ٹیکس چوری روکنا ضروری !
ہر دور اقتدار میں عوام سے ہی کہا جاتا ہے کہ انہیں بہر صورت ٹیکس دینا ہو گا، اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکے گا،اس کے باوجود ٹیکس کا ہدف پورا نہیں ہوتا ہے ،ہم ٹیکس کیوں نہیں دیتے اورٹیکس ادا کرنے سے سب کی ہی جان کیوں جاتی ہے ،اس سوال کا جواب تو ایک اور سوال کی صورت میں ہے کہ ہم ٹیکس کیوں دیں، جب کہ ہمارا ٹیکس بذریعہ سرکاری خزانہ سرکاری ملازمین کی جیبوں میں چلا جانا ہے
تو پھر ہمارے خون پسینے کی کمائی ہماری جیبوں میں ہی کیوں نہ رہے ،اس کاایک دوسرا جواب بھی ہے کہ حکومت ہم سے ٹیکس لیتی ہی نہیں ہے، ایک افسر آتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارا ٹیکس اتنا بنتا ہے، اس میں سے اتنا مجھے دے دو، خود اتنا رکھ لو اور ایک حقیر سی رقم حکومت کو ادا کر دو ،اس طرح سے مک مکا پر ٹیکس کا پورا نظام چل رہا ہے اور یہ جو بڑی بڑی مارکیٹوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ پوری مارکیٹ کا انکم ٹیکس اس کی کسی ایک دکان کے انکم ٹیکس سے بھی کم ہے تو یہ اسی مک مکا کا ہی نتیجہ ہے ،یہ سلسلہ جو برسہا برس سے چل رہا ہے اور ایک معمول بن گیا ہے،
اس کو ڈیجیٹا ئیزیشن کرکے ختم کر نا اتناآسان نہیں ، جتنا کہ سمجھا جارہا ہے۔اتحادی حکو مت بھی بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ آئی ہے اور اپنے دعوئوں کو عملی جا مہ پہنانے کی اپنے تائیں پوری کوشش کررہی ہے ، لیکن ان کے اپنے ہی اندر بیٹھا کر پٹ مافیا ساری کار گزاری ناکام بنائے جارہا ہے ، اس کے باعث ٹیکس اہداف پورے ہورہے ہیں نہ ہی ٹیکس اصلاحات سے بھر پور فائدہ اُٹھا یا جارہا ہے ،رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو طے شدہ ہدف سے تقریباً 831 ارب روپے کم ٹیکس وصول ہوا ہے۔
ایف بی آر نے اس مدت میں 9299 ارب روپے ٹیکس جمع کیا ،جبکہ ہدف 10 ہزار 130ارب روپے مقرر تھا،طے شدہ ٹیکس ہدف کے حصول میں ناکامی کی وجہ ٹیکس کے دائرہ کار کا محدود ہونا اور بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوناہے۔
یہ بات ایف بی آر اور حکو مت بخو بی جانتے ہیں کہ ٹیکس چوری کس کی ملی بھگت سے ہورہی ہے اور کون لوگ کررہے ہیں، اس کے باوجود روک پارہے ہیں نہ ہی کوئی مو ثر حکمت عملی بنا پارہے ہیں ، گزشتہ روز ہی ملک کے پانچ بڑے درآمدی شعبوں تمباکو‘ دوا سازی‘ ٹائر‘ آئل اور چائے میں 751 ارب روپے ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے، علاوہ ازیں کچھ کاروباری کمپنیاں پوائنٹ آف سیل کو ایف بی آر کے سسٹم سے منسلک نہ کرکے ٹیکس چوری کی مرتکب ہورہی ہیں‘ یعنی وہ عوام سے سے سیلز ٹیکس تو وصول کرتی ہیں،
لیکن یہ ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا جا رہا ہے، ایسی کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے، تاکہ ٹیکس چوری کا سلسلہ بند ہو سکے، لیکن جب چوری روکنے والے ہی چوروں کے ساتھ ملے ہوں گے تو چوری کون روک پائے گا ؟
ہمارا مروجہ ٹیکس نظام ہی مجموعی طور پر جامع اصلاحات کا متقاضی ہے ، ہرحکومت کی طرف سے ریونیو میں اضافے کے لیے ٹیکسوں کی شرح بڑھا ئی جارہی ہے، لیکن ٹیکس وصولی کے نظام میں موجودہ خامیاں دور کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے ، اس کی وجہ سے ٹیکس اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، حکو مت اورمتعلقہ حکام کو چاہیے کہ ریونیو میں اضافے کے لیے محض ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے بجائے
ٹیکس نظام میں موجود خامیاں دور کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں، تاکہ ٹیکس چوری کا سدباب ہو سکے اور ٹیکس ہدف پورا ہو سکے ، لیکن اس جا نب توجہ ہی نہیں دی جارہی ہے ، اس ملک میں جب تک اداروں میںاصلاحات نہیں کی جائیں گے اور میرٹ پر تعیناتیوں کو یقینی نہیں بنایا جائے گا ، ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو گا نہ ہی ٹیکس ہدف کبھی پورا ہو پائے گا۔
یہ امر خوش آئندہے کہ حکو مت ایف بی آر میں اصلا حات اور ڈیجیٹائیزیشن جاری رکھے ہوئے ہے ، یہ ایف بی آر میں ہی نہیں ،بلکہ تمام سرکاری محکموں کو مکمل طور پر خودکار بنانا اور ان میں میرٹ پر تعیناتی کے ساتھ کارکردگی کی بنیاد پر ترقی و تنزل کانظام نافذ کیا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے،
اس کے ساتھ ٹیکس دینے والوں کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح خصوصی مراعات اور سہولتیں دینا بھی انتہائی ضروری ہیں، کیونکہ اس طرح ہی ٹیکس کلچر فروغ پاسکتا ہے اور ٹیکس چوری کو روکا جاسکتا ہے ،جبکہ یہ عدل و انصاف کا بھی لازمی تقاضا ہے اور اس کے بغیر ملک کا پائیدار اور ہموار ترقی کی راہ پر گام زن ہونا ممکن نہیں ہے۔