی سزا کیوں سنائی ہے یہ سب کچھ جاننے کیلئے ہمیں ماضی کو کھنگالناہوگا
ڈاکٹر عافیہ صد یقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی معروف سائنس دان ہیں جسے امریکی حکومت نے 2003ء میں اغوا کر کے غیر قانونی طور پر قید کیا ہوا ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ، 1972ء کو کراچی میں پیدا ہوئی۔ 8 سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد بوسٹن ٹیکساس میں جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT) چلی آئیں اور اس ادارہ سے وراثیات میں علمائی (.Ph.D) کی سند حاصل کی۔ 2002ء میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے ملازمت کی تلاش میں امریکہ چلی گئیں اس دوران انہوں نے میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لئے پوسٹ بکس نمبر کرائے پر لیا ایک سال بعد وہ کراچی واپس آ گئیں۔ FBI نے شک ظاہر کیا
کہ یہ پوسٹ بکس نمبر دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کیلئے کرائے پر لیا گیا تھا جس پر امریکی میڈیامیں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ یہ دیکھ کر عافیہ ڈرکے مارے کراچی میں روپوش ہو گئی۔ وہ 30 مارچ، 2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لئے ٹیکسی میں ائرپورٹ کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے سے غائب ہو گیں بعدمیں خبریں آئیں کہ ان کو امریکن نے اغوا کر لیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور بڑے بچہ کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ تھی۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں۔ عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی
۔ پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی، 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین قرار دیدیا۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر 3 (یعنی مرنے کے قریب) بتایا۔ تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی
جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں۔ اس اثناء میں اسلام آباد کی ایک عدالت میں ان کے لواحقین نے ایک درخواست میں الزام لگایا کہ پرویز مشرف دور میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا اگست 2009ء میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ حکومت 2 ملین ڈالر تین امریکی وکیلوں کو دے گی جو عافیہ صدیقی کے لیے “امریکی عدالت” میں پیشی کرینگے۔خیال رہے کہ لاہور کی عدالت اعلیٰ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ خدشہ تھا کہ رقم خْرد برد کر لی جائے گی۔
عدالت میں درخواست گزار نے کہا تھا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں، اس لیے یہ پیسے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کر کے خرچ کیے جائیں دسمبر 2009ء میں بالآخر کراچی پولیس نے عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں کے 2003ء میں اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا۔ ستمبر 2010ء میں پاکستانی حکومت نے دعوی کیا کہ اس نے امریکی حکام سے عافیہ صدیقی کو باعزت وطن واپس بھیجنے کا مطالبہ بذریعہ خط کیا ہے۔ 23 ستمبر، 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا
حالات وواقعات کے تناظر میں یہی کہا جاسکتاہے کہ برس ہابرس سے امریکی قید میں صعوبتیں برداشت کرنے والی عافیہ صدیقی کا واحد جرم ان کا مسلمان ہوناہے وہ ایک بے حس مسلم معاشرے کی فردہیں جہاں کے لوگوںکی ڈراموں اور فلمیں میں ظلم دیکھ کر آنکھیں بھر آتی ہیں لیکن حقیقی مظلوم کرداروںپر ذرا ترس نہیں آتا۔