73

کیامعافی مانگنے پر بخش دیے جائیں گے!

کیامعافی مانگنے پر بخش دیے جائیں گے!

ہر دور حکومت میں افواہیں گردش میں رہتی ہیں ، اس نظام مملکت کے بارے میں بھی کئی ماہ سے افواہیں گردش میں ہیں کہ اس میں بڑی تبدیلیاں واقع ہونے والی ہیں،سیاسی اور عسکری حلقوں کے درمیان پہلے جیسی باہمی اعتماد کی فضا برقرار نہیں رہی ہے،اس بار بھی سیاسی قیادت کی کارکردگی سے عسکری قیادت مطمئن نہیں رہی ہے، اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کے بارے عسکری حلقے مایوسی کا شکار ہورہے ہیں اورحالات کسی تبدیلی کی جانب جارہے ہیں، صدر مملکت اور وزاعظم اپنے منصب سے سبکدوش ہونے والے ہیںاور ان کی جگہ کوئی دوسرے آنے والے ہیں،اس کی تردید کے باوجودافواہوں کا سلسلہ بند نہ ہو سکا توا ٓرمی چیف کو خود دوٹوک الفاظ میں واضح کرنا پڑا ہے کہ تبدیلی کی تمام افواہیں سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں، یہ افواہیں پھیلانے والے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے ہی مخالف ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ان افواہوں کے پیچھے حکومت مخالف قوتیں ہی کار فر ما ہوتی ہیں ،مگر ان افواہوں میں حکو مت کے کچھ اپنے بھی شریک کار ہوتے ہیں، اس کے باعث ہی افواہوں میں نہ صرف تیزی آتی ہے ، بلکہ افوہیں حقیقت کا روپ بھی دھارتی دکھائی دیتی ہیں ، اس دوران تصدیق اور تر دید کاسلسلہ بھی چلتا رہتا ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ،ایک طرف حکومت کے وزراء تر دید کررہے ہیں تو دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر واضح کررہے ہیںکہ فیلڈمارشل کے صدر بننے کی باتیں مکمل طور پر بے بنیاد ہیں، لیکن ان وضاحتوں کے باوجود افواہوں کا سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے اور روایتی، سماجی دونوں قسم کے ذرائع ابلاغ پر افواہیں سرگرم رہی ہیں ،اس حالات کے پیش نظر ضروری ہو گیا تھا کہ آرمی چیف بذات خود اپنے اہل وطن اور پوری دنیا پر واضح کردیں کہ وہ کس طرح سوچ رہے ہیں۔
یہ ضرورت فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کے ذریعے بتمام و کمال پوری کردی ہے، آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کردی ہے کہ تبدیلی کی تمام افواہیں سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں، افواہیں پھیلانے والے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے ہی مخالف ہیں، اس ملک کا خدا نے محافظ بنایا ہے، اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں ہے، سیاسی مفاہمت کے سوال پر آرمی چیف کا نومئی کے واقعات کے تناظر میں مؤقف ہے کہ مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے ہی سے ممکن ہے، غلطی کو تسلیم نہ کرنا شیطان کی پیروی کے مترادف ہے،

آرمی چیف نے موجودہ سیاسی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کی انتھک محنت اور دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے جنگ کے دوران جس عزم کا مظاہرہ کیا ہے ،وہ قابل تعریف ہے۔اس اظہار خیال کے بعد ہر شک و شبہ دور ہوجاتاہے کہ ملک کاموجودہ نظام سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں کوئی دراڑ پڑنے کا کوئی خدشہ دور دور تک نظر نہیں آتا لہٰذا افواہوں کا سلسلہ جاری رکھے جانے کئی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے،اس کے باوجودکچھ ایسا ضرور ہے کہ بحث ہورہی ہے

،اس کو ہی بیا نیہ بنایا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ معافی تلافی کے بغیربات ہو سکتی ہے نہ ہی معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں ،کیا بانی پی ٹی آئی معافی مانگنے پر راضامند ہو جائیں گے اور بقول مقتدر حلقوں کے شیطان سے فرشتہ بن جائیں گے ، اس کے دور تک آثار نظر نہیں آرہے ہیں ، کیو نکہ اگر ایسا ہی کچھ کر نا ہوتا تو بہت پہلے کر چکے ہوتے ، اتنی دیر تک قید وبند کی سختیاں برداشت نہ کرتے ،اس لیے معافی تلافی ہوتی دکھائی دیتی ہے نہ ہی رہائی ہوتی دکھائی دیے رہی ہے ، بات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہی ہے ، کیو نکہ اس نظام کو اب دس سے پندرہ سال چلانے کی بات ہورہی ہے ۔
آئے کاش کہ ہم نے ہائبرڈ نظام کے بجائے ،حقیقی آزادی اور جمہوریت کے لیے سیاسی تعمیر نَو کی ہوتی؟ مگر ابھی تک ہم انہی پرانے دقیانوسی طریقوں پر چلے جا رہے ہیں،آج بھی سڑکیں بنا کر اور بازاروں سے ریڑھیوں والوں کو ہٹا کر عوام کو سستی خوشی کے لالی پاپ دیے چلے جا رہے ہیں،اس سے عوام بہلنے والے ہیں نہ ہی ان کے ساتھ چلنے والے ہیں،عوام چاہتے ہیں کہ کر پٹ حاکموں کو ان کے کردہ گناہوں کی سزائیں دی جائیں، لیکن اس ملک میں پہلے مجرم اور کرپٹ بنا کرقانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے

،بعد ازاں صادق و امین بنا کر نہ صرف چھوڑ دیا جاتا ہے ،بلکہ عوام کے فیصلے کے بر خلاف اقتدار بھی سونپ دیا جاتا ہے اور ان کے سیاسی مخالف کو پا بند سلاسل رکھ کر کہاجاتا ہے کہ سچے دل سے معافی مانگ لیں تو بخش دیے جائیں گے ،یہ کیسی جمہوریت اور کیسا انصاف ہے ، جمہوریت تو اپنے عوام کو با اختیار بناتی ہے اور اس کے ہی فیصلے پر عمل درآمد کرواتی ہے ،اگر ایسا نہیں ہے توپھرجمہوریت کا لبادہ اوڑھے ایک نقلی حکومت ہی ہوسکتی ہے،اس حکو مت کو ہائبرڈ کہا جائے یا آمرانہ کہا جائے ، جمہوری حکو مت کسی صورت نہیں کہا جاسکتا ہے۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں