قوم فو ج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ! 108

رقص زنجیرپہن کربھی کیا جاتاہے

رقص زنجیرپہن کربھی کیا جاتاہے

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

ماضی میںحریت پسند مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہدپر مبنی ایک فلم’’ زرقا‘‘ میں معروف انقلابی شاعر جبیب جالب کا ایک معرکتہ آرا نغمہ بھی شامل تھا
رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتاہے
یہ نغمہ آج بھی مقبول ہے آزادی کے متوالے ہوں یا مظلوم حریت پسندوںکی جدوجہدکے حامی جب بھی یہ نغمہ سنیں دل کے تار کھڑک جاتے ہیں یہ اس لئے بھی یاد آیا کہ امریکی صدررو نالڈ ٹرمپ کے دورے کے موقعہ پر ان کے استقبال کے دوران ابوظہبی کے حکمران اور یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کی موجودگی میں روایتی اماراتی ثقافتی پرفارمنس پیش کی گئی جس نے سوشل میڈیا صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ اس روایتی اماراتی ثقافتی پرفارمنس کا نام ’العیالہ رقص‘ ہے

جسے نوجوان اماراتی لڑکیوں نے پیش کیا، جس میں وہ دھن پر زلفیں لہراتی دکھائی دیں نوجوان اماراتی دوشیزائوں کا اپنی زلفیں لہرا کر ڈانس پرفارم کرنا انٹرنیٹ صارفین کو تجسس میں مبتلا کر گیا کہ یہ العیالہ رقص کیا ہے اور یہ روایت کب سے چلی آ رہی ہے؟ ’العیالہ رقص‘ کیا ہے؟ ماضی میںکیا تھا؟العیالہ دراصل شمال مغربی عمان اور متحدہ عرب امارات کا روایتی رقص ہے جو شادی بیاہ اور قومی دن سمیت ہر خوشی کے موقع پر مرد و خواتین کی جانب سے خوشی اور یکجہتی کا جشن منانے کیلئے کم از کم 3 دن کیا جاتا ہے۔

اماراتی روایتی رقص العیالہ یا خواتین کا مقامی رقص نعشات اس ملک کی ثقافتی شناخت اور اقدار کو ظاہر کرنے کا ذریعہ ہے، جس میں خواتین دھن پر اپنی زلفوں کو دائیں اور بائیں جانب لہراتی ہیں۔ یہ مہمانوں کے استقبال اور ان کے احترام کی علامت ہے۔ ایک رپورٹ کے میں کہاگیاہے کہ العیالہ رقص کرنے والے تقریباً 20 مرد 2 قطاروں میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں بانس کی چھڑیاں ہوتی ہیں، جو نیزوں یا تلواروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ دف اور طبل کی دھن پر قطاروں میں یہ رقص پیش کیا جاتا ہے جسے اتحاد، فخر اور ورثے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ رقص پرفارم کرتے ہوئے

مرد و خواتین روایتی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ یہ منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور صارفین کی جانب سے تجسس اور حیرت کا اظہار کیا گیا کہ آخر اس استقبال کو کیا کہا جاتا ہے؟ ”العیالہ” جنگی منظر کی علامتی نقالی ہے، جو شادیوں، تہواروں اور سرکاری تقریبات میں دکھائی جاتی ہے۔ اس میں مرد بانس کی چھڑیوں کے ساتھ صف بندی میں رقص کرتے ہیں، جب کہ خواتین ڈھول کی تھاپ پر اپنے بالوں کو ہوا میں لہراتی ہیں۔ یہ رقص یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم بھی کیا جاچکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ٹرمپ کے دورے کے دوران العیالہ رقص کیوں پیش کیا گیا؟ کیونکہ یہ روایتی رقص عام طور پر شادیوں میں کیا جاتا ہے، جو خوشی اور یکجہتی کو ظاہر کرتا ہے

۔ اس رقص کو عید کی تقریبات، قومی دن اور سرکاری تقریبات میں مہمانوں کے استقبال کیلئے بھی کیا جاتا ہے، جو اماراتی مہمان نوازی، خوشی اور شمولیت کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے ۔کہاجاتاہے کہ 17 برسوں میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر رو نالڈ ٹرمپ کی آمد پر ان کے احترام میں اس روایتی رقص کو پیش کیا گیا تھا۔ جس میں دونوں اطراف میں سج دھج کے ساتھ خواتین موسیقی کی دھن پر اپنی زلفوں کو دائیں اور بائیں جانب لہراتی ہیں۔ اماراتی روایتی رقص العیالہ یا خواتین کا مقامی رقص نعشات اس ملک کی ثقافتی شناخت کو اجاگر کرتاہے یہ رقص کئی صدیوں پر محیط ہے

ماضی میں بھی ایک امریکی سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنے دورِ اقتدار میں متحدہ عرب امارات کا دورہ یہ رقص پیش کیا گیا تھا جسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئے تھے ۔ بہرحال ایک ایسے وقت میں جب اسرائیلی درندوں نے غزہ میں ہزاروں معصوم بچوںکا قتل عام کیا جاچکاہے اور آج بھی یہودیوں کے حملے جاری ہیں اس ماحول میں سوشل میڈیا پر اس رقص پر تنقیدکی جارہی ہے کہ مسلم حکمرانوں کو امت ِ مسلمہ کے اتحاد،مسلم ممالک میں جہالت ،غربت اور بیماریوںکے خاتمہ کیلئے بھرپور وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے کیونکہ شام ،عراق،لبنان،مقبوضہ کشمیر، فلسطین سمیت درجنوں مسلم ممالک میں آج بھی مسلمانوںکی زندگی وبال بنی ہوئی ہے حالات اتنے ابتر ہیں کہ آج فلسطین میں تو رقص زنجیر پہن کر نہیںکیاجاسکتاامریکی ذرائع ابلاغ نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے

جس کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غزہ کے ایک ملین (10 لاکھ) فلسطینیوں کو مستقل طور پر لیبیا منتقل کرنے کی ایک خفیہ منصوبہ بندی پر کام کرتی رہی ہے اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو لیبیا میں آباد کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جس کے بدلے میں ٹرمپ حکومت لیبیا کے ان اربوں ڈالر کے اثاثے بحال کرنے پر آمادہ تھی، جو کئی برس قبل منجمد کیے گئے تھے۔ یہ رقم ایک دہائی سے امریکی مالیاتی کنٹرول میں ہے، اور اس کی بحالی لیبیا کے لیے معاشی لحاظ سے نہایت اہم تصور کی جاتی ہے

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں فلسطین اسرائیل تنازع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ 17 سے 20 جون کے درمیان منعقد ہونے والی اس کانفرنس کو فرانس اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے، اور اس کی قیادت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی مشترکہ طور پر کرے گی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی اس سلسلے میں سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری انسانی بحران اب ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، اور وہ جلد اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر سے اس مسئلے پر براہِ راست بات چیت کریں گے۔
اس تمام پس منظر میں فروری میں دیا گیا سابق صدر ٹرمپ کا ایک متنازع بیان بھی اہمیت رکھتا ہے، جس میں انہوں نے غزہ پر امریکا کے قبضے کی بات کی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ امریکا غزہ پٹی کا مالک بنے گا تاکہ اس علاقے میں استحکام لایا جا سکے، اور لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ ان کے بقول، امریکا اس خطے کو جدید بنائے گا، مقامی افراد کو روزگار فراہم کرے گا اور ایک نئی شہری زندگی کا آغاز کرے گا۔ اس بیان اور حالیہ انکشافات نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے علمبرداروں اور فلسطینیوں کے حامی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کردی ہے۔ کیونکہ یہ منصوبہ محض جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے زبردستی انخلا اور شناخت کی ممکنہ تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے

۔ اس منصوبے کو روکنے کیلئے مسلم حکمرانوں کو مربوط حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ قبلہ اول سے مسلمانوںکا نام و نشان ختم ہو جائے گا غیر مسلم حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے روایتی رقص پیش کرنے کی بجائے پونے دو ارب مسلمانوںکے اتحادکی طرف پیش رفت ناگزیرہے سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے سچ کہا تھا غیرت و حمیت ختم ہو جائے تو تلواریں محض رقص کے کام آتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں