65

دہشت گردی کے خاتمے کے درست اقدام !

دہشت گردی کے خاتمے کے درست اقدام !

پا کستان دہشت گردی کے واقعات کم ہو نے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیںاور اس میں جہاں افغان طالبان رجیم ذمہ دار ہے ،وہیں پا کستا میں مقیم اٖفغان محاجرین بھی سہولت کار ہیں ،اٖفغان سب کچھ بھول رہے ہیں، جو کہ پا کستان اُن کیلئے کرتا چلا آرہا ہے ،افغانستان کے مشکل حالات میں ہمسایہ ممالک میں سب سے بڑھ کر افغانوں کی آئوبھگت پا کستان ہی کرتا رہا ہے، مگر آج قریب نصف صدی بعد پا کستان سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے

کہ اس بھائی چارے اور مثالی ایثار کا فائدہ کیا ہوا؟ جب کہ اس خیر سگالی کے مثالی جذبے کے جواب میں دہشت گردانہ حملے کیے جاتے ہیں تو یہ سوچنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کا سد باب کیا جائے ،اس لیے ہی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ لوگ ہمارے مہمان تھے، مگر اب نہیں رہے ہیں‘ آپ کو خود ہی یہاں سے چلے جانا چاہیے بصورت دیگر آپ کو نکالا جائے گا۔
اگر دیکھا جائے توافغانوں کے بارے میں ہمیشہ سے پاکستانیوں کے ایسے تاثرات نہیں تھے،اس کاافغانوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کی سہولتوں سے جدائی کے شاکی ہیں تو اس کے ذمہ دارافغان دہشت گرد ہیں اور ان دہشت گردوں کی پشتی بان عبوری افغان حکومت ہے، اس نے کبھی انہیں نکیل ڈالنے کی کوشش کی ہے نہ ہی اس کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے ،انہوں نے سرے سے ہی نظر انداز کر دیا کہ ایک ایسا ملک جو کئی دہائیوں سے اُن کے دسیوں لاکھ بے گھر شہریوں کو پال رہا ہے،اس کو ہی کم از کم اپنے سفاک ارادوں سے دور رکھا جائے ، لیکن یسا نہیں ہوا،بلکہ عملی طور پر اس کے برعکس ہی ہوتا رہا ہے ۔
پا کستان میں 2021 ء میں طالبان کی واپسی کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات مین اضافہ ہوا ہے، پا کستا میں ہو نے والے واقعات میں ملوث دہشتگردوں کی اکثریت کا تعلق نہ صرف افغانستان سے رہا ہے، بلکہ اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی افغانی ہے، طالبان رجیم نے پاکستان میں دہشت گرد عناصر کی شکایتوں کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے معاملات کو ہوا میں ہی اڑایا ہے ،اس پراگلے روز نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار بھی کہہ رہے تھے کہ انہوں نے دورہ افغانستان میں افغان قیادت سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اورافغان قیادت سے کہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے

،لیکن افغانستان کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آئی ،پاکستان نے افغانستان سے کیے گئے سارے وعدے پورے کیے، مگر افغانستان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جارہا ہے۔
افغان عبوری حکومت اور دہشت گردوں کا گٹھ جوڑ پاکستان کو دفاعی نقطہ نظر سے ہر قدم اٹھانے پر مجبور کررہاہے، جو کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ناگزیر ہے ،افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ آور ہے اورملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کا وجود سکیورٹی رِسک بنتاجارہا ہے،اس لیے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو جلد از جلد ملک سے رخصت کرنا ہوگا،

لیکن ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ملک بھر میں جاری کریک ڈائون کے پیش نظر غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد پشاور اور کوئٹہ منتقل ہو رہی ہے ،اس حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلو چستان حکومت نے کو نسے اقدامات کیے ہیں، اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات اور سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوتا دکھائی دیے رہا ہے۔
اس کا سد باب ایک نئی حکمت عملی کے تحت ہو ناچاہئے،جو کہ ریاستی اداروں یا حکومتوں تک محدود نہیںہونی چاہیے، بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کے دیگر طبقات جن میں ملک میں موجود سول سوسائٹی، میڈیا، وکلا، انتظامی افسران سب کو ہی شامل ہو نا چاہئے اور اس بوجھ کو مل کر اٹھانا چاہئے،کیونکہ دہشت گردی ایک قومی مسئلہ ہے اور اس قومی مسئلہ میں قوم کو ہی اپنا اپنا حصہ ذمے داری کے ساتھ منصفانہ اور شفافیت کی بنیاد پر ڈالنا چاہئے

،ایک دوسرے پر ذمے داری کو ڈالنا اورمحض ماضی کا ماتم کرنے سے ہم کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے، بلکہ اس کا براہ راست فائدہ دہشت گرد اور دشمن ممالک ہی اُٹھائیں گے ،دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے، جو کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ایک پلیٹ فارم پر آنے ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں