86

شعورکی بیداری

شعورکی بیداری

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

رشید شیدے کا سانس پھولاہوا تھا چہرہ سوالیہ نشان، سرکے الجھے بال منہ سے بے ربط الفاظ نکل رہے تھے، کپڑے پسینے میں شرابور اس عالم میں بھی وہ سراسیمگی سے باربار مڑکردیکھ رہاتھا اس نے بڑی مشکل سے بائیک کو بریک لگائی و ہ گرنے سے بال بال بچا تھا حمیدمیدے نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپکی کے اندا زمیں تسلی دی اس کی حالت دیکھ کر میں نے پوچھ ہی لیا کیا بات ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ اس نے بولنا چاہا لیکن شاید الفاظ حلق میں ہی دم توڑ گئے تھے ۔۔میں پھر گویا ہوا شیدے کیاہوا لگتاہے

تم موٹرسائیکل کو سر پر اٹھاکرلائے ہواس سے ابتر حالات میں۔۔ میدے نے لقمہ دیا اس نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا وارڈن نے دیکھ لیا یہ نظر بچاکربھاگنے لگا لیکن شاید وہ اس کا ارادہ بھانپ گیا اور اپنی ہیوی بائیک پر اس کا پیچھا کرنے لگا وہ تو غنیمت تھا کو شیدے کو تمام راستے ازبر تھے ایک پتلی سی گلی میںوارڈن کو چکمہ دے کر آپ کے پاس آگیاکہ اس نے پکڑبھی لیا تو ایک صحافی جان چھڑادے گا۔
’’ ہیلمٹ پہنا کرو نا میں نے اسے تنبیہ دیتے ہوئے کہاجناب اتنی گرمی میں میراتو سانس بند ہوجاتاہے شیدے نے کہا آپ کو تو معلوم ہی ہے نا میں دمے کا مریض ہوں ہیلمٹ پہن کر دو تین بارچکرا کر گر بھی چکاہوں مگر قانون کے رکھوالوںکو اس کا ادراک ہی نہیں ہم غریب جائیں بھی تو کہاں جائیں کس سے داد فریاد کریں میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا وہ بولا تو پھر بولتا ہی چلا گیا وہ کہہ رہا تھا ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانہ1000 روپے غلط جگہ پارکنگ پر جرمانہ 1000 روپے ممنوعہ جگہ کی طرف گاڑی کے داخلے پر جرمانہ 500 روپے بائیک پر تین افراد بٹھانے پرجرمانہ 2000 روپے پلاسٹک کے ہیلمٹ پہننے پر جرمانہ 5000 روپے ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی پر جرمانہ 1000 روپے ون وے پر جرمانہ 2000 روپے بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے پر جرمانہ 2000 روپے کردیا گیاہے

بجٹ میں غریبوں پر الگ ٹیکسز لگادئیے گئے ہمارا تو جینا عذاب بن گیاہے ۔ حمیدمیدا بولا جناب گورنمنٹ کا مطلب میں نے سنا تھا وہ سرکار جو عوام کی فلاح وبہبود کیلئے منٹ منٹ پرغورکرے لیکن ہمارے ساتھ ہوکیارہاہے؟ اپنی حالت اور ملک کے حالات دیکھ کرمیرا تو مغز پنبیری کی طرح گھوم گیاہے حکومت نے ٹیکس لیناہے تو لے ہمیں کوئی اعتراض نہیں حکومت نے جرمانہ لیناہے تو بے شک جرمانہ کرے اس کا حق ہے لیکن غریبوں کے حالات اور زمینی حقائق دیکھتے ہوئے ٹیکسز لگائے یا جرمانوںکی شرح مقررکرے لیکن ہمیں تو یو ں محسوس ہوتاہے حکومت نے ہرادارے ہر قانون کو کمائی کا ذریعہ بنا لیاہے۔

رشید شیدے نے کہا وفاقی بجٹ میں حکومت نے1400 اب کے نئے ٹیکسز لگائے ہیں،بجلی و گیس کے ظالمانہ سلیپ ریٹ پر لوگ یہ ستم ایجادکرنے والوںکو روزانہ بددعائیں دیتے ہیں اس کا اب دوسرے پہلو پر کسی صحافی ،کسی حکومتی نمائندے کسی سیاستدان حتیٰ کہ کسی اپوزیشن رہنما نے بھی غورکرنے کی زحمت گوارانہیں کی رشید شیدے کے لہجے میں بلاکی تلخی تھی
اس نے کہاپورے ملک کی سڑکوں پر بے شمار گڑھے کھڈے ہیں جن کے باعث حادثے ہورہے ہیں کوئی ادارہ ،کوئی محکمہ ،کوئی وزیر، کوئی افسرذمہ دار نہیں، چوک پرناکارہ سگنل لائٹس، ٹریفک کابراحال۔ کوئی ذمہ دار نہیں،

سڑکوں کی کھدائی کے بعد ان مرمت نہیں ہوتی اس کا کوئی ذمہ دار نہیں،سڑک پر سیاسی فلیکسز اور بینرز اور کاروباری اشتہاری بورڈ لگانے سے ٹریفک میں خلل کا بھی کوئی ذمہ دار نہیں،فٹ پاتھ پر بیشمار تجاوزات، ریڑھیاں پارکنگ کے مسائل پھربھی کوئی ذمہ دار نہیں،سڑکوں گلی محلوں میں گندگی کے ڈھیر، ابلتے گٹر، کچرا کنڈیاں کی بہتات کوئی ذمہ دار نہیں،سڑکوں پررات کے اوقات میں روشنی کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں اس کا بھی کوئی ذمہ دار نہیں سرکاری دفاتر میں عوام سے بے رحمانہ سلوک عام آدمی کی عزت ِ نفس کو مجروح کرنا عام سے بات ہے تھانے ،کچہری کا نظام ہر شریف آدمی اپنے حق کے لئے وہاںجانے سے کتراتا ہے

اس کابھی کوئی ذمہ دارنہیں ،ایسا لگتا ہے کہ عوام صرف مجرم ہیں اور جرمانے ادا کرنے کے لئے اس دنیا میں آئے ہیں اس کے لئے کوئی ادارہ ،کوئی محکمہ ،کوئی وزیر، کوئی افسرذمہ دار نہیںانتظامیہ اور حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیںشاید ان پر کوئی قانون کوئی قواعد و ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔ وہ مسائل کے حل کے بھی ذمہ دار نہیں کیا مسائل حل کرنا ان کی ڈیوٹی نہیں ان کی دمہ داری نہیں کیاانہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے؟ شہری فرائض ادا کریں شہری ہرتکلیف کا سامنا کریں شہری ٹیکس ادا کریں شہری حکومت کا خزانہ بھریں اور حکومت ہمارے ٹیکسوں سے عیاشیاں کرے مطلب یہ ہے کہ عوام ٹیکسز دینے سے انکاری نہیں

لیکن اس کے عوض عوام کو سہولیات فراہم کرنا بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے لئے وہ ناکام ہوچکی ۔ پاکستان آزاد تو77سال پہلے ہوگیا تھا لیکن یہاں عام آدمی آج بھی محکوم بلکہ اشرافیہ کا غلام ہے صدر ،وزیر ِ اعظم، گورنر، ارکان ِ اسمبلی ، وزیروں مشیروں،بیوروکریسی پر مشتمل اشرافیہ جب چاہے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ہزاروں فیصد ا ضافہ بھی کرلے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں جو پوچھنے کا گناہ کرلے اسے ریاست کا غدار قراردینا معمول بن گیاہے عام آدمی کے حا لات تبدیل ہونے چاہئیں

پاکستان کے آئین نے عوام کو جو حق دیاہے وہ لینے کی جدوجہد ہر پاکستانی پرفرض ہے یہ سب عوام میں بیداری پیدا کرنے سے ہی ممکن ہوگا دانشور،صحافی ،شاعر ،ادیب عوام میں شعور پیدا کریں اپنے حق کے لئے صدائے احتجاج بلند کرناہوگی پرامن احتجاج اور اپنے حقوق کیلئے شعورکی بیداری پہلا مرحلہ ثابت ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں