12

مشن حصول تعلیم، انجمن حامی

مشن حصول تعلیم، انجمن حامی

المسلمین بھٹکل اور قوم نائط

ڈاکٹر محمد فاروق شاہ بندری المعروف نقاش نائطی/ ابن بھٹکلی
+966562677707

1258 سقوط بغداد عراق اور 1492 سقوط ہسپانیہ و غرناطہ اسپین بعد، اس وقت اقتدار عالم پر اپنے پیر ہھیلاتی برطانوی مسیحی حکومت نے، کم و بیش آٹھ سو سالہ ابتدائی اسلامی خلافت کے پسپائی ہزیمت کے سبب، سکوت بغداد و اسپین ان ایام، ایک حد تک عالم کے نقشہ سے ختم ہوچکی خلافت راشدہ دوبارہ زمام اقتدار عالم پرواپس نہ آجائے, اسلئے اس وقت کے علماء وقت ہی سے، مسلم امہ عالم تک، حصول علم کو، صرف علم دین ہی تک محدود کئے جیسا, اپنے تفکر و تدبر سے ہم مسلمانوں کو علم عصر حاضر سے اتنا نالاں کردیا تھا کہ اس وقت تک کا حصول علم، کالج و یونیورسٹیوں سے خانقاہوں، مسجدوں مدرسوں کی دیواروں گنبذوں تک ایسا مقید ہوکر رہ گیا تھا کہ علم عصر حاضر حاصل کرنے والوں کو خدا بیزار, دہریہ تک کہلایا جانے لگا تھا۔

اور امت مسلمہ سے ہٹ کر، جو علم عصر حاضر حاصل کر بھی لیتا تھا وہ علوم دینیہ و علوم عصر حاضر درمیان بنائی گئی گہری کھائی کی وجہ، عموما یا تو تفکر لادین، دہریہ ہوجاتا تھا یا اسے بنادیا جاتا تھا۔
دور غلامی ہند میں، آزادی ہند کی تحریک جو دارالعلوم دیوبند سے 1857میں شروع ہوئی تھی اور انگریزوں نے اس آزادی ہند کی تحریک کو بزور قوت کچلنے کے لئے جس بےدردی سے علماء کرام کا قتل عام کیا تھا، اس تناظر میں حصول علم کی تڑپ، امت مسلمہ کے ذہن و افکار میں رچ بس سی گئی تھی۔ویسے تو ہندستان کی پہلی دینی یونیورسٹی کا قیام دیوبند میں 31 مئی 1866 کو عمل میں آیا تھا لیکن چمنستان ہندستان مغلوں سمیت مسلم حکمرانی میں تعلیم کے حصول کے سلسلے میں دنیا کے کسی بھی ملک سے کم بھی نہ تھا۔

ایسے میں ایک بندہ خدا سر سید احمد خان نے شمالی ہند میں اپنی مسلم قوم کو دینی ماحول میں انگریزی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے یار دوستوں کی مدد سے علیگڑھ میں1875 ایم اے کیو کالج شروع کرتا ہے. ذرائع ابلاغ سے ماورا اس دور میں بھی اس مثل کے مصداق، کہ خوشبو و بدبو لاکھ چھپائے باہر آہی جاتی یے. سرسید احمد کا قوم و ملت کے نونہالوں کو دینی ماحول میں انگریزی تعلیم دلانے کا مشن بھی جنوب ھند کے حیدر آباد دکن مہاراشٹر ممبئی پونا اور کرناٹک کے بهٹکل میں سب سے پہلے آپہنچا ہے۔

اس وقت 1896 بھٹکل کے اسلام پسند ماحول میں پیدا ہونے والے فرزند قوم نوائط، اسماعیل حسن صدیق المعروف آئ ایچ صدیق اپنی ابتدائی تعلیم کمٹہ میں حاصل کر, مایا نگری بمبئی کے سینٹ زیویئر کالج سے ،کاروار ضلع کے بین المذہب کے پہلے گریجوئیٹ کا اعزاز لئے بهٹکل پہنچے تو بهٹکل تاجر برادری کے انگریزوں سے تعلقات کی بنا پر، ضلع کلکٹر نے،آئی ایچ صدیق کو کلکٹریٹ کی نوکری کی پیش کش کی تهی. آئ ایچ صدیق چاہتے تو کلکٹر کا عہدہ قبول کر اپنی اور اپنے آل کو مالا مال کرسکتےتھے

لیکن ان کے دل میں سر سید آحمد خان کی، قوم و ملت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی تڑپ جاویداں تھی. انہی دنوں 1898 شہر بھٹکل کے ایک تاجر گھرانے میں پیدا ہوئے، کورگ کے کافی پلانٹر، ایگریکلچرسٹ تاجر جناب حاجی عبدالقادر صاحب کے بھتیجے جناب فقیہ احمدا جاکٹی حسن ابوبکر صاحب المعروف ایف اے حسن، کورگ کی اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد شمالی ہندستان، سر سید احمد خان کے علیگڑھ سے ایف اے کی ڈگری کے ساتھ ہی ساتھ قوم مسلم کو دینی اثاث کے ہمراہ اعلی انگریزی تعلیم دلوانے کا خواب و افکار اپنے ذہن و قلوب میں سجائے بھٹکل پہنچ چکے تھے ۔اپنے ماموں زاد بھائی اور برادر نسبتی یم ایم صدیق سے مل کر قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے ایک ادارے اور مدرسے کے قیام پر صلاح و مشورے ہورہے تھے۔ 2 اگست 1919 انجمن حامی المسلمین کی بنیاد رکھنے کے لئے قوم کے تاجر محمد میراں صدیق المعروف یم یم صدیق کی رہائش گاہ منعقد نشست میں ایک طرف جہاں نئے قائم شدہ تعلیمی ادارے کی صدارت کا بار گراں سر سید سے براہ راست افکار جدید تعلیم لانے والے فارغ علیگڑھ،جواں سال ایف اے حسن کے کندھوں پر ڈالا گیا

تو وہیں پر قوم و علاقے کے اولین گریجویٹ آئی ایچ صدیق کو نئے قائم انجمن پرائمری اسکول کا ھیڈ ماسٹر بننے پر قائل کیا گیا جو دس سال بعد 1929 میں انجمن اینگلو اردو ہائی اسکول کی شکل اختیار کر گیا۔ایف اے حسن صاحب اس زمانے کے لاعلاج مرض ٹی بی کے عارضہ کے ایسے شکار ہوئے کہ باوجود اس وقت بمبئی شہر کے اچھے ہاسپٹل اور مایا ناز ڈاکٹروں کی سعی پیہم کے باوجود جانبر نہ ہوسکے اور20 اکتوبر 1920 صرف بائیس سال کی عمر قوم نائط کو سوگوار چھوڑ دار فانی کی طرف کوچ کر چلے گئے۔
آئی ایچ صدیق ایم ایم صدیق (صدیقین) اور ایف سے حسن کی مشترکہ کاوشوں سے بنیاد رکھا گیا انجمن حامی المسلمین بھٹکل، اور سر سید احمد کے تعلیمی مشن کو کرناٹک کے اس سنگلاخ علاقے میں کشید کرنے کا بارگران پوری طرح جناب آئی ایچ صدیق کے کندھوں پر ہی آن پڑا۔ اسکول کی مہتمم شب کے علاوہ، 1922 کے بعد سے لگاتار بیس سال 1943 تک، انجمن حامی المسلمین ادارہ کی تمام تر ذمہ داری بھی بحیثیت جنرل سکریٹری جناب آئی ایچ صدیق ہی کو سنبھالنی پڑی۔

بھٹکل میں تقریبا ہزار دیڈھ ہزار سال سے آباد قوم اہل نائط، شروع ہی سے اپنے آباء و اجداد کے اثاث، نہ صرف پیشہ تجارت سے وابسطہ ہندستان کے ساحلی علاقوں منگلور کیرالہ ممبئی مدراس آندھرا پردیش کلکتہ میں تجارتی سرگرمیوں میں مشغول و مصروف تھے۔ بلکہ دعوت و تبلیغ کےاپنے مشن کی وجہ اپنی آل اولاد کو دینی قرآنی و احادیث کی تعلیم دلوانے، محلے محلے مکاتب و مدارس قائم کئے ہوئے تھے۔جس کا ثبوت مشہور مورخ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں بھٹکل ہونور یا ہوناور اپنے قیام کے دوران، بھٹکل گاؤں میں کئی ایک قرآن و حدیث سکھانے والے مدارس و مکاتب کا نہ صرف تذکرہ کیا ہے،بالکہ وادی آسمانی ویدک دھرم جنوب ھند بھٹکل کی گلیوں میں، بعد المغرب، بھٹکل کی ہر گلی، ہر گھر سے، تلاوت قرآن کریم و بچوں کے درود شریف پڑھنے کی صدائیں گونجتے، مکہ و مدینہ والے اسلامی ماحول کے ہونے کا تذکرہ اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ وہ تو 1857 بعد غدر ہند پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوجانے کے بعد،انگریزوں کی سازشوں کے چلتے، پورے ہندستان کے ساتھ ہی ساتھ اپنے وقت کے تعلیم یافتہ علم دین کے گہوارہ بھٹکل کو بھی جہاں تعلیم سے بے گانہ کردیا تھا

وہیں شیعئیت رافضئت کی بدعات وخرافات کو مذہبی رسومات کے طور معاشرے کا لازمی جزء لاینفک بنادیا گیا تھا۔ پھر بھی اہل نائط قوم اپنے تجارتی اثاث کے چلتے یمن عدن شری لنکا کولمبو سمیت ہند بھر کے مختلف شہروں میں تجارتی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی قوم و برادری و امت کی صلاح و فلاح کی فکر صدا اپنے گلو میں پاتے تھے۔ اسی لئے بین الڈسٹرکٹ، قوم مسلم کی سیاسی سماجی و معاشرتی شعور و آگہی کے لئے شہر بهٹکل 1912 میں مجلس اصلاح و تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے 1919 میں انجمن حامی المسلمین نامی ادارہ معرض وجود لایا گیا تھا.

پورے کاروار ضلع کے پہلے گریجویٹ جناب آئ ایچ صدیق صاحب کا کلکٹری کی شاندار نوکری چهوڑ، چهوٹے بچوں کو اے بی سی ڈی سکھانے کا سر سید احمد خان کا قوم و ملت کے نونہالوں کو دینی ماحول میں انگریزی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا خواب، جنوب ہند بهٹکل میں ایک مقصد ایک مشن کے تحت شروع ہوا تھا.

1857 غدر کے بعد ہی سے مسلم مقتدر شخصیات نے ہند بھر میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلانے اور مسلم امہ کے بچے بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا کام، ایک مشن کے ساتھ شروع کیا تها. ندوة العلماء لکهنو ، جامعہ ملیہ دہلی ، ہمدرد ٹرسٹ دہلی ، نظام ایجوکیشن ٹرسٹ حیدر آباد، انجمن اسلام ٹرسٹ بمبئی، علیگڑھ یونیورسٹی اورانجمن حامی المسلمین بهٹکل کرناٹک کا قیام اسی سوچ اسی فکر و کاویشات کا نتیجہ تهیں. قوم کا پڑھا لکھا مقتدر طبقہ اسی فکر کو گلو میں لئے ہند بھر کے دورے کر، مختلف مقامات کا سفر کر، عام مسلمانوں میں تعلیمی آگہی پیدا کر، ان علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا تھا.

اسی سوچ و فکر کو گلو میں لئے، بانی ندوة العلماء علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمۃ، شیخ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ، جنوب ہند دورہ پر تھے. مدراس ان علماء حضرات کا قیام اس وقت بهٹکلی تاجر مولانا لنگی کے رہائش گاہ پر تھا. اس دورہ کی مختلف مقامات پر دس روز تک ہوئی علامہ کی تقاریر خطبات مدراس کے نام سے چھپی، بڑی معرکتہ الآراء کتاب مانی جاتی ہے.

چونکہ خان بہادر سید ابوبکر سید محی الدین مولانا مرحوم مالک مولانا لنگی مدراس و کولمبو سری لنکا، انجمن کے ذمہ داروں میں سے تھے اور علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی انہی کے مہمان تھے۔ علیگڑھ طرز پر شہر بھٹکل میں انجمن حامی المسلمین کے قیام اور اس مدرسہ کے طلبہ کی دینی تربیت کے لئے ایک قابل استاد کی درخواست ان سے کی گئی تھی

1924 ندوة العلماء لکھنؤ سے دوسرا بیج عالمئیت کی ڈگری حاصل کر فارغ ہوا تھا. اس میں بارہ بنکی کے بہت بڑے زمین دار کے بیٹے مولوی عبدالحمید ندوی بھی تھے. ندوہ سے فراغت کے بعد طب کی تعلیم جاری رکھنے کی تمنا تھی. علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمۃ کو بهٹکل والوں کی درخواست یاد تھی انہوں نے مسلمانان ہند کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے انکے مشن اور بهٹکل والوں کی تعلیم حاصل کرنے کی تڑپ اور انکی مہمان نوازی کی خوب تعریف کر، مولانا عبدالحمید ندوی کو بهٹکل انجمن حامی المسلمین میں تدریسی خدمات پر قائل کیا اور یوں ندوةالعلماء ہند کے دوسرے بیچ کے فارغ مولانا عبدالحمید ندوی بهٹکل والوں کی، اسلامی خطوط تربیت کے لئے بهٹکل تشریف لے آئے

ایک طرف ہندستان کے مایہ ناز دینی درسگاہ کے فارغ جاگیردارنہ طبیعت و مزاج والے مربی مخلص مولوی عبدالحمید ندوی، تو دوسری طرف تعلیم عصر حاضر کا، پوری کاروار ڈسٹرکٹ کا پہلا فارغ، سر سید کے تعلیمی مشن کا دلدارہ، سادہ لوح درویشانہ مزاج ، ایک ایسا تال میل انجمن حامی المسلمین میں بنا کہ “اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق”۔ حکم رب دو جہاں “طلب العلم (علم دین و علم عصر حاضر) فریضہ علی کل مسلمین” کی تعلیمی فضاء جیسے علاقے میں قائم ہوگئی۔ ملپا علی صاحب ، جوباپو عثمان حسن صاحب، محی الدین منیری صاحب، مولوی اقبال ملا ندوی، مولوی صادق ندوی صاحب ، مولوی غزالی صاحب کے بشمول تقریبا پوری قوم نے 1924 سے 1962 تک انجمن حامی المسلمین میں اور اسکے بعد والے دس ایک سال جامعہ اسلامیہ میں مولوی عبدالحمید ندوی کے ہاتهوں تربیت پائی ہے

اور انہی کے تربیت یافتہ قابل اور مخلص آساتذہ کے پاس تقریبا پوری اہل نائط قوم تربیت پارہی ہے. 1924 سے 1962 تک اس تعلیم سے بے رغبتی والے دور میں، اینگلو اردو اسکول بھٹکل میں، اتنے قابل عالم دین و اساتذہ کی دستیابی و قوم نائط کی ذہن سازی و تربیت، اللہ رب العزت کی طرف سے قوم نائط پر خصوصی فضل و کرم کا ہی نتیجہ ہے.

1871 ہی سے وسط بهٹکل میں گورنمنٹ اردو بورڈ اسکول شروع کیا جاچکا تھا. جہاں پر قوم کے بچے ساتویں تک تعلیم حاصل کیا کرتے تھے. اور چونکہ آہل نائط تجارت پیشہ تھے اور منگلور بنگلور مرکارہ بمبئی مدراس کالیکٹ تجارت کی غرض سے آباد تھے 1919 انجمن حامی المسلمین کے قیام تک ذہین بچوں کو ساتویں کے بعد اعلی تعلیم کے لئے، ان شہروں میں بھیج دیا جاتا تھا اور شاید اسی لئے 1919 سے 1965 تک ذمہ داران قوم نے شہر بهٹکل میں اعلی تعلیم کے لئے کالجز قائم کرنے کے بجائے، ذہین بچوں کو تجارتی مراکز کے شہروں میں خود اہل نائط تجار کی سرپرستی میں اعلی تعلیم دلوانے کو بہتر تصور کیا تھا۔ کیرالہ کالیکٹ ہمارے نائط تجار کے اثر و رسوخ سے کالیکٹ فروخ کالج میں کسی بھی وقت بھٹکلی بچوں کا داخلہ ممکن ہوا کرتا تھا۔

1960 انجمن حامی المسلمین بھٹکل کے تحت چلنے والے اینگلو اردو ہائی اسکول کی تمام تر ذمہ داری قوم ہی کے ایک دوسرے عربی زبان کے گریجویٹ جناب عثمان حسن جوباپو کے نازک کندھوں پر ڈالی گئی. اپنے تدریسی دور میں انہوں نے یہ محسوس کیا انجمن حامی المسلمین ادارہ، اپنے دینی آثاث کے مقابلے، وقت کی مانگ کے پیچهے دوڑتے, انگریزی کلچر کو اپنا رہا یے. انہیں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ دینی آثاث کو قوم کے نونہالوں میں باقی رکھنے کے لئے روزانہ دینیات کا ایک کلاس ناکافی ہے اور اس صورت ایک دینی مدرسے کا وجود ناگزیر ہے.

انہی دنوں محترم ملپا علی صاحب،( جو بعد کے دنوں میں مولانا شاہ وسیع اللہ نور اللہ المرقدہ اورمولانا ابرار الحق مدظلہ کے خلیفہ بنے ) کا شاذلی مسجد (علیہ الرحمہ) بعد نماز عصر درس ہوا کرتا تھا. انکا ہومیوپتھی دواخانہ تکیہ مزار کے متصل ایک کمرہ میں چلتا تھا. مغرب بعد راقم الحروف کے چچا جناب شاہ بندری پٹیل باشہ بهاو صاحب مرحوم، جناب سعدا جفری بھاؤ مرحوم ، جوکاکو محی الدین صاحب ( وٹے بھاو صآحب مرحوم) سمیت محلہ کے ایک دو ساتهی ملا کرتے تھے . قومی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا. انجمن حامی المسلمین کی دینی آثاث ، دینی تعلیم سے بے رغبتی پر کڑهن ہوتی تھی. دوسری طرف اینگلو اردو ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر جوباپو عثمان حسن مرحوم اسی فکر سے بے چین رہتے تھے.

چونکہ وہ اس عصری تعلیمی ادارے کے ذمہ دار تھے اس لئے کھل کر سامنے نہیں آسکتے تهے .اس لئے انکے در پردہ ساتھ نے، ملپا دو اخانے میں قوم کے اخلاقی تنزل پزیر، مرض کی دوا کشید کرنے کی، ہمہ وقت فکر میں مصروف، درمندان قوم کو ہمت دلائی.چونکہ ان دنوں بهٹکل کے بڑے تجار بمبئی مصروف تجارت تھے اس لئے ڈاکٹر ملپا صاحب اس فکر کو گلو میں لئے، بمبئی بهٹکل مسلم جماعت کے ذمہ داران کے پاس جا پہنچے . جہاں پر ڈی اے برادران نے دینی مدرسے کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے، نہ صرف مالی تعاون دیا بلکہ بمبئی میں مصروف تجارت و حاجیوں کی خدمت میں مگن و مصروف، ہمت و اسقلال کے پیکر، آلمحترم محی الدین منیری صاحب مرحوم کو اپنے جوش و ولولہ کے ساتھ اس دینی مدرسہ کی جلد از جلد شروعات کی ذمہ داری بھی سونپی گئی

. قوم کے تاجر پٹیل باشہ بهاو اور ڈی آئے ابوبکر و اسماعیل کا سایہ عاطفت ان کے ساتھ رہا.اور یوں اینگلو اردو ہائی اسکول میں زیر تعلیم تین ممتاز بچوں کو سمجھا بجھا کر، انہیں اس دینی مدرسہ کا سرمایہ حیات بنائے، محترم ملپا صاحب اور محترم ماسٹر عثمان حسن کی دینی تڑپ اور محی الدین منیری صاحب جیسے جوشیلے جوان سال لیڈر کی کسک وتڑپ اور تجار قوم کا ساتھ، جامعہ اسلامیہ کو وجود بخشنے کا سبب بنا.
انجمن حامی المسلمین کی اولاد مانند، جامعہ اسلامیہ بھٹکل نامی دینی تعلیم کا یہ کارواں 16 شوال 1381 هجری بمطابق 20 اگست 1962 آلمحترم مرحوم برنڈا میراں صاحب کی رہائش گاہ کی اوپری منزل شروع کیا گیا.

محترم مولانا عبد الحمید ندوی کم و بیش چالیس سال تک انجمن حامی المسلمین میں تدریسی خدمات انجام دیتے دیتے قوم نائط کی دینی خطوط تربیت کرچکے تھے.ایک طرف انکے ریٹائرمنٹ کا وقت تھا تو دوسری طرف ان کے شاگردان، ایک اور علم و ادب کا گلستان سنوارنے میں منہمک تھے. زمیندار کے بیٹے تھے روپیوں پیسوں کی کمی نہ تھی آرام کرنے کے وقت “چمن جامعہ اسلامیہ” میں ایک بار پهر “باغبان جامعہ اسلامیہ” کا کردار نبھانے، ایک نئے جوش نئے ولولہ کے ساتھ مصروف عمل ہوگئے. انکے استاد علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمۃ کا انہیں مشن جو پورا کرنا تھا. ان سے کئے عہد و پیماں پر پورا جو اترنا تھا.

اس لئے بحیثئیت معتمد جامعہ ان کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد، طلبا کی بڑھتی تعداد نے سوداگر بخاری اور پهر جامع مسجد کی اوپری منزل مدرسہ جامعہ کو منتقل کروایا گیا. غالبا 1964 اس احقر کو بھی محلہ کے پاولاخلفو کے پاس قرآن سیکھتے سیکھتے اٹھاکر آس جامعہ اسلامیہ کے درجہ عنقلبی ( یل کے جی یا یوکےجی) میں محمود ماسٹر کی زیر سرپرستی، قدیم جامع مسجد تالاب کے اوپر والے صحن میں، اس چمن کی آبیاری سے محظوظ ہونے شامل مدرسہ کیا گیا تها. طلبہ کی بڑھتی تعداد سے مختلف مکاتب، فاروقی مسجد کے متصل تجارتی رہائشی عمارت کی اوپری منزل پر اور اسکے سامنے صدیقہ هندو باپو بهاو کی رہائشی عمارت کی اوپری منزل پر مختلف مکاتب کھلتے رہے. عربی درجات، شمس الدین سرکل کے قریب ساگر روڈ پر کچھ سالوں کے لئے “دامن” عمارت میں منتقل کئیے گئے تھے.

منگلور میں مصروف تجارت مرحوم پوڑکوچو صاحب کے عطیہ کردہ 14 ایکڑ وسیع و عریض اراضی پر 1967 میں جامعہ اسلامیہ بهٹکل کی سنگ بنیاد رکهی گئی اور درمندان قوم کے تعاون سے خود کی عمارت تعمیر کر 1974 میں جامعہ اسلامیہ بهٹکل اپنے اصل مستقر جامعہ آباد آکر، اپنی جولانیوں سے قوم و ملت کو منور و معطر کرنے میں مصروف و مگن ہوگیا. جامعہ آباد بهٹکل میں مولوی شہباز اصلاحی علیہ الرحمہ کی بحیثیت مہتمم جامعہ اسلامیہ, آبیاری گلشن جامعہ کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا.
پتہ نہیں اب تک کتنے حفاظ و عالم و فاضل و فقیہ اس چمن جامعہ سے سیراب ہو کر قوم و ملت کی دینی خطوط آبیاری میں مگن و مصروف ہیں.

اس ادارہ کی چند ایک خصوصیات جو اس احقر کے چشم کے سامنے ہیں. یہ اس لئے بھی کہ وجود انسانئیت کا حسین تر حصہ “لڑکپن” ہم نے اسی جامعہ اسلامیہ میں گزارا ہے. مولوی عبدالحمید ندوی کی شفقت آمیز دور اہتمام ، مولوی یعقوب ندوی کے سخت مزاج والی اہتمامئیت ، قاضیہ ابولحسن ماسٹر کی کان مروڑ پدرانہ شفقت آمیز مہتمئیت کے ساتھ ہی ساتھ محمود ماسٹر، نوری ماسٹر، محی الدین ماسٹر، خان ماسٹر کہ دامداسعید ماسٹر ، شفیع ماسٹر ، مولوی اویس مدنی، مولوی صادق اکرمی، مولوی ملا اقبال ندوی، حافظ رمضان کی شفقت آمیز تربئیت و بیت کنی (لکڑی کی ہلکی مار) کا مزہ چکھنے کا اور جامع کبیر اوپری منزل ، هندا بهاو والی عمارت اور دامن سرکل والی عمارت میں بنیادی دینی تعلیم حاصل کرنے کا اس احقر کو شرف حاصل ہوا یے.

چمن انجمن حامی المسلمین کے اولین پودے جو بعد میں جامعہ اسلامیہ منتقل ہو، عالم و فاضل بن کر تقریبا نصف صد سے قومی اداروں سےمنسلک رہتے، نہایت تدبر و حکمت سے قوم کو خرافات و بدعات سے پاک و صاف کیا ہے قوم نائط اور اس قوم کی موجودہ و آئیندہ آنے والی نسلیں، انکا یہ آحسان فراموش نہیں کرسکتیں. زمانہ طفلی میں آمنے امنے بدهوار کے پهگےکھانے کا معاملہ ہو، محرم کی شیرنی کھانا ہو. یا دس روز تک ہندوؤں کے تہوار کی مماثلت والا، مسجدوں میں مختلف اقسام کے فروٹ تهالی میں سجا ایک خاص موقع پر مسجد میں لانے اور پرساد کی شکل تھالی بھر کے واپس لیجانے کا معاملہ ہو. یا پنجے اور تعزیوں کا جلوس نکالنے کا معاملہ ہو،یا مخصوص راتوں میں ذکر و اذکار کرتے،

محلہ محلہ کا گشت لگاکر، کسی مخصوص مسجد کے صحن میں جمع ہونے اور لکڑیوں کا مدافعتی کھیل آکڑا ، کھیلنے اور میٹھے چاول کا زردہ کھانے کا معاملہ ہو، یا ہاتهوں میں برتن اٹھائے مسجدوں کو روشن رکھنے کے لئے کھوپرے کا تیل مانگنے، گھر گهر گهومنےکا معاملہ ہو، ایسے کئی ایک خرافات سے آج قوم آزاد یے تو یہ چمنستان انجمن کے ابتدائی دنوں کے تلمیذ، عالم و فاضل بن بهٹکل آئے، خلفاء راشدین بوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کی برد باری و جلالئیت، اپنے گلو میں لئے، مولوی صادق اکرمی و حال کے قاضی شہر، مولوی اقبال ملا کا قوم پر کرم و احسان یے. ابھی تین سال قبل، عالم انسانیت کو اپنی قہر سازی کی لپیٹ میں لئے، کورونا وبا نے، بوبکر و عمر والی مصلح قوم جوڑی والے فاروقی جلالی کیفیت اقبال ملا کی روحانیت و مربیت سے قوم کو ماورا کیا تھا لیکن بوبکری نورانیت مربیت والی شخصیت مولوی صادق اکرمی کی شکل ابھی تک قوم کے استفادے میں موجود ہے

آللہ کے فضل و کرم سے،ہم اپنے درمیان موجود بزرگ ترین نورانیت، بردباریت و جلالئیت سے معمور صداقت وصدیقیت سے، کب تک فیض یاب ہوتے ہیں۔یہ اللہ رب العزت ہی بہتر جانتے ہیں. اللہ سے دعا ہے کہ انہیں تادیر پوری صحت کے ساتھ اسی طرح سے قوم و ملت کو اپنی سایہ عاطفت میں لیئے، انکی نورانیت سے ہمیں مستفیض ہونے کی توفیق دے.

ستر کے دیے میں انجمن حامی المسلمین نے ایک بھرپور انگڑائی لے اینگلو اردو اسکول سے انجمن گرلز اسکول، انجمن آرٹس سائینس اینڈ کامرس بوائز کالج، انجمن پری ڈگری ویمن کالج،انجمن ویمن ڈگری کالج کا ایک لامتناہی تعلیمی نظام شروع کردیاہے۔ اور پھر قائد سیاست المحترم ایس ایم یحیی صاحب مرحوم کے سیاست میں آنے کے بعد،انجمن حامی المسلمین کی باکھ دوڑ جب سے جوان سال محتشم عبدالغنی صاحب مرحوم اور آلمحترم دامدا حسن شبر صاحب کی تکڑی جو اس وقت نقاد قوم کی نظر میں غنی شبر یحیی پر مشتمل غشی کہی جاتی تھی انجمن کو کماؤ اولاد مانند انجنیئرنگ کالج دلواتے ہوئے، اپنی ترقی کی معراج پر انجمن کو پہنچا دیا تھا،

انجمن حامی المسلمین کے دوسری تیسری پیڑھی کے ذمہ داروں کی اکثریت اپنے چمن انجمن کی ترقی پزیری و صد سالہ تقریبات دیکھنے سے قاصر انسانیت کی خدمات کا صلہ رب دو جہاں سے وصول کر رہی ہے وہیں پر دوسری یا تیسری پیڑھی کے عہدیدار انجمن ،المحترم دامدا حسن شبر المعروف ڈی ایچ شبر صاحب ایک لمبے عرصے تک سکریٹری انجمن بن کر اس چمنستان انجمن کی آبیاری کی ہے اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔جناب ڈی ایچ شبر صاحب واقعی ایسے قومی خوش قسمت رہبر ہیں جنہیں انجمن کی سلور جوبلی گولڈن جوبلی پلیٹینم جوبلی کے ساتھ ہی ساتھ صد سالہ تقریبات کو بھی دیکھنے کا شرف حاصل ہے۔ 3 جنوری 2019 انجمن حامی المسلمین کی صد سالہ تقریبات کے افتتاحی جلوس میں، سابق سکریٹری انجمن کو اس پیران حالی میں بھی پورے جوش و ولولے کے ساتھ شریک جلوس دیکھ کر بے انتہا خوشی محسوس ہوئی تھی

۔لیکن چونکہ ان کچھ سالوں دوران جناب ڈی ایچ شبر صاحب کے بشمول المحترم عبدالغنی محتشم صاحب المحترم سید خلیل الرحمن صاحب سی اے، سمیت بہت سارے انجمن حامی المسلمین کے خدام ، اپنی خدمات مخلوق خدا کے ساتھ، اپنے پروردگار کی بارگاہ پہنچ چکے ہیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ پاک پروردگار ان تمام مخلص خادمان انجمن حامی المسلمین کو اپنی۔جوار رحمت میں لئے جنت الفردوس کو انکے لئے محجوز رکھے ان کی خدمت خلق کے لئے، بھرپور انعام و اکرام سے انہیں نوازے۔ اور نئی پیڑھی کی نوجوان نسل قیادت کو ، اپنے مرحوم اسلاف کے تجربات کو اپنے میں منتقل کر قومی خدمات کے جذبہ کو اپناتے ہوئے صد سالہ طویل عمر انجمن حامی المسلمین اور مجلس اصلاح و تنظیم و نصف صد سالہ جامعہ اسلامیہ کو ترقی دینے میں استعمال کریں

ابھی حال ہی میں دیار غیر سرزمین عرب امارات انتقال کرگئے قائد قوم جناب ایس ایم خلیل الرحمن صاحب کا دو معیاد تک انجمن کی صدارت سنبھالتے ہوئے اپنی والدہ ماجدہ کے نام سے سات آٹھ کروڑ کے صرفہ سے سرکل کے اور گورنمنٹ ہاسپٹل کے درمیان والی آراضی پر مستورات کی کالج تعمیر کر وقف کرنا یقینا انجمن غلامی المسلمین کے لئے، ایک سنگ میل ہے۔ قوم کے ماضی کےسیاسی قائد المرحوم جوکاکو شمس الدین کے فرزند ارجمند المحترم مرحوم جوکاکو عبدالرحیم کا اپنی خلیجی نوکری ریٹائرمنٹ کے بعد گذشتہ ایک دیے سے انجمن کی خدمت کرنا اور سب سے اہم انجمن کے فارغیں تعلیم یافتگان کا اب حالیہ دور میں انجمن حامی المسلمین کی باگھ دوڑ سنبھالتے ہوئے، مختلف تجارتی کورسز کا انجمن میں اجراء کر، پورے بھٹکل شہر میں پرائمری و ہائی اسکول کا جال بچھانے والا عمل اور سب سے اہم قوم کے اسی فیصد فرزندان و دختران کی تعلیمی تربیت کی ذمہ داری پوری دیانت داری کے اٹھانے کی سکت،

حالیہ عہدیداروں نے جو دکھائی ہے و یقینا قابل تعریف ہے۔ موجودہ دور کے صدر انجمن کی باگ دوڑ سنبھالنے والے ،ایس ایم یحیی و محتشم عبدالغنی، ڈی ایچ شبر و عبدالرحیم جوکاکو و خلیل الرحمن سی اے سے براہ راست تربیت پائے، المحترم یونس قاضیہ صاحب سے، انجمن حامی المسلمین کو بڑی امیدیں وابسطہ ہیں۔ وسط شہر بھٹکل کے آئی اے یو ہائی اسکول کی قدیم عمارت مکمل آنہدام کئے، اس جگہ پر دس پندرہ کروڑ کی لاگت سے، عالیشان کثیرالمنزلہ عمارات کا ایک لامتناہی تسلسل تعمیر کئے، انجمن حامی المسلمین کے ماتحت چلنے والے تمام ہائر سیکنڈری اسکولی نظام، اس نئے تعمیر شد کمپلیکس میں ایک ساتھ رکھے، پوری نگہداشٹ سے ابتدائی تعلیمی معیار بڑھانے کی صدر انجمن کی فکر، اللہ کرے انکی نیابت ہی میں، انکے ذاتی صرفے تکمیل کے مراحل طہ کروائے،انہیں اپنے عہدہ صدارت ہی میں، اپنی موجودگی میں، اپنے حسین خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے دیکھنے کی توفیق عطا کرے اور انکے اس عظیم منصوبے کی تکمیل میں انہیں استقامت عطا کرے اور اجر عظیم سے بھی نوازے۔
آئی ایچ صدیق مرحوم، ایم ایم صدیق مرحوم ، ایف آئے حسن فقیہ مرحوم کے دور اندیشانہ تفکرات کا آئینہ دار 1919 بنیاد پایا انجمن حامی المسلمین نامی یہ تعلیمی ادارہ خان بہادر سید ابوبکر سید محی الدین مرحوم، قوم کے اولین سیاسی رہنما عبدالقادر حافظکا مرحوم( آل مہاراشرا کانگریس پریسیڈنٹ اور سعودی عربیہ کے لئے ہند کے ایمبیسڈر بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے)، جوکاکو شمش الدین مرحوم ( کرناٹک اسٹیٹ الکٹرسٹی منسٹر1957) جناب صدیق محمد یحیی مرحوم(ایس ایم یحیی صاحب لیبر منسٹر، ایجوکیشن منسٹر اوقاف منسٹر اور اسٹیٹ فائیناس منسٹر تک بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا ) امباری سید محی الدین مرحوم ، معلم عبدالقادر مرحوم ، بدرالحسن معلم مرحوم ( ڈسٹرکٹ اوقاف چیرمین ڈسٹرکٹ مائینوریٹی کمیٹی چیرمین بنے،اسٹیٹ کمیٹی ممبر کوآپریٹو اینڈ کو آپریشن) ، محترم عبد الغنی مرحوم، جناب عثمان حسن مرحوم ، جناب ڈی ایچ شبر صاحب مرحوم ، جناب قاید قوم خلیل الرحمن صاحب سی ائے

مرحوم ( جنہیں ایڈوائزر ٹو فنانس منسٹری انڈیا1991، بننے کا اعزاز حاصل رہا ہے، اسلامک پیس ٹی وی اور کنڑا ذرائع ابلاغ وارتا بھارتی کے رکن اثاثی بننے کا اعزاز حاصل بھی یے ) ،جناب قاسمی انصار صاحب مرحوم ،جناب عبد الرحیم جوکاکو صاحب، جناب محترم عبدالرحمن باطن صاحب مرغوم۔جناب ڈی ایچ شبر صاحب مرحوم کےبشمول، ، جناب عبداللہ دامودی مرحوم، ابھی حال ہی کے متوفی جناب محسن کھروی اور ان گنت متوفیان و بقید حیات فرزندان جناب قاضیہ مزمل صاحب کے اپنے خون جگر سے اس تعلیمی ادارے انجمن حامی المسلمین کی آبیاری کی بدولت آج انجمن حامی المسلمین 1919 سے 2025 اپنی تعلیمی سفر کے ایک سو چھ سال پورے کئے،اپنی پہلی سو سالہ سالگرہ تقاریب منعقد کرچکا ہے۔ یہ ادارہ انجمن حامی المسلمین نہ صرف شہر بھٹکل کے لئے بلکہ، نہ صرف پورے نارتھ کینرا علاقے کے لئے، بلکہ جنوب ہند کے لئے ایک مکمل یونیورسٹی کی شکل مسلمانوں کے ساتھ ہی ساتھ برادران وطن کے مابین بھی علم کی روشنی منعکس کرنے میں مصروف و مشغول ہے.
دو اہم شخصیات کا تذکرہ نہ کرنا ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی، ایک آلمحترم حاجی حسن صاحب شاہ بندری کالیکٹ میں مصروف تجارت نائطی تاجر انجمن حامی المسلمیں کے لئے جنکی خدمات فراموش کی نہیں جاسکتیں. موصوف 1920 سے 1962 تک تقریبا 42 سال تک انجمن حامی المسلمین کے مسند صدارت پر براجمان رہے.دوسری اہم شخصیت آلمحترم ظفرالحسن معلم صاحب، گورنمنٹ آف مہاراشٹرا میں وزارت تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے، ریٹائیرمنٹ کے بعد وطن واپس لوٹے تو بحیثیت آفس انچارج پھر جنرل سکریٹری کی حیثئیت سے انجمن کے انتظامی امور سنبھالتے رہے۔ ظفرالحسن معلم کی پہ خوبی تھی

تقریبا چالیس سال تک حکومتی اعلی مناصب پر کام کرتے کرتے نوکر شاہی کے تحکمانہ انداز کے ساتھ، انجمن کے انتظامی امور کو بحسن خوبی جس انداز سے سنبھالا اسکی نظیر نہیں ملتی.بحیثئیت ایڈمنسٹریٹر انجمن حامی المسلمین کام کرتے ہوئے اپنے نوکر شاہی انداز میں اپنی خدمات کے لئے ایک روپئہ تنخواہ مقرر کروائی تھی. غریب اور نادار مسلم طلباء جو تنگدستی کے سب ادھوری تعلیم چهوڑ معاشی سفر پر روانہ ہونے کے لئے پر تولا کرتے تھے، اپنے متعلقین خلیج کے تاجر احباب سے ربط خاص کر، ان نادار طلباء کی تعلیم جاری رکھنے کے اخراجات ان سے حاصل کر، غریب و نادار طلباء کو اعلی تعلیم دلوانے میں ید طولی رکھتے تھے.

سید موسی سید کاظمی لکی مرحوم ایک خاموش طبیعت خدا ترس مخلص خادم قوم جامعہ اسلامیہ بهٹکل کے مستقر جامعہ آباد مین اپنے ذاتی اخراجات سے شعبہ تحفیظ القرآن کی بنیاد رکھ، اپنی ایک ٹانگ کی معذوری کے باوجود خود کهڑے ہوکر تعمیر کرائی تھی.اب تک پتہ نہیں کتنے حفاظ کرام نے اس شعبہ حفظ سے فراغت حاصل کر مختلف مدارس تحفیظ القرآن کے ذریعے کتنے بچوں کو حافظ قرآن بنایا ہوگا اور مرحوم سید موسی کاظمی کے نامہ اعمال کو حسنات سے بھر دیا ہوگا؟
بعض اداروں کا ایک سے زائد ہونا آپس میں مسابقت پیدا کر، اس کے عظیم مقاصد کی بار آوری میں ممد ہوا کرتا یے. جتنے زیادە کلیات جامعات کهلیں گے اتنے ہی زیادە تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کی راہیں کهلیں گی. مانگ کے اعتبار سے کلیات و جامعات کا وجود ناگزیر عمل یے. پچاس سال قبل کی ترجیحات کو کسی بھی اعتبار سے کافی سمجھنا مناسب عمل نہیں ہوتا.

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن سے اڑنا

رستے یہی کٹھن ہیں قوموں کی زندگی میں.

زمانہ کی ترقی کا انحصار معاشرے کے تعلیم یافتگی پر منحصر ہوتا یے. بدری جنگی قیدیوں کی رہائی کے بدلے حصول علم کی حکمت عملی یا حصول علم کے لئے چین تک کے دور دراز سفر کی ہدایات ہم نے اسلام کی بنیاد ہی میں پائی ہیں .ان پچاس سالوں میں، جہاں انجمن حامی المسلمین بھٹکل کو جنوب ھند کا علیگڑھ ثانی کہا جاتا ہے جامعہ اسلامیہ بهٹکل بھی جنوبی ہند کے ندوہ ثانی کے طور ہی جانا جاتا ہے. سب سے اہم بات ہم اہل نائط، اپنی رگوں میں ہم عمر فاروق، علی کرم اللہ ، خالد بن ولید ،طارق بن زیاد جیسا جوش و ولولہ، ایثار و قربانی والا خون دوڑتا ہم پاتے ہیں. ہمارے نوجوان جس میدان کارزار کے گهڑ سوار بنے ہیں ان علاقوں کے مکین کے قلوب کو فتح کرتے ہم نے انہیں پایا یے

.جس شعبہ معاش میں بھی ہم نے قسمت آزمائی ہے اس شعبہ معاش کے سرتاج کے منصب پر ہمیں متمکن پایا گیا ہے۔ ہند و بیرون ہند حتی کے خلیج کی وادیوں میں بھی ہم نے مختلف تجارت میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ ہم تو ہم ہمارے تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل دیگر علاقوں کے مسلم و غیر مسلم طلبہ نے بھی، نہ صرف اپنے فن سے خلیج کے ریگزاروں میں مصروف عمل ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلی مناصب اپنے دامن میں سمیٹے ہیں بلکہ یورپ و امریکہ کی عالمی معیاری کمپنیوں کی باگھ دوڑ پر تک دسترس حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ابھی کچھ سالوں قبل افتتاح ہوا کیرالہ کنور کا انٹرنیشنل ایرپورٹ تعمیر کرنے والے چیف پروجیکٹ انجینئر ،کے ایس شبو کمار بھی انجمن انجینئرنگ کالج کے فارغ التحصیل طالب علم ہیں تھے

انجمن حامی المسلمین کی پہلی صد سالہ تقاریب بعد والے مستقبل کے پچاس تا سو کے لئے، بشمول ہمارے پوری مجلس منتظمہ انجمن حامی المسلمین کی سامنے ایک رائے رکھنا چاہتے ہیں ۔الحمد للہ ہمارے عہدیدارن انجمن کی کاوشوں کے ثمرہ میں، ہمارے مختلف تعلیمی ادارے یونیورسٹی کئی ایک رینک کو اپنے نام کر، پورے علاقے میں انجمن حامی المسلمین کا دبدبہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ اور فی زمانہ اپنی اولاد کو اعلی تعلیم دلوانے میٹرو پولیٹن شہروں میں بھیجنے سے، بچوں کے اخلاقی پستی کا شکار بننے اور تعلیم ادھوری چھوڑ اپنا مستقبل برباد کرنے کے واقعات منظر عام آتے تناظر میں، شہر، بھٹکل کا دینی ماحول اعلی تعلیم حاصل کرتے طلبہ کی اخلاقی اقدار کا ضامن بھی بن سکتا ہے اسلئے علی گڑھ کے طرز پر، سو سال قبل کےانجمن حامی المسلمین کو، علی گڑھ ادارے نے ترقی کے جو سنگ میل حاصل کئے ہیں اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، انجمن حامی المسلمین کو جنوب ھند کا علی گڑھ ثانی بنانے اور پورے ساوتھ انڈیا نہ صحیح آس پاس کی چند ڈسٹرکٹ پر مشتمل، انجمن حامی المسلمین کو مرکزی یونیورسٹی کی شکل دینے کی سعی کی جائے، بیرون بھٹکل مختلف علاقوں کے مسلم طلبہ کو،اعلی تعلیم کے لئے بھٹکل ایک پرکشش تعلیمی مستقر کے روپ میں پیش کیا جائے۔ ایسی کوششیں کی جائیں کہ نہ صرف انجینئرنگ تعلیم کے لئے،بلکہ بی بی اے اور ایم بی اے کی تعلیم کے لئے بھی قرب و جوار کے طلبہ کو، بھٹکل میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے پائے جائیں۔اس کے لئے انجمن کا ایک وفد قرب و جوار کے مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں سے مل کر، ان کے طلبہ کو بھٹکل اعلی تعلیم دلوانے پر آمادہ کیا جائے۔

قرب و جوار سے بھٹکل تعلیم حاصل کرنے آتے ممکنہ بچوں کے لئے، مناسب رہائشی انتظام کئے جائیں، اور انجمن حامی المسلمین کے ماتحت جتنے بھی تعلیمی کورسز ہیں کم از کم ان کورسز کی تعلیم حاصل کرنے والے قومی بچوں کے سرپرست اپنے بچوں کو بھٹکل کے دینی ماحول ہی میں اپنے قومی سرہرستان کی نگرانی والے انجمن حامی المسلمین میں ہی اعلی تعلیم دلواتے ہوئے اپنی اولاد کے اقدار کی حفاظت و نگہبانی کے ساتھ ہی ساتھ اپنے قومی ادارے انجمن حامی المسلمین کی قدر شناسی کرنے والوں میں سے بنیں۔ قرب و جوار کے مسلم بچے مستقلا” انجمن کو دستیاب ہوتے رہیں تو انجمن کو اپنے تعلیمی بہتری کے مواقع بھی دستیاب رہیں گے اور قرب جوار کے مسلم اداروں کو سو سالہ انجمن حامی المسلمین کی سرپرستی بھی حاصل رہے گی اور سبھوں کے ساتھ سے، انجمن حامی المسلمین بہت جلد جنوب ھند کے علیگڑھ ثانی کے طور، اپنا ایک اچھوتا مقام و معیار قائم کرنے کامیاب بھی رہے گا۔ اور قرب و جوارکے کثیر طلبہ کو مشترکہ طور مسابقاتی ملک گیر کورسز میں نمائندگی دلوانے آسانی بھی ہوگی۔

کل کا یہ ننھا پودا انجمن حامی المسلمین اب نہ صرف ایک سایہ دار فواکہہ سے لدا تناور درخت بن چکا یے، بلکہ اس کے اوپر لدے ان گنت فواکہہ کی گٹھلیوں سے کونپلیں پهوٹ ،کئی ایک تناور درخت پورے علاقہ کے مسلمانوں کو فیض یاب کر رہے ہیں. یہ سوچ سوچ کر رشک ہوتا ہے ،ان فکری و عملی بانیان انجمن حامی المسلمین پر ، کہ أب تک ان کے نامہ اعمال میں فیوض و برکات و ثواب جاریہ کا ایک لامتناہی ذخیرہ جمع ہورہا ہے. چاہے وہ مولانا عبدالحمید ندوی علیہ الرحمہ ہوں ، صدیقین ہوں، عثمان حسن مرحوم ہوں یا ابتدائی ادوار سے اب تک اس چمن انجمن کی آبیاری کرنے والے اساتذہ کرام ہوں یا اس چمن کو حیات دوام بخشنے والے تجار قوم و ملت ہوں ان میں جو جو ہم سے پہلے اپنے رب حقیقی کے پاس جا چکے ہیں

اللہ رب العزت سے دعا ہےکہ وہ ان تمام کی اس انجمن حامی المسلمین کی خدمات کے طفیل بال بال مغفرت فرمائے جنت کے اعلی مقام کو ان کے لئے محجوز رکھے اور جو اب بھی ہمارے درمیان بقید حیات ہیں انہیں صحت والی زندگی دے اور ان کے سائے عاطفت سے قوم و ملت کو مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے . اور ان اداروں (انجمن و جامعہ) کے فیوض و برکات سے قوم و ملت کو تا قیامت مستفیض فرمائیے. سرسید احمد کا علیگڑھ کے لئے، علامہ شبلی نعمانی کا ندوة العلماء کے لئے، مولانا محمد قاسم نانتوی اور محمود الحسن علی الرحمہ کا دیوبند کے لئے، اسی طرز پر انجمن حامی المسلمین کے قیام کے لئے المحترم جناب ایم ایم صدیق مرحوم ،

محترم جناب آئی ایچ صدیق مرحوم ، محترم جناب ایف اے حسن مرحوم، محترم عبدالقادر حافظکا مرحوم، محترم ایس ایم یحیی مرحوم، محترم عبدالغنی محتشم مرحوم، محترم بدرالحسن معلم مرحوم کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہم قوم نائط، ان مخلص بانیان و خادمین انجمن حامی المسلمین بهٹکل کے تا ابد ممنون و مشکور رہیں گے. اور آئیندہ آنے والی نسلیں ان کے اس مشن آگہی تعلیم کو پوری ریاست کے کونے کونے پھیلانے کی سعی پیہم ہمہ وقت کرتے رہیں گے. انشاءاللە

آخر میں اس معذرت کے ساتھ موبائیل کی پیڈ پر ہم اپنی انگلیوں کے بےہنگم ناچ کو تھما دیتے ہیں. کہ ہم نے اپنی کمزور یادداشت کے بل بوتے پر اور چند معمر بزرگ وطنی شخصیات سے خصوصی ملاقات کرکے، شہر بهٹکل و آس پاس علاقوں میں تعلیمی افکار کے پروان چڑهنے کا ایک ہلکا نقشہ موجودہ دور کے تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ کے سامنے رکھنے کی بھرپور کوشش کی یے. سو سالہ تعلیمی سفر کا احاطہ کرتے وقت بہت سے مخلص رہبران و سرفروشان قوم و ملت کا تذکرہ رہ گیا ہو تو ہم اس کا اقرار ضروری سمجھتے ہیں کہ اس احقر نے دانستہ اس خطا کو سرزد نہیں کیا پے غیر دانستہ اس لغزش کے لئے معافی کے طلبگار ہیں

.اور نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے التماس کرتے ہیں کہ اپنی بساط بھر اپنے اسلاف کی روشن تاریخ رقمطراز کرنے کی سعی کریں تاکہ آنے والی ہماری نسلوں کے سامنے ان کا شاندار ماضی ہو اور وہ اپنے اسلاف کے تعلیمی مشن و آگہی کو پورے طمطراق کے ساتھ آئیندہ آنے والی نسلوں تک پہنچا سکیں. جو قوم اپنے شاندار ماضی کو یاد رکھتے ہوئے محنت و لگن سے آگے بڑھنے کی جستجو کرتی یے اسے اپنا مستقبل روشن و تابناک کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی . وما علینا الا البلاغ.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں