جینا بھی عذاب 22

بھارتی کی آبی جارحیت ، نقصان کسے ہوگا؟

بھارتی کی آبی جارحیت ، نقصان کسے ہوگا؟

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

وہ شخص کتنا بڑا دانشور ہوگا جس نے صدیوں پہلے پیش گوئی کرکے لوگوںکو حیران پریشان کردیا تھا کہ مستقبل میں پانی کے لئے جنگیں ہوں گی کہتے ہیں جب دنیا میں کچھ نہ تھا پانی تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پانی ہی ہوگا پانی زندگی کی علامت ہے اورقدرت کا بیش قیمت تحفہ بھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کرہ ٔ ارض پر ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی ہے اور خشکی کے نیچے بھی پانی ۔۔سوچنے کی بات ہے اللہ نے پانی کو کتنی فضیلت عطا کردی آب ِ زم زم کو بھی پانی بنا دیا اس کے باوجود لوگوں کی قسمت کا کیا

کیجئے اقوام ِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور نہ جانے کون کون سے اداروں کی حکمت ِ عملیاں،ایفی شنسیاں اور پھر حکومتوں کے اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی دنیاکی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں اوپر سے ہمارا ہمسایہ ملک بھارت آئے روز پاکستان کو پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتاہے وہ کبھی پانی بند کردیتاہے تو کبھی زیادہ پانی چھوڑ کر سیلابی کیفیت پیداکردیتاہے اس لئے اچھا ہمسایہ ہونا بھی ایک غنیمت ہے کیونکہ کمینہ دشمن تو تنگ کرنغ کے لئے کوئی حربہ بھی استعمال کرکے آپ کوتنگ کرسکتاہے

بھات کی آبی جارحیت پورے برصغیر پاک وبنگلہ بندکے لئے ایک خطرہ ہے لیکن بھارتی حکمرانوںکو حالات کی نزاکت کااحساس ہی نہیں یہ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ بھارت میںکوئی سانحہ، کوئی واقعہ ہو جائے تو اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے دنیا کو علم ہے کہ پاکستان کی عوام اپنی بہادر پاک ا فواج کے ساتھ ہے اورکسی بھی جارحیت کی صورت میں بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے گابھارتی حکمرانوں کو سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں اگر بھارتی حکمرانوں نے اوچھے ہتھکنڈے بند نہ کیے

تو ملک بھر کی تاجر برادری اور پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ مودی حکومت کو منہ توڑ جواب دے گی اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی سندھ طاس معاہدہ کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا آبی جارحیت ہے اور جنگ کی دھمکی کے برابر ہے بھارت نے دریائوںپر درجنوں بندبناکر پانی دخیرہ کرنے کی جو کوشش کی ہے اس پر پاکستان کو بہت سے تحفظات ہیں ۔ دنیا میں پانی کی شدید کمی ہونے کے باعث مبصرین باربار خبردار کرر ہے ہیں کہ پانی کا ضیاع بہت بڑاجرم ہے مستقبل کی جنگیں پانی کے لئے ہوںگی لیکن اس کا کسی کو کوئی ادراک نہیں اس کے باوجود آبی ماہرین کا کہناہے کہ اگر آج بھارت انڈس واٹرز معاہدہ ختم بھی کر دے تو پاکستان کو فوری طور پر کوئی آبی نقصان نہیں ہوگا۔ پانی کا بہائو بدستور جاری رہے گا

جب تک بھارت ان دیو قامت منصوبوں کو مکمل نہیں کر لیتا۔ تاہم ایک آبی تنظیم درابو نے سیاسی اثرات کے حوالے سے خبردار کیا کہ”انڈس بیسن پر پاکستان کی 90 فیصد زراعت کا انحصار ہے اور 40 فیصد سے زائد آبادی روزگار حاصل کرتی ہے۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کے عام شہری کو اپنی ریاست کے گلا گھونٹنے کے مترادف محسوس ہوگی۔ہ انڈس واٹرز ٹریٹی کو ختم کرنے کا نتیجہ دونوں ممالک کے درمیان تلخی میں مزید اضافے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا

کتنے مزے کی بات ہے کہ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس کو جس سانچے ڈالو ڈھل جاتاہے،،جس رنگ میںچاہو رنگ لو۔جو زورآور چاہے دوسروں کا پانی بند کردے پانی کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی احتجاج نہیں۔۔ دنیا کے زیادہ تر انسانوںکو پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے بہت تردد کرناپڑتاہے اربوں کھربوں روپے ہرسال صاف پانی کے نام پر ہڑپ کرلئے جاتے ہیں پوری دنیا ذہن نشین رکھے ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پوری قومِ عساکرِ پاکستان کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ نئی دہلی میں قائم موقر تھنک ٹینک “آبزرور ریسرچ فائونڈیشن” میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں پیش کیا

۔انہوں نے اپنے مضمون کے اختتامی حصے میں لکھا:”بھارت پر صرف مزید تلخی پیدا کرنے کی ذمہ داری آئے گی، لیکن فوری طور پر اسے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔”انہوں نے انڈس واٹرز معاہدے سے چھیڑ چھاڑ کی کسی بھی کوشش کو “خطرناک مہم جوئی” قرار دیا۔درابو نے وضاحت کی کہ پانی کے بہائو کو روکنے کے دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں: یا تو پانی کو ذخیرہ کرنا یا دریائوں کا رخ موڑنا — اور دونوں کو انہوں نے عملی طور پر ناممکن قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ تین مغربی دریا — دریائے سندھ، چناب اور جہلم — پاکستان کو مجموعی پانی کے بہائو کا تقریباً 80 فیصد (117 ارب مکعب میٹر) فراہم کرتے ہیں۔یہ مقدار ہر سال تقریباً 120,000 مربع کلومیٹر رقبے کو ایک میٹر گہرائی تک ڈبونے کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا”اگر اسے ذخائر کی گنجائش کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ پانی ہر سال وادی کشمیر کو سات میٹر گہرائی تک ڈبونے کے لیے کافی ہوگا۔”انہوں نے نشاندہی کی کہ اس قدر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بھارت کو تہری ڈیم جتنے 30 ڈیمز درکار ہوں گے — جو بھارت کا سب سے اونچا ڈیم ہے۔”اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز کی تعمیر کے لیے زمین کہاں سے آئے گی؟” درابو نے سوال اٹھایا۔تعمیراتی مدت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک تہری سائز کے ڈیم کی تعمیر میں تقریباً ایک دہائی لگتی ہے۔”

اگر آج سے ہی 30 ڈیمز پر بیک وقت کام شروع بھی کر دیا جائے، تب بھی پہلا پانی ذخیرہ 2030 سے پہلے ممکن نہیں ہوگا۔ یہ حقائق جان کر بھارتی سرکارکو ہوش کے ناخن لینا چاہییں بھارت پاکستان کو تنگ کرنے کے لئے جتنا پانی اکھٹا کررہاہے کہیں وہ اس پانی میں غرق ہی نہ ہوجائے پانی جو زندگی ہے۔زندگی کی علامت ہے اوربھرپور زندگی جینے کا حق ہر انسان کو ہے اس لئے انسانیت کے پیش ِ نظر جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانا انتہائی ناگزیرہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں