مذاکرات آگے بڑھانے کا عندیہ ! 21

قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات !

قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات !

پا کستانی امن پسند قوم ہیں، لیکن اگرانہیں بار بار چھیڑا جاتا رہے گا تو ایسا جواب دیں گے کہ جسے بھارت شاید برداشت نہیں کر پائے گا، یہ سب کچھ ردعمل میں کیا جائے گا،جو کہ بھارت کیلئے ٹھیک ہو گا نہ ہی اس خطے کے مفاد میں بہتر ہو گا،پا کستان کی امن کی خواہش بزدلی نہیں،دلیری ہے،یہ بات بھارت کو سمجھنی چاہئے،لیکن اس نے نہیں سمجھی اور اپنا بے انتہا نقصان کرواکے ہی جنگ بندی پر آیا ہے، امریکی وزیرخارجہ کا کہنا ہے

کہ پاکستان اوربھارت جنگ بندی کے بعد وسیع تر مسائل پر کسی غیرجانبدار مقام پر مذاکرات کریں گے،کیا پاک بھارت مذاکرات ہو پائیں گے اورکیا ان مذاکرات کے نتیجے میں تمام درینہ مسائل بھی حل ہو پائیں گے؟
یہ بڑے ہی اہم سوالات ہیں اور ان کے جوابات تلاش کر نے کیلئے تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھنا ہو گا ، پاک بھارت کشید گی کی تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک کے در میان مسائل پیدا کرنے کی مین وجہ ان میں تفریق رکھنا ہے ، اگر ان میں تفریق ختم ہو جائے گی تو یہ دونوں ہی مل کر نہ صرف ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے ، بلکہ ترقیافتہ ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہو جائیں گے ،ا س لیے دونوں ہی ممالک کے در میان کشید گی ختم کر نے کے بجائے بڑھائی جاتی ہے ، گزشتہ چاروز سے ہو نے والی جنگی چھرپیں بھی کسی کے اکسانے پر ہوئی ہیں اور اس کے کہنے پر ہی بند ہورہی ہیں

، اس میں کس کا مفاد پورا ہوا ہے اور کس کے مفاد کو زک پہنچی ہے ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ، لیکن اس جنگ میں زیادہ نقصان پاک بھارت کا ہی ہوا ہے، اس کاادراک دونوں ممالک کو ہو نا چاہئے اور اس کا حل ایک میز پر بیٹھ کر نکا لنا چاہئے ، اگر اس کا کوئی ایک بار مل کر حل نہیں نکالاجائے گا تو اس کے باعث مزید نقصان اُٹھایا جاتا رہے گا،کیو نکہ جنگ سے مسائل بڑھتے ہیں ، کبھی کم نہیں ہوتے ہیں۔
اس وقت پاک بھارت تعمیری مذاکرات جتنے اشد ضروری ہیں ، اتنے ہی حکو مت اور اپوزیشن میں معاملات حل ہو نا بھی ضروری ہیں ، اس پرحکومت اور پوری قوم کو فخر ہونا چاہیے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنانے کیلئے مسلح افواج کا ساتھ دیاہے،ساری ہی سیاسی پارٹیوں نے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنا فریضہ ادا کر دیا ‘ جو کہ اُن پر لازم تھااور بھارت کو شکست فاش دے دی ، اب حکومت کی باری ہے کہ ملک میں دو ڈھائی برسوں سے جاری سیاسی کشیدگی کم کرنے اور بے یقینی کی فضا ختم کرنے کیلئے کوئی مثبت اور تعمیری اقدامات کرے

،اس حوالے سے جیل میں بند سیاسی قیادت اور کارکنوں کی رہائی کو اولین ترجیح ہو نی چاہیے ،اس سمت کسی پیش رفت کے بجائے خاموشی کامطلب سیاسی عدم استحکام کو ہی فروغ دینا ہو گا ، جو کہ حکو مت کے مفاد میں ہے نہ ہی ملکی مفاد میں بہتر ہے۔
یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام میں حکو مت کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا ،کیو نکہ وہ ایک پیج کے ہی بدولت چل رہی ہے ، لیکن اس سے بیرونی دنیا میں ایک غلط پیغام ضرور جاتا رہے گا کہ یہ حکو مت عوام کی حمایت سے آئی ہے نہ ہی اس کے پیچھے عوام کی حمایت ہے ، بلکہ اس کے پیچھے غیر سیاسی قو تیں ہی کار فر مارہی ہیں ،اس پر اتحادی حکو مت کو غور خوض کر نے کی ضرورت ہے

اوروزیر اعظم کو آل پارٹی کا نفرنس بلا نے کی ضرورت ہے ،اس میں ساری ہی سیاسی قیادت کو شامل کر نا چاہئے اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ ہم جنگ و امن میں ایک پیج پر ہیں ، اس سے ملک میں موجود خطرناک سیاسی تقسیم کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے اور آگے بڑھنے کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی مر تب کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بھارت کی طرف سے جنگی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کیلئے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے حکومت اور مسلح افواج سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اندرونی سیاسی محاذ پر جو تضادات ہیں اور ایسے مسائل جو فوری طور پر حل طلب ہیں‘ خود بخود غائب ہو جائیں گے ، اس کیلئے مل کر بیٹھنا ہو گا اور کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کر نا ہو گا، اگر ان مسائل کے حل میں مذید تاخیرکی جاتی رہی تو یہ بیرونی خطرے کے خلاف قومی اتحاد کو کمزورکر سکتی ہے

،اس کیلئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانی پڑے تو اس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،بلکہ اس اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کیا جانا چاہئے، اس ڈائیلاگ کے نتیجے میں آئندہ کیلئے ایک مشترکہ روڈ میپ پر اتفاق قوم کیلئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہو گی، اس سے نہ صرف ملک میں سیاسی غیریقینی ختم ہوگی، بلکہ اندرون ملک دہشت گردی کی سرگرمیوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی، اگر بیرون جنگ کے بعد اندرونی سیاسی جنگ ویسے ہی جاری رہی تو ملک میں قیام امن لا پائیں گے نہ ہی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں