معیشت پیار سے چلتی ہے !
ملک و قوم کے دفاع، انتظامی امور کی تکمیل اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے دنیا کی ساری حکومتوں کو مختلف قسم کے محاصل (ٹیکس) کا سہارا لینا پڑتا ہے،جو کہ ٹیکس ملکی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں،یکس کسی بھی مہذب معاشرے کے طرزِ حیات کی قیمت ہوتی ہے ، ہر ملک کے شہریوں کو قابلِ عمل منصوبہ بندی اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے ٹیکس ادا کرنا ہی ہوتاہیں، لیکن اگر ٹیکس کی ادائی گی ، نر می کے بجائے سختی سے کروائی جائے تو ٹیکس کا ہدفکبھی پورا نہیں ہو پاتا ہے ،
اس لیے ہی بلاول بھٹو زرداری کو بھی کہناپڑا ہے کہ ملکی معیشت ڈنڈے کے زور پر نہیں چل سکتی، پیار سے چلتی ہے، حکومت سینٹرلائزیشن پر یقین رکھتی ہے، لیکن ہم ڈی سینٹرلائزیشن پر‘ وفاق سیلز ٹیکس آن گڈز کی ذمہ داری صوبوں کو دے‘ ہم وفاق کیلئے ٹیکس اکٹھا کرنے کو تیار ہیں، اس کے ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر نے کیلئے تیار ہیں۔
معیشت کے حوالے سے بلاول بھٹو نے جو کچھ بھی کہا ہے ، اس قسم کے تحفظات کا اظہاربزنس کمیونٹی بھی کر چکی ہے،گزشتہ ہفتے گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے افتتاحی اجلاس میں ٹیکس وصولیوں کا پانچ فیصد صوبوں کو سونپنے کی تجویز زیر غور آئی تو اس کی محصولات جمع کرنے والے وفاقی ادارے نے مخالفت کی، جبکہ اس ادارے کی اپنی کارکردگی سامنے ہے کہ رواں مالی سال جولائی تا نومبر 5143ارب کے ٹارگٹ میں 412ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جبکہ رواں مالی سال کیلئے بجٹ میں ٹیکس ہدف 14305ارب روپے مقرر کیا گیا تھا،اس اہداف کے حصول میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے،
لہٰذا وفاق کو محصولات اکٹھا کرنے کی ذمہ داری صوبوں کو سونپنے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،اگر یہ کام صوبوں کو سونپنے سے ٹیکس اہداف بہتر طور پر حاصل کیے جا سکتے ہیں تو پرانے تجربے دہرانے پر اصرار کیوں؟
اس بات کو کیسے جھٹلا سکتا ہے کہ ہمارا ٹیکس ماڈل کمزور سہاروں پر کھڑا ہے ،محصولات اور ٹیکسز کی موجودہ شرح غیر معمولی طور پر زیادہ ہے اور زیادہ تر بوجھ کارپوریٹ اور تنخواہ دار طبقات پر لادا گیا ہے ،اس وقت کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح 29فیصد ہے، 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہے، ڈیویڈنڈ آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس عائد ہے، یعنی بڑے کاروباری اداروں پر مؤثر ٹیکس 60فیصد سے بھی تجاوز کر جاتا ہے،
اس کے باعث ہی بزنس کمیونٹی کی جانب سے برملا کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک کا ماحول کاروبار کیلئے موزوں نہیں،حالیہ عرصے کے دوران کاروباری حجم کو محدود کرنے اور سرمایہ لپیٹنے والے سرمایہ کاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، سر مایہ کار اچھی کاروباری فضا والے ممالک میں ہجرت کررہے ہیں اور ہماری سخت پا لیسیاں رو کنے کے بجائے مزید بھگارہی ہیں۔
اگر تنخواہ دار طبقے کی بات کی جائے تو اس پر بھی انکم ٹیکس اور اضافی سرچارج کی مد میں35 فیصد تک ٹیکس عائد ہے، لہٰذا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہرین میں ٹیکس ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے دیگر ممالک جانے یا فری لانس کام کا رجحان بڑھا ہے‘ اس کے باعث ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرا دکی کمی واقع ہو رہی ہے
،کاروباری طبقے کو فائلوں کو پہیے لگانے اور این او سیز حاصل کرنے کیلئے جن مشکلات کا سامنا رہتا ہے‘ ان کا لفظوں میں احاطہ کر نا خاصا مشکل اور سب سے بڑھ کر آئے روز بدلتی پالیسیاں کار فر ما ہیں،یہ تمام عوامل کاروبار شکن ثابت ہو رہے ہیں، اس کے باوجود کوئی رلیف دیا جارہا ہے نہ ہی اپنی پا لیسیوں کو رویو کیا جارہا ہے۔
یہ امر حکومت پر بھی واضح ہو گا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود معاشی پالیسیوں کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج نہیں آ رہے ہیں‘ لہٰذا اب پالیسی اور طریقہ عمل بدلنے اور معاشی پالیسیوں میں ترغیب اور نرمی سے کام لینے کی ضرورت ہے، بقول بلاول بھٹو زر داری ملکی معیشت ڈنڈے کے زور پر نہیں، پیار سے چلتی ہے، اس لیے پیار سے ہی چلانے کی ضرورت ہے ،ایک عدل وا نصاف پر مبنی حکومت کا نصب العین ہی اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور خدمت ہوتا ہے، اس لیے ہی عادل حکمران ملکی خزانہ فلاحی کاموں اور مفلسوں اور ضرورت مندوں کی داد رسی اور خدمات کے لیے صرف کرتے ہیں،
وہ بے جا اور ناجائز ٹیکس سے عوام الناس کو پریشان نہیںکرتے ہیں، اس کے برعکس جا بر حکومت کا مقصد صرف اور صرف حکمرانوں کے اقتدار اور عیش و عشرت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے اور ان کی ہی تجوریوں کو بھر نا ہوتا ہے، اس قسم کی پالیسیوں کی بدولت ہی ملک کی عوام ہمیشہ ٹیکس کے انبار تلے دب کر رہ جاتی ہے اور اکثریت مفلس و غریبی کے اندھیروں میں گھری رہتی ہے،اس لیے ملکی معیشت کو ڈنڈے سے نہیں ، پیار سے چلنا ہو گا اور عوام کو مفلسی کے اند ھیروں سے نکالنا ہو گا ۔