“سیلاب ہو تو فوج زلزلہ ہو تو فوج میری فوج میرا فخر”
تحریر نعیم الحسن نعیم.
جب آسمان برستا ہے اور دھرتی کا سینہ شگافوں سے بھرجاتا ہے، جب مکان ملبے کا ڈھیر اور بستیاں مٹی کا ڈھلوان بن جاتی ہیں، جب پانی اپنے وحشی روپ میں دریا سے نکل کر گلی کوچوں کو نگلنے لگتا ہے.تب ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے: فوج کو بلایا جائے.زلزلے کی لرزتی دھرتی ہو یا سیلاب کا بے قابو ریلا، حادثے کی اندوہناک گھڑی ہو یا دہشتگردی کا اندھیرا قوم کی نظریں ایک ہی جانب اٹھتی ہیں۔ وہ جوان جو سرحدوں پر کھڑے ہیں، وہی شہر کے ٹوٹے ہوئے پلوں پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔جن کے کندھوں پر بندوقیں سجنی چاہئیں، وہی کندھے لاشوں کا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔ جن کے قدم دشمن کی چوکیوں کو روندنے کے لیے تیار رہتے ہیں، وہی قدم پانی میں ڈوبے گاؤں کے دروازے پر سہارا بن جاتے ہیں.
جنگ ہو یا امن، سردی ہو یا گرمی، صحرا ہو یا دریا، پہاڑ ہوں یا سمندر، بارش ہو یا طوفان، زلزلہ ہو یا سیلاب، انتخابی عمل ہو یا کھیل کا میدان، اندرونی خلفشار ہو یا سرحدوں پر دشمن کی یلغار، افواجِ پاکستان کے چاق و چوبند دستے ہمہ وقت مادرِ وطن پر نثار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بچپن سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک میں خدا نخواستہ کہیں سیلاب آیا تو پاک فوج کے جوانوں نے ہی متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا، جانوروں کو ریسکیوکیا ، بند اور نہریں ٹوٹنے سے پڑنے والے شگاف بھرے اور متاثرین کو اشیائے خور و نوش مہیا کرنے سے لے کر ادویات اور علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی اور ان کی بحالی تک‘ سبھی کام اپنے بنیادی فرائض سمجھ کر سر انجام دیے۔
یہ منظر دل کو حوصلہ بھی دیتا ہے اور سوچ کو کچوکے بھی۔ آخر یہ ذمہ داریاں صرف فوج کے حصے میں کیوں آتی ہیں؟ کیا سیلاب سے لڑنا محکمہ آبپاشی کا کام نہیں تھا؟ کیا زلزلے کے متاثرین کی بحالی این ڈی ایم اے کا فریضہ نہیں؟ کیا ضلعی انتظامیہ کو ایسے دنوں میں اپنا وجود منوانا نہیں چاہیے تھا؟افسوس کہ ہمارے شہری ادارے آفات کے دنوں میں فائلوں کی گرد میں دفن ہوجاتے ہیں۔ان کی موجودگی کاغذوں میں ہے، حقیقت کے میدان میں نہیں۔ یوں عوام کا سہارا، عوام کا اعتماد صرف اور صرف فوج پر ٹک جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں شدید بارشوں کے بعد جب شہروں کی گلیاں دریا بن گئیں، جب چھتیں گرنے لگیں، جب خاندان پانی میں محصور ہو گئے، اور جب حکومت کی سول مشینری ہنگامی ردعمل میں سست دکھائی دی، تو یہی وردی پوش جوان تھے جو بغیر کسی تردد کے پانی میں اتر گئے۔کسی کے بچے کو کندھے پر اٹھا کر محفوظ مقام تک لے جایا، تو کسی بیمار بزرگ کو بانہوں میں اٹھایا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر سلبریٹیز کے فیشن شوز، سیاستدانوں کے بیانات، اور یوٹیوبرز کے جگتیں تو وائرل ہو جاتی ہیں، مگر جو جوان کیچڑ میں گھٹنوں تک دھنسا ہوا ہے، جو ہیلی کاپٹر سے راشن نیچے پھینک رہا ہے، یا جو سیلابی پانی سے دو معصوم بچیوں کو بچا رہا ہے۔
اس کا نام کوئی نہیں لیتا،
فوج کو مدد کے لیے پکارنا قوم کی مجبوری ہے، لیکن اس مجبوری کے پیچھے ہمارے نظام کی ناکامی چھپی ہے۔ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہر بار فوج ہی سب کچھ سنبھالے گی، تو پھر ریاستی اداروں کا وجود کس مقصد کے لیے ہے؟ جب تک ہم ان اداروں کو فعال، جوابدہ اور بااختیار نہیں بنائیں گے،
تب تک یہ صدا یونہی گونجتی رہے گی،سیلاب ہو تو فوج، زلزلہ ہو تو فوج، حادثہ ہو تو فوج، دشمن سرحد پر ہو تو فوج ہر سو فوج ہی فوج۔یہ وہی فوج ہے جس کے جوان کو آپ نام سے نہیں جانتے، مگر وہ آپ کی ماں کو اٹھا کر اسپتال پہنچاتا ہے۔ یہ وہی فوج ہے جس کے پائلٹ نے سیلاب زدہ علاقے میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر بچوں کو بچایا اور بدلے میں اسے کوئی ایوارڈ نہیں،صرف ایک دھندلا سا شکریہ۔
اور پھر سوشل میڈیا پر کچھ بغضی کہتے ہیں فوج کا کام تو سرحد پہ ہوتا ہے ناں؟فوج کوئی احسان تو نہیں کرتی تنخواہ لیتی ہے اپنے کام کی؟ ہےناں؟ فوج کو تو حق نہیں ناں سیویلین معاملات میں مداخلت کا؟ بھئی دنیا کی فوج تو سرحدوں پہ ہوتی ہے ایک ہماری فوج ہے کہ سویلین معاملات میں بھی مداخلت کرتی ہے.لیکن کیا دنیا کی کسی فوج کو آپ نے بالٹیاں اٹھا کر عوام کے گھروں اور گلیوں سے پانی نکالتے، بیلچے گینتیاں اٹھا کر عوام کے لیے نالیاں بناتے، راستوں سے کیچڑ صاف کرتے دیکھا ہے؟ بےشک بغضیوں کی بات بالکل درست ہے کہ دنیا کی فوج سرحدوں پہ ہوتی ہے اور واقعی فوج سرحدوں پہ ہی اچھی لگتی ہے لیکن وہاں کے سویلین اداروں میں اتنی قابلیت ہوتی ہے، وہاں کے حکمرانوں نے اداروں کو برباد کرنے کی بجائے اس قابل بنایا ہوتا ہے کہ وہ ادارے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ فوج طلب کرنے کی بجائے اپنا کام کرنا جانتے ہیں اس لیے انکی فوج کو زحمت نہیں کرنا پڑتی.
پاکستان میں سینکڑوں ادارے ہیں جن میں فوج سے کہیں اچھی تنخواہ ملتی ہے، من چاہی چھٹیاں، آرام، سہولیات، کرپشن، رشوت اور لوٹ کا مال الگ سے یعنی تنخواہ کے لحاظ سے فوج کے مقابلے میں بہتر نہیں بلکہ بہترین ہیں مگر وہاں کے 70 سے 80% سے زائد ملازمین اپنی ڈیوٹیاں ہی سہی سے نہیں کرتے یا پھر عوام کو ذلیل کرنے کو ہی اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں. ان اداروں کے کام بھی فوجی جوانوں کو اسی تنخواہ کے ساتھ کرنے پڑتے ہیں جو تنخواہ انہیں صرف اور صرف اپنے کام یعنی بارڈر پہ رہنے کی ملتی ہے اگر فوج گھروں سے پانی بھی نکالے، نالیاں بھی بنا کر دے، سڑکوں سے کیچڑ بھی صاف کرے، علاج بھی کرے، دوائیں بھی فراہم کرے، اپنے منہ کا نوالہ نکال کر بھی کھلائے، کپڑے بھی دے،
رہائش بھی فراہم کرے، بزرگوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں بھی سنبھالے تو یہ فوج کا کام نہیں فوج کا احسان ہے جس کی فوج تنخواہ نہیں لیتی اور جو ان کاموں کی تنخواہ لیتے ہیں وہ اپنا نہیں کرتے تب ہی فوج سرحدوں سے کام کرنے آ جاتی ہے.اب کیسی کو کیڑا کاٹے ناں کہ فوج یہ بھی احسان نہیں کرتی ساری دنیا کی فوج یہ کام کرتی ہے.تو ساری دنیا کی فوج جب اپنی عوام کے لیے یہ سب کرتی تو وہ بجائےفوج پہ بھونکنے کے انکی احسان مند بھی ہوتی ہے، انکی شکر گزار بھی ہوتی ہے.
ہم اکثر مغرب کی افواج کو فلموں میں دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔ مگر یہاں ہمارے درمیان وہ اصل ہیرو موجود ہیں جن پر کوئی فلم نہیں بنتی، کوئی ناول نہیں لکھا جاتا، اور کوئی قومی ترانہ ان کے لیے مخصوص نہیں ہوتا مگر وہ پھر بھی اپنے فرض کی راہ سے نہیں ہٹتے۔پاک فوج کے ان گمنام ہیروز کو ہمارا سلام انہیں صرف نعرے کی نہیں، بلکہ عمل کی سطح پر عوامی قدر کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی کاوشوں کو اجاگر کریں، میڈیا پر سراہیں، ان کے انٹرویوز لیں، ان کی خدمات کو قومی بیانیے میں جگہ دیں.
پاکستان زندہ باد پاک فوج زندہ باد