72

بھارتی معاہدے کے ڈھول کا پول !

بھارتی معاہدے کے ڈھول کا پول !

امر یکی صدر ٹرمپ پا کستانی وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے ہیں تو دوسری جانب ان کے ہی وزیر دفاع بھارت سے دس سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کررہے ہیں، امریکہ اور بھارت دونوں ہی آزاد ممالک ہیں‘ انہیں اپنی خارجہ پالیسی اور دفاع کی ترجیحات کا تعین کرنے کا پوراحق اور اختیار حاصل ہے، اگر وہ ایک دوسرے سے ”بغل گیر‘‘ ہورہے ہیں تو کسی دوسرے کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ،دونوں کے دوطرفہ تعلقات کسی تیسرے فریق کی رضا مندی سے مشروط نہیں ہو سکتے ہیں، لیکن یہ توقع بہرحال کی جا سکتی ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں استعمال نہیں ہوں گے۔
اگر دیکھا جائے تو امریکی وزیر دفاع کی جانب سے بھارت کے ساتھ دس سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط بظاہر ایک سفارتی پیش رفت ہے ، لیکن در حقیقت جنو بی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگارنے کی ہی ایک کوشش ہے،رائٹر اور اے ایف پی کی رپوٹس کے مطابق بھی معاہدہ خطے میں استحکام کے ہی نام پر ہورہا ہے ، مگر ماضی گواہ ہے کہ امریکہ نے جب بھی کسی خطے میں استحکام کے نام پرکوئی مہم شروع کی ہے،وہاں امن کی آخری نشانی بھی مٹ گئی ہے ،عراق سے افغانستان اور شام سے لیبیا تک امریکی استحکام کا انجام ملبوں ،قبروں اور آنسوئوں کے سوا کچھ بھی نہیں رہا ہے

،اس کے باوجود خطے میں استحکام کے نام پر ایک اور معاہدہ کر لیا گیا ہے۔اس دفاعی معاہدے کے بعد امر یکی وزیر دفاع نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ یہ فریم ورک دفاعی توازن کا سنگ میل ہے ،لیکن اس پر سوال ہے کہ یہ توازن کس کیلئے ہے اور کیسے قائم کیا جارہا ہے ، ایک طرف بھارت کو جدید اسلحہ ، مصنوعی ذہانت پر مبنی دفاعی نظام ،جدید ڈرون ٹیکنالو جی اور انٹیلی جنس اشتراک فراہم کیا جارہا ہے اور دوسری جانب پا کستان کو ہری جھنڈی دکھائی جارہی ہے ،یہ خطے میں توازن نہیں ، بلکہ کھلی جا نبداری ہے اور بڑی ہی ڈھٹائی سے کی جارہی ہے ،امر یکہ بظاہر بھارت پر تنقید کرتا ہے ، لیکن اندر خانے بھارت کو ہی مضبوط کرتا ہے اور بھارت کی ہی پشت پناہی کرتا ہے اور بھارت کو ہی پا کستان پر فوقیت دیتا چلا آرہا ہے، اس ہلہ شیری کے ہی باعث بھارت خطے کے امن کو تباہ کرنے پر تلا رہتا ہے۔
اس بات کی بھارت کی عسکری تاریخ گواہ رہی ہے کہ وہ کسی بھی جدید ٹیکنالو جی کو صرف دفاع کیلئے نہیں ،بلکہ جارحیت کیلئے ہی استعمال کرتا آرہا ہے ،بھارت نے پا کستان کے خلاف ہر جارحیت میں اپنی عسکری قوت کو آزمایا ہے ،اس کے باوجود امر یکی اسلحہ ، ٹیکنالو جی اور تر بیت کارخ بھارت کی جانب موڑ دینا ،پا کستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے ہی مترادف ہے اور یہ وہ کررہا ہے کہ جس کا صدر آئے روز پا کستان کے کردار کی تعر یف کرتا نہیں تھک رہا تھا اور یہاں تک کہہ رہا تھا کہ پا کستان کے پائلٹوں نے دنیا کے پائلٹوں کو سبق سکھایا ہے ، لیکن اب وہی صدر ٹرمپ کہ جن کے لبوں پر کبھی ہمارے فیلڈ مارشل اور وزیر اعظم کیلئے تحسین کے الفاظ ختم نہیں ہوتے تھے ،آج بھارت کے ساتھ کے ساتھ دس سالہ دفاعی معاہدے پر مہر ثبت کررہے ہیں ،یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ ٹرمپ انتظامیہ کی پا لیسی امریکی تاریخ کی پرانی عادت رہی ہے، امر یکی انتظامیہ کو جب بھی اپنی عالمی گرفت کمزور محسوس ہوتی ہے تو وہ اپنے کسی اتحادی کو اپنی ڈھال بناتا ہے ،افغانستان میں مزاحمت کاروں کو دہشت گرد قرار دینے والا امر یکہ،آج اسرائیل کے ہر جنگی جرم کو حق دفاع کہہ کر جواز فراہم کرتا ہے،یہ ہی دہرا معیار اب جنو بی ایشیا مین بھی دہرانے کی کوشش ہورہی ہے ،بھارت کے ساتھ امر یکی قر بت محض وقتی نہیں ، بلکہ تزویراتی نوعیت کی ہے ،امر یکہ خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خوف زدہ ہے اور اس کے خلاف بھارت کو علاقائی مورچہ بنا نا چاہتا ہے ،اس اتحاد کا حدف پا کستان نہیں ،مگراس کا پہلا نقصان پا کستان کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔
اس صورتحال میں پا کستان کو اب کیا کر نا چاہئے

، پا کستان کوسب سے پہلے اپنی خارجہ پا لیسی رد عمل کے بجائے تد بیرپر استوارکرنا ہو گی ،ہمیں ایک طرف چین کے ساتھ سی پیک منصو بے کو فعال بنا نا ہے تودوسری جانب سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کو باضابطہ فر یم ورک میںلانا ہے ،ہمیں ایک اسلامی دفاعی بلاک کے قیام کی جانب جہاں سنجیدگی سے بڑھنا ہے ،وہیں اپنی داخلی استحکام پر بھی خاص توجہ دینا ہے ،کیو نکہ ملکی دفاع صرف اسلحہ سے نہیں، بلکہ قومی یکجہتی ، معیشت کی خود مختاری اور اخلاقی استقامت سے مضبوط ہوتا ہے ،بھارت کے پاس امر یکی پشت پناہی سے جد ید ٹیکنالو جی ضرور ہو گی ، مگر پا کستان کے پاس وہ جذبہ ایمانی ہے کہ جس نے ہر جنگ میں بڑے بڑے جنونی خواب توڑ دیئے ہیں.امریکہ اور بھارت کے دفاعی معاہدے کے ڈھول کا پول کھل چکا،اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘ ہمارا پہلے معاہدے کچھ بگاڑ پائے نہ نیا موہدہ کچھ بگاڑ پائے گا ،پھر بھی ہر حربہ آزمانا ہو گا اور ہر تدبیر اپنانا ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں