پونجی پتی واد مودی جی عالم کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت کو کس تباہی کی طرف لے جارہے ہیں؟
نقاش نائطی
۔ +966562677707
ھند و پاکستان آپریشن سندھور بعد بی بی سی کا تجزیاتی رپورٹ
کشمیر میں 1990 میں شورش کے آغاز کے بعد مسلح عسکریت پسندوں نے فوجی، نیم فوجی اور دیگر سکیورٹی اہداف پر تو درجنوں حملے کیے ہی ہیں۔اور اس دورانیے میں شدت پسندوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کیے جانے کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ 22 اپریل پہلگام کشمیری سیاحوں پر ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ میں، مذہب پوچھ پوچھ کر بے قصور ھندو سیاحوں کو جس بے دردی سے مارا گیا ہے اس سے یہ عام سی دہشت گردانہ کاروائی کم، مختلف الجہتی منصوبہ بند، مقامی کشمیریوں کو انکے روزگار سے محروم کرتی کراتی، سازشانہ کاروائی نظر آتی ہے۔ 35 سالہ کشمیری حریت پسندانہ کاروائی کو بغور دیکھا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے
تو حریت پسند، ہمیشہ سے کشمیری عوام کے اعتماد کو بحال رکھتے ہوئے، کوئی بھی کاروائی کرتے آئے ہیں۔ کشمیر میں موجود بھارتیہ 7لاکھ ریگیولر افواج اور پیراملٹری نیز بارڈر سیکیورٹی افواج سمیت 12 سے 13 لاکھ افواج ھند کی موجودگی میں، کشمیری عوام، جو صدا نالاں و برگزشتہ بھارتیہ افواج کے ظلم و ستم کو سہتی پائی جاتی رہتی ہے حریت پسندوں کے ان بھارتیہ افواج پر حملے اور انہیں زک پہنچاتے پس منظر میں، کشمیریوں کو ذہنی خوشی و فرحت پہنچاتے، دراصل حریت پسند ایک اعتبار، عام کشمیریوں کا دل جیت رہے ہوتے تھے۔
یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ حریت پسند دہشت گردی کے نام سے کشمیریوں کے روزگار کشمیری سیاحوں کو زک پنچاتے, انہیں انکے روزگار سے محروم کریں اور عام کشمیریوں کی داد تحسین بھی حاصل کرتے رہیں ان ناممکنات کاعام کشمیریوں کو بھی بخوبی احساس ہے ۔ مسلح شورش کے آغاز کے بعد عسکریت پسندوں کی جانب سے سینکڑوں کشمیری شہریوں کو ’حکومتی مخبر‘ ہونے کے الزام میں ہلاک کیا جاچکا ہے اور بعد کی دہائیوں میں بھی, حکومتی افواج مخبری کے شبہ میں، کشمیری ہندو (پنڈتوں) کی بستیوں پر حملے بھی کئے گئے اور وہاں عام شہریوں کو ہلاک کیا گیاہے
پہلگام حملے پر بی بی سی اُردو کی خصوصی لائیو کوریج میں بتائی گئی خبر کے مطابق سن 2017 میں امرناتھ غار کی یاترا کرنے والے ہندو یاتریوں پر فائرنگ بھی کی گئی تھی جس میں سات یاتری ہلاک ہوئے تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ سرینگر سے 120 کلومیٹر کی دوری پر واقع ’پہلگام‘ گاؤں کی بائی سرن وادی میں مسلح عسکریت پسندوں نے، سیاحوں پر فائرنگ کی جس میں 25 سیاح اور ایک کشمیری مسلمان سیاح مددگار، سیاحوں کو دہشت گردوں کے حملے سے بچاتے ہوئے ہلاک ہوا ۔اس سے پرے اگر حریت پسندوں کی اراء مطابق انہوں نے، مخبروں کے علاوہ عام ھندؤں پر کبھی حملے نہیں کئے ہیں۔
بالکہ 2014 بعد بھارت پر قائم ھندو شدت پسندانہ آر ایس ایس، بی جی پی حکومت نے ہی، عالم انسانیت کے مابین حریت پسندوں کو بدنام و رسوا کرتے ہوئے، اور ان پر ظلم و ستم کی اپنی جارحیت روا رکھنے کے لئے، خود ساختہ یا کرائے کے فرضی دہشت گردوں کو استعمال کر، ھندؤں کو نشانہ عبرت بناتے ہوئے، اسکا تمام تر الزام بھی کشمیری حریت پسندوں پر ڈالا ہے۔کسی بھی انجانے سرزد ہوئے بڑے دہشت گردانہ حملے بعد، تفتیشی افیسران انجانے مفرور ملزموں تک پہنچنے کے لئے، اس دہشت گردانہ واقعہ سے مستفید ہوئے دھڑے سے منسلک افراد پر، تفتیشی کاروائی کرتے، کڑیوں سے کڑیاں ملاتے، دہشت گردوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن عین عفوان شباب میں،اپنی ہی اردھانجلی بیوی جیشودا بئن کے ساتھ، اپنی ماں و گھر والوں کو دھوکا دئیے گھر سے بھاگے، بقول خود انکے، بیسئوں سال گاؤں گاؤں شہرشہرگھوم بھکشا پر پلے، مہا پرش مودی جی کے، ایل کے ایڈوانی والے رام رتھ یاترا سیاسی گلیاروں قربت کی وجہ سے اپنے جوڑ توڑ سازشانہ حکمت عملی سے،7 اکتوبر 2001 اس وقت کے گجرات بی جے پی اسٹالوارٹ کیشو بھائی پٹیل کو پچھاڑ کر، جز وقتی چیف منسٹر کیا بن گئے
اپنے سنگھی دست راز امیت شاہ کے ساتھ مل کر کچھ ایسی سازش رچی کہ گجرات حکومت دس بارہ سال تک ان کی لونڈی بنی انہی کے پاس رہی۔ اقتدار گجرات ملے پانچ مہینے کے اندر، 27 فروری 2002ایودھیہ سے لوٹ رہی سابرمتی ایکسپریس گودھرا ریلوئے اسٹیشن پر کھڑے، ایک ڈبے میں،جس میں 59 رام۔کارسویک ایودھیہ سے آرہے تھے اچانک ریل کے ڈبے سے آگ بھڑک اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے 59 ھندو رام کارسیوک زندہ جل مرتے ہیں۔ گجرات سنگھی مودی امیت شاہ سرکار ان کارسیوکوں کو زندہ جلا مارنے کا الزام گجراتی مسلمانوں کے سر منڈھتے ہوئے، مرتیو کارسیوکوں کے پارتو شریر کو گجرات بھر گھماتے، مسلم منافرت بھڑکاتے ہوئے، گجرات صوبائی حکومتی سرپرستی والی سازش سے، گجراتی مسلمانوں کا جس بے دردی کے ساتھ نرسنگہار کیا گیا تھا کہ گربھوتی مسلم نساؤں کو سر راہ ننگا کرکے سنگھی درندوں کے ہاتھوں انکا پیٹ چاک کئے، ان کے انجنمے بچوں کو ترشول پر اچھال اچھال ماں اور بچے کو جلتی آگ میں جلاتے ہوئے، گجراتی مسلمانوں کے خلاف اپنے اسٹیٹ دہشت گردی سے، مہان مودی کا ھندو ویر سمراٹ جیسا، ایسا امیج بنایا گیا کہ اس گجرات نرسنگہار کے بعد، مہان مودی جی سنگھی سیاست کے لاتسخیر ھندو ویر سمراٹ ہوکر رہ گئے تھے
اور بڑی ہی آسانی کے ساتھ گجرات پر اپنے 12 سالہ سنگھاسن کے بعد، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے دل لبھاونے نعرون کے بیج،عالم کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت پر بھی ھندو ویر سمراٹ والی رام راجیہ سرکار بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔بارہ سالہ گجرات صوبائی حکومتی رام راجیہ میں بھی انیک فرضی اینکونٹر کرواتے ہوئے،اپنے سیاسی دشمنوں کو ٹھکانے لگانے اور اپناسیاسی قد بڑھوانے کے متعدد واقعات مودی گجرست کاک میں بھی ملتے ہیں۔ مرکزی حکومت ملنے کے بعد اپنے ناعاقبت اندیش نوٹ بندی، نفاذ جی ایس ٹی پالیسیز سے، ملکی معشیت کو تباہ حال کرتے،
مہنگائی بے روزگاری در کو بڑھانے کی وجہ سے 2019 عام انتخاب ہر حال شکست کھاتے پس منظر کو، اپنے مرکزی حکومتی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے،19 فروری 2019 ھندستانی افواج مکمل کنٹرول والے علاقے پھلوامہ میں،سب سے بڑے چالیس پچاس گاڑیوں والے، بی ایس ایف کانوائے پر، “پرندہ بھی پر مار نہ سکے” والے پس منظر میں 500 کلو آر ڈی ایکس کے ساتھ دہشت گرد بی ایس ایف کانوائے تک کیسے پہنچے تھے یا پہنچائے گئے تھے۔؟ اج اس واقعہ پر پورے چھ سال گزرنے کے بعد بھی،ھندو ویر سمراٹ والی مودی امیت شاہ جوڑی، ابھی تک پھلوامہ حملے کے دہشت گردوں کو سزا دینے کامیاب کیوں نہ ہوسکی ہے؟
کیا واقعتا” ھندو ویرسمراٹ سنگھی مودی امیت شاہ جوڑی پھلوامہ حملہ میں ویر گتی پانے والے بی ائس ایف جوانوں کے پارتو شریر پر ووٹ مانگے،2019 عام انتخاب جیتنے والے، اپنی ہی پرمپرا مطابق، اب کے 22 اپریل پہلگام دہشت گردانہ حملہ کئے یا کروائے، 26 کشمیری سیاحوں کی بزدلانہ کایرتانہ حملہ، ان مہلوک سیاحوں کے پارتو شریر پر ووٹ مانگے، تقریبا” شکست فاش کھاتے بہار انتخاب کو جیتنے کی قبیح کوشش کرنے والے سنگھی مودی امیت شاہ کی جوڑی ہی، پہلگام دہشت گردانہ حملہ کرنے یا کروانے کی ذمہ دار تو نہیں ہے؟ کسی بھی دہشت گردانہ واقعہ پر گندی سیاستی روٹی سینک فائیدہ اٹھانے والے ہی کہیں نہ کہیں ان دہشت گردانہ واقعات کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔ کیا اس نکتہ پر انٹیلجنس ایجنسیوں کو یا دیش کی جنتا کو غور و تدبر نہیں کرنا چاہئیے؟ گجرات گودھرا کانٹ 59 ھندو کارسیوکوں کو زندہ جلائے
،اورگجرات حکومتی سرپرستی میں، 2002 گجرات نرسنگہار کئے کروائےاور اسے گودھرا کانٹ کے بدلے کی کاروائی ثابت کئے، پہلے 12 سالہ گجرات اور اب 11سالہ مرکزی سنگھی حکومتی سرپرستی میں، ھندو ویر سمراٹ مہان مودی جی اور امیت شاہ کی جوڑی نے، ایک حد تک اپنے آپ کو گودھرا کانٹ اور گجرات نرسنگہارسے اپنے دامن کو پاک و صاف رکھنے کامیابی حاصل ضرور کرلی ہے لیکن گودھرا ریل کانٹ میں، زندہ جلائے گئے 59 ھندد رام سیوکوں کا ناحق خون ہو کہ گجرات نرسنگہار میں زبردستی بہائے گئے
ہزاروں مسلم مرد و نساء و بچوں کا خون، وقت سے یقینا” نہ صرف بولے گا بلکہ ببانگ دہل مستقبل میں مودی امیت شاہ کے، ان دہشت گردانہ واقعات میں ملوث ہونے کو یقینا” ایسے ہی طشت از بام کرتا رہے گا جیسے ابھی حال ہی میں، سپریم کورٹ میں کھلے گودھرا کانٹ دہشت گردانہ واقعہ پر پورے 23 سال بعد، گودھرا کانٹ کروانے ریاستی مودی امیت شاہ حکومت کی طرف سے ریلوے سیکیورٹی ہٹوانے کا انتہائی اہم معاملہ دیش کی عدالت عالیہ کے سامنے آچکا ہے۔ پھلوامہ دہشت گردانہ حملہ میں 40 دیش کے سینک بلوں کے ویر گتی پراپت کرنے والے واقعہ میں مرکزی سنگھی حکومتی دانستہ سردز ہوئی لغزشوں پر سابق گورنر کشمیر ستیہ پال ملک کے الزامات پر مرکزی سنگھی حکومت، اب تک پھلوامہ حملہ دہشت گردوں کو سزا دلوانے کامیاب کیوں نہیں ہوئی ہے؟ کیا 22 اپریل 2025 کے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے دس بیس سال بعد، آج کی مرکزی سنگھی حکومت ہی کے پہلگام دہشت حملہ کرنے یا کروائے جانے کے ثبوت سامنے آنے کا انتظار کیا جائیگا؟
ایسے وقت خود ساختہ وشؤ گرو ھندو ویر سمراٹ کی ناعاقبت اندیش پونجی واد معشیتی پالیسیز دئش میں بڑھتے مہنگائی وبیروزگار در سے عالم کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت جہاں پریشان حال ہے وہیں پڑوسی ایٹمی قوت پاکستان بھی اپنے شرفاء،زرداران و محافظان کی اجتماعی لوٹ کھسوٹ سے پریشان و مفلوک الحال ہے
ایسے میں جب دونوں پڑوسی ملک آپسی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں تو وہیں مہان مودی جی اپنے معشیتی ناکامی کو، مسلم منافرت میں بدلتے اپنی سیاست بچانے پاکستان کے اندر گھس کر دشمن کو سبق سکھانے کےچکر میں، 2019 والےمودی جی کے سرجیکل اسٹرائیک میں، پڑوسی دشمن ملک نے ابھینندن کے جہاز کو گراکر، اسے گرفتار کر،خیر سگالی کا اظہار کرتے، اسے آزاد کرتے، ھند و پاک جھڑپ ہونے سے، اس وقت دونوں ملکوں کو بچا لیا تھا لیکن جیسا کہ عالمی میڈیا بتا رہا ہے پڑوسی دشمن ملک نے بھارتیہ وایو سینا کی شان سمجھے جانے والے تین رافیل طیاروں سمیت پانچ عدد بھارتیہ وایو سینا طیاروں کو متعدد ڈرون کے ساتھ مارگرایا ہے اگر عالمی میڈیا خبرین سچ ثابت ہوتی ہیں
تو مہان مودی کے “من کی بات” کی لاج رکھنے،اگر یہ ھند و پاک جھڑپ کچھ بڑھ جاتی ہے تو کیا سنگھی مودی جی کی معشیتی پالیسیز میں معشیتی طور برباد بھارت اور اسکی پہلے سے بدحال 1،400 ملین عام جنتا، دو ملکی جنگ کے اخراجات برداشت کرپائیگی؟ کیا اس پر تدبر و تفکر کرتے ہوئے دو پڑوسی ملکوں کو، اپنے تفکراتی اختلافات پس پشت رکھے، دونوں ملکوں کو اپنے دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ عالمی اشتراک کئے، عالمی تجارت سے اپنے اپنے ملکی عوام کی بہبود کی فکر کیا نہیں کرنی چاہئیے؟
22 مئی 2013 کو شروع کیا گیا، چین کے خود مختار مغربی علاقے، سنکیانگ سوایت علاقہ جات سے ہوتے ہوئے، پاکستان کے خیبر پختونخواہ ، گلگت بالٹسٹان، ہوتے ہوئے کراچی کے پاس خلیج عرب سمندر پر بنے گوادر ایر پورٹ تک ہائیوے، ریلوے اور انرجی لائن بچھانے کا بہت بڑاعالمی پروجیکٹ “پاکستان،چین ایکونو میکل کوریڈور” یا “سی پیک منصوبہ” کہلاتا ہے۔ 46 بلین ڈالر سے شروع کیا گیا چائینا پاکستان ایکونومیکل کوریڈور جو اب ختم ہوتے ہوتے 64 بلین ڈالر لگ لگ خرچ ہو جائیں گے،
تین ہزار کلومیٹر طویل اس منصوبے کے تحت مستقبل میں گوادر اور سنکیانگ کے درمیان نئی شاہراہوں اور ریل رابطوں کی تعمیر کے علاوہ، گیس اور تیل کی پائپ لائنیں بھی بچھائی جائیں گی۔سی پیک یہ منصوبہ ایک طرح سے، عالمی سطح پر معشیتی بساط، گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے،کہ کل تک عالمی معشیتی تگ و دو طاقت کا توازن برطانیہ امریکہ کے پاس جو تھا ،اب اس سی پیک منصوبہ کی تکمیل کے ساتھ، عالمی معشیتی طاقتوں کا توازن پاکستان اور چین کی جھولی میں تو نہیں ہوگا؟
اس وقت جنگیں،حربی آلات میزائل و ایٹم بم سے نہیں، بلکہ معاشی لحاظ سے لڑی جارہی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اسی ملک کا پلڑا بھاری ہوگا،
جس کی معیشت مضبوط تر ہوگی۔ سی پیک منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے۔ سی پیک میں پاکستان کے مفادات سے زیادہ چین کے مفادات شامل ہیں۔سی پیک کی تکمیل کے بغیر چین دنیا میں سپر پاور اور معاشی کنگ نہیں بن سکتا۔چین عرب ممالک سے روزانہ کی بنیاد پر 60 لاکھ بیرل تیل منگواتا ہے جس کا سفر خلیج عرب سے ہوتے ہوئے، سری لنکا کا طویل چکر کاٹ کر،12ہزارکلو میٹرکے قریب فاصلہ طہ کرتے ہوئے چین تک پہنچتا ہے۔ جنوبی چین سمندر میں، چین کیلئے بے پناہ مسائل ہیں،سمندری سپلائی لائن پر تبت، تھائی لینڈ، جاپان، کوریا،جیسے کچھ جزیرے ہیں جن کے ساتھ چین کے حالات بہتر نہیں
۔ یہ ممالک کسی بھی وقت یہ تجارتی لائن کسی سازش کے تحت کاٹ دیں تو چین کی معیشت برباد ہوسکتی ہے۔ اس کا متبادل بہترین حل “سی پیک” کی صورت میں چین کو ملا ہے۔ جو بنیادی طور پر، اس کے دوست ملک پاکستان سے جُڑا ہوا ہے۔ چین کی مصنوعات وسطی ایشیا، افریقہ، یورپی یونین ، ترکی، روس، تاجکستان، ازبکستان اورعرب ممالک تک کم سے کم وقت وکم ترین اخراجات میں پہنچ سکتی ہیں ۔چین سے ان ممالک کی درآمدات و برآمدات سے پاکستان کو حاصل ہونے والی راہداری ٹیکس وصولی سے، پاکستان کی معیشت کا معیار دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے برابر ہو جائیگا۔اور اس ’’سی پیک‘‘ سے جو دوسرے فائدے ہونگے وہ الگ سے ہوں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر ناگزیر ہوجاتا ہے کہ جب یکم اکتوبر1949 کو چائینز کیمیونسٹ لیڈر ماوزے ڈے ڈونک نے، آزاد پیپل ریپبلک چائینا ڈکلیر کیا تھا
تو، مئی 1951 میں پاکستان وہ پہلا آزاد ملک تھا جس نے چائینا کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے عالمی سطح پر نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ بینکنگ و ایوئیشن سیکٹر میں، چائینا کی بھرپور مدد کرتے ہوئے، شروع ہی سے چائینا سے اپنی دوستی نبھاتا آیا ہے۔ ایسے میں ہر زاوئیے سے ہر معاملے میں، معشیتی سوچ رکھنے والے چائینا کے لئے، اس کی عالمی تجارت کو ایک نئی اونچائی پر پہنچانے میں ممد، پاکستان کا، اپنے علاقہ جات سے، “پاکستان چائنئز ایکونومیکل کوریڈور”، “سی پیک منصوبہ” شروع کرتے ہوئے، چین کو نہ صرف، اپنی ضرورت کے لیے خلیج کی کھاڑیوں سے تیل گوادر کے راستے 3 ہزارکلومیٹر کےکم ترین فاصلے اور محفوظ ترین راستے سے، کم ترین وقت میں دستیاب کرانے میں پاکستان کا رول، بلکہ اس کی اپنی چائینز مصنوعات کو عالمی منڈی تک کم وقت کم خرچ میں پہنچاتے،
عالمی سطح کا معشیتی کنگ بننے میں، پاکستان کی مدد کو وہ کیسے فراموش کرسکتا ہے؟اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندر گاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کےخلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کیلئے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ افغانستان کے ہاتھوں کھلی شکت کے بعد، کچھ ماہ قبل عرب مملکت قطر میں قرار پائے، افغان طالبان اور امریکہ معاہدہ کروانے میں پاکستان کا کردار بھی جہاں امریکہ کے لئے اہمیت کا حامل ہے وہیں پر، افغانستان طالبان سے کھلی اپنی شکشت کے لئے، عالمی طاقت امریکہ، پاکستان کے دوہرے رول کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ ایسے میں “بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے” افغانستان سے شکشت خوردہ نکلے امریکہ کیلئے عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا،
جہاں ایک بہت بڑا مسئلہ تھا وہیں عالمی معشیتی دوڑ میں چائینا کے اس تیزی سے ترقی پزیری، اور خصوصا اس سی پیک راہداری سے عشیتی عالمی دعویدار میں چائنیز بڑھتی طاقت، صاحب امریکہ کیلئے پاکستان چائینا دو دو کانٹوں کی ہمہ وقت اسے چھبتے، اسے پریشان کئے رکھے ہوئے تھے، اسکے پرے، افغانستان شکشت فاش بعد، صاحب امریکہ اپنے 50 اسٹیٹ کے ساتھ فیڈرل یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ، دنیا کا طاقتور ترین بلاک بنا ہوا جو ہے، اسے خود صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ناقابل اندیشانہ پالیسیز سے، اپنے گھر کے فیڈرل ریپبلک کو سنبھالنا ہی بہت بڑا چیلنج بنا ہوا تھا،اپنے گھر کی مملکت بچانے کیلئے،اسے عالمی سربراہی کی چودراہٹ بچائے رکھنا ضروری تھا۔اس کیلئے ایک تیر دو نشان، پاکستان چائینا ایکونومیکل کوریڈور کو کسی بھی قیمت پر رکوانا، اس کیلئے اپنی ساکھ بچانے جیسا معاملہ تھا۔
اس کے لئے، اسے ، اس جیسا ہی، عقل سے عاری، جذباتی سنگھی لیڈر، ایک دوست کی حیثیت مودی کی شکل موجود تھا۔ ادھر 56″ سینے والے مودی مہاراج بھی، اپنے ناعاقبت اندیشانہ “نوٹ بندی”،”نفاذ جی ایس ٹی” اور دیش بھر میں مذہبی منافرت بڑھاوا دینے والی سنگھی پالیسیز سے، تقریبا تباہ حال بھارت کی معیشت سے،پریشان حال،کسی نہ کسی بہانے پڑوسی پاکستان سے سرحدی جھڑپ پیدا کر، اپنے کروڑوں ان بھگتوں کے واسطے سے، دیش بھگتی کی ایک نئی روح پھونکتے ہوئے، اپنی حکومت بچائے رکھنے کی تگ و دو میں تھے، کہ انہیں شاید احساس ہی نہیں ہوا کہ صاحب امریکہ نے انہیں استعمال کر، دستور بند میں کشمیریوں کو خصوصی پیکیج کے تحت دئیے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرواتے ہوئے،
بھارتی کشمیر کو یرغمال بنانے کے فیصلہ پر عمل کرواتے ہوئے، پاکستان اوکیوپائیڈ کشمیر گلگت بلوچستان واپس دلوانے کا جھانسہ دے دیا۔اسی لئے شاید افغانستان سے امریکی انخلا تاریخی معاہدے کے بعد سے، بھارت کے ڈیفنس منسٹر راج ناتھ سنگھ سمیت بھارتیہ سنگھی لیڈران، بھارتی کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کر کشمیر مسئلہ کا حل نکالنے کے بجائے، پاکستان پر فوجی چڑھائی کرتے ہوئے، پاکستان اوکیوپائیڈ کشمیر، گلگت پر بھارتی قبضہ کرتے ہوئے، اور بنگلہ دیش کی طرح بلوچستان کو آزاد کراتے ہوئے،
پاکستان کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر، بے وقعت چھوٹا سا ملک پاکستان بنائے رکھنے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ شاید اسی لئے ، سی اے اے، این آرسی پر بحث دوران، امیت شاہ کا پارلیمنٹ میں دیا زبردست جوش بھرابیان “جموں و کشمیر کے پی اوکے کے حصہ کو، آپ کیا کشمیر کا حصہ نہیں مانتے ہو کیا؟ چپ کیوں ہو؟ جان دے دینگے، اس کیلئے(پی اوکیلئے)، ایگرسیو ہونے کی کیا بات کررہے ہوآپ، میں یہ بات رپورٹ پر رکھنا چاہ رہا ہوں۔جب جب سدھرن میں جموں و کشمیر راجیہ کے بارے میں بولا ہوں، تب تب پاک اوکیوپائڈ کشمیر اور اقضائے چین، گلگت پاکستان کو بھارت کا حصہ بولا ہے” دیش کے وزیر داخلہ شری امیت شاہ دیش کی پارلیمنٹ میں بولتے ہوئے،بڑے ہی کڑے تیور میں پڑوسی پاکستان اور چائینا کو دھمکی دے چکے تھے۔انکے اس دھمکی آمیز بیان کے بعد، پڑوسی چائینا کو کہیں نہ کہیں یہ گمان ہوچکا تھا
کہ بھارت کے ارادے اقصائے چین پاکستان آکیوپایڈ کشمیر اور گلگت پاکستان پر چڑھائی کر، مکمل ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی سوچ سکتا ہے۔اور بالفرض محال ، صاحب امریکہ، پاکستان و چائینا سے اپنی دشمنی نکالنے کے لئے، ایک طرف پاکستان کے ٹکڑے کر اسے برباد کرنے اور ساتھ ہی ساتھ، پی اوکے اور گلگت پر بھارت کا قبضہ کروا، پاکستان چائینا ایکونو میکل کوریڈور کو گٹھائی میں ڈالتے ہوئے، چائنیز معیشت کو زور کا دھکا دینے کیلئے، امریکی مدد سے بھارت کے پاکستان پر چڑھائی کرنے سے عین قبل،حفظ ماتقدم کے طور،بھارت کے ساتھ اپنے،ان متنازعہ اقصائے چین والےعلاقوں پرچائینا، خود سے پہل کر، قبضہ کرلیتا ہے،تو کیا یہ اس کی کامیاب حربی حکمت عملی نہیں کہی جاسکتی ہے؟
بڑبولے کی ہڑبونک جیسے بغیر تیاری کے صرف امریکی مدد کے بھروسہ ، اپنی مسلم دشمنی کے زعم میں، ایٹمی طاقت پاکستان کو، نوالہ تر سمجھتے ہوئے، سنگھی لیڈروں کا یوں، پی اوکے اور گلگت پر چڑھائی کر قبضہ کا اعلان اور خاص کر بھارتیہ سنگھی سیاست کے چانکیہ کہلانے والے وزیر داخلہ بھارت کا پارلیمنٹ میں دیا جذباتی بیان،دراصل امریکہ بھارت کا مشترکہ پاکستان چین مخالف حربی ماسٹر پلان ، چائینیز حربی حکمت عملی سے نہ صرف قبل از وقت سبوتاز ہوچکا ہے، بلکہ پڑوسی پاکستان کے سامنے بھارت کو سبکی اٹھانی ہڑچکی ہے۔
صاحب امریکہ نے اپنی عالمی سربراہی بچانے کے لئے، اہک آخری کوشش کے طور، اپنی سابقہ حربی روایات دوسرے ممالک کی سرزمین پر اپنی آنا کی جنگ لڑتے عمل جیسا، پاکستان چائینا کے خلاف بھارتیہ افواج کو کرایہ کی طرح استعمال کرنے کا جو ماسٹر پلان امریکہ نے تیار کیا تھا وہ پوری حربی بساط اب الٹ چکی ہے۔ صاحب امریکہ عالم کی حکمرانی والی چودراہٹ کہاں بچا پاتا، اب تو مہان مودی کے دوست ہونے کے ناطے، مودی مہاراج کی مسلم منافرت کو، کالے گورے نسلی منافرت کے طور استعمال کرتے ہوئے،
اس کیلئے بھارت کے سنگھی لیڈروں کو اپنی مسلم منافرت بھول کر، ہزاروں سال قبل کے سونے کی چڑیا والے گنگا جمنی مختلف المذہبی، سیکیولر تہذیب کو ہی اپنانا ہوگا، بصورت دیگر یوایس ایس آر کے ماقبل ٹوٹے اور اب کے یو ایس اے کے ٹوٹتے بکھرتےوجود کو دیکھ کر تو، بھارت کو مزید ٹوٹتے بکھرنے سے بچانا ہوگا۔وما علینا الا البلاغ۔