کاش کہ ہمارے علماء کو، ٹرپل طلاق بل ۲۰۱۷ سے بصیرت ملے، انہیں یکجٹ کیا ہوتا
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
ایک محفل دی ہوئی تین یا تین سے زاید تمام تر طلاق کو اسلام ایک ہی طلاق تصور کرتا ہے
مختلف اخبارات میں ۱۵ مئی ۲۰۱۷( ٹرپل طلاق قانون بل سے دو ماہ پہلے) لکھے اور طبع شد مضمون اور انہی ایام علماء دیوبند کے فیس بک پیچ پر آویزاں رہ چکے مضمون، قارئین کی یاد دہانی کے لئے دوبارہ پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں. اگر وقت رہتےمسلم پرسنل بورڈ کے علماء کرام نے جائز ایک محفل تین طلاق مغلظہ پر اتفاقی فیصلے سے، خود سے روک لگانے کا فیصلہ لیا ہوتا تو، سپریم کورٹ کو، مسلم دشمن بی جے پی حکومت وقت سے چھ ماہ کے اندر یک محفل تین طلاق پر روک لگانے والا قانون نفاذ کی ہدایت دینی ہی نہ پڑتی. اور آزاد ھند کی، علی الاعلان مسلم مخالفت کا اظہار کرتی
مسلم دشمن مودی امیت شاہ حکومت کو، “مسلم خواتین (شادی کے حق کا تحفظ) ایکٹ 22 اگست 2017” کو عالم کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی پارلیمنٹ میں پاس کرنے کی نوبت ہی نہ آتی اور نہ ہی اکثریتی مسلم دشمن حکومت کے، یک محفل تین طلاق پر قانون بنانے کے بہانے یکساں سول قانون کے انکے اپنے پرانے ایجنڈے پر عمل پیرائی کا انہیں موقع ملتا اور نہ ہی اس ملک کے سیکیولر آثاث ڈھانچے کو ہندو راشٹریہ کی طرف گامزن کرنے کی راہ، ہمارے علماء کرام کی کوتاہیوں سے انہیں مل پاتی.
“لاتوں کے بھوت باتوں کو نہیں مانا کرتے” مثل مصداق مسلم دشمن مودی جی کے ٹرپل طلاق بل والے ڈنڈے کو، بھارتیہ قانون کاحصہ بننے کے بعد ، نہ چاہتے ہوئے بھی، ھند کےجمہور علماء کرام یک محفل تین طلاق کے خلاف ایک آواز جو اب سر زنش کر رہے ہیں، مسلم پرسنل بورڈ، ایام محمد صلی اللە وعلیہ وسلم اور دور خلافت بوبکر رضی اللہ عنہ کی روشنی میں یک محفل تین طلاق کے خلاف فتوی صادر کرتے ہوئے
یک محفل دی ہوئی تین طلاق کو ایک ہی طلاق وقوع پزیر ہونے کے تاریخی فیصلہ پر علماء ھند متفقہ عمل کرتے ایک محفل تین یا تین سے زاید دی گئی طلاق کو ایک طلاق والے فیصلہ کو مسلم علماء کا جمہور فیصلہ تسلیم گر کیاگیا ہوتا تو، سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کے تمام دروازے ہی بند ہوگئے ہوتے.
“تین طلاق کامسئلہ، مسلم پرسنل لاء اور اس سمت عام آگہی کی فکر”
“قانون کے تمام پہلوؤں کے بارے میں نہ جاننا، سزاء جرم سے بچنے کے لئے قابل معافی نہیں ہوتا” , “Ignorance of the law is not excusable”
دنیوی قانون قاعدے ہوں کہ اسلامی احکام, اس کےبارے عام انسانوں کو جاگرکتا یا آگہی حاصل کروانے کی ذمہ داری جہاں حکومت وقت یا زمام اقتدار اعلی کے مناصب پر بیٹھے لوگوں کی ہوتی ہے، وہیں پر ہم عام انسانوں یا مسلمانوں کی بھی یہ ذاتی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملکی قانون یا اپنے دین اسلام قانون کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی اپنے طور بھی فکر کریں۔عام قانون عموما ہمیشہ یکسان ہی ہوتے ہیں لیکن وقتا فوقتا تبدیل کئے گئے قانون کی جانکاری دی جاتی رہنی پڑتی ہے۔
دین اسلام کے قانون یا احکام قرآنی بغیر تبدیل کئے ہمیشہ کے لئے ایک ہی جیسے قابل عمل ہوا کرتے ہیں لیکن اجتہادی بعض شقیں جو علماء وقت حالات کے اعتبار سے نافذالعمل کرتے ہیں اس کو مناسب انداز سےعوام کے سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔جیسے ایک محفل تین طلاق کے وقوع پزیر ہونے کے اجتہاد کو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمام اقتدار میں، جس طرح نافذ کیا گیا۔ اسی ایک محفل تین طلاق کے مسئلہ کو نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی سخت ناپسندیدگی کے چلتے، فی زمانہ علماء حق اجتہادی اتفاقی فیصلہ سے ناقابل قبول قرار بھی دے سکتے ہیں۔
اسلام میں جہاں نکاح کو آسان تر اور پسندیدہ عمل ٹہرایا گیا ہے, وہیں پرطلاق کوجائز احکام میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مشکل ترین عمل بنایا گیا تھا۔ لیکن فی زمانہ ہم مسلمانوں نے، نکاح کی سنت کو مختلف رسوم و رواج سے جوڑ کو انتہائی مشکل سنت اور طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کو اپنی کم علمی اور علماء کرام کی بے توجہی کے سبب آسان ترین عمل بنا کے رکھ دیا ہے۔راہ چلتے لگنے والے کانٹے کی معمولی ٹیس پر آخرت میں اجر ملنے کی خوش خبری سنانےوالے,نبی آخرالزماں کے ہم امتی، آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم کی ہدایات و ناپسندیدگی کے عین خلاف، ایک محفل تین طلاق کے اپنے مکروہ عمل سے صنف نسوان کی زندگیوں کو اجیرن جو بناتے ہیں،کیا ہمیں بعد موت اللہ کے قہر و جبر اور عذاب نار جہنم کی فکر نہیں ہے؟
سابقہ کئی صد سے ایک محفل تین طلاق کو, واضح قرانی احکام کی روشنی میں علماء حق کے ایک طبقہ، اہل حدیث نے ایک ہی تصور کرتے ہوئے، نہ صرف ہزاروں لاکھوں گھروں کو اجڑنے سے بچایا ہے بلکہ علماء مقلدین کو بھی، ایسے ایک محفل تین طلاق کے تائیب جوڑوں کو اہل حدیث علماء سے رجوع ہونے کی صلاح دیتے پایا گیا ہے۔ علم و آگہی کے فقدان کی وجہ، وقتی ناراضگی سے سرشار، گرم خون کے جوش سے بھرے نوجوان جوڑوں میں، وقتی جذبات کے تحت دئیےگئیے ایک محفل تین کیا
تین سے زاید طلاق سے، تائیب جوڑوں کی، آپسی مفاہمت کی چاہ ورغبت کے چلتے، باہمی ازدواجی بندھن کو جاری و ساری رکھنے کی خاطر علماء سوء کی طرف سے سجھائے مکروہ تر عمل، حلالہ سے احتراز کرتے ہوئے، ایک محفل ایک سے زاید کہے جانے والے لفظ طلاق کو، ایک ہی محمول کیوں نہیں قرار دیا جاسکتا؟ اگر صنف نازک کی طرف سے محکمہ شرعیہ میں یا قاضی شہر کے پاس خلع کی درخواست آتی ہے تو شوہر نامدار کو طلب کرکے، اسے سمجھاتے بجھاتے، خود سے تین طلاق دینے پر اسے کیوں راضی کیا جاتا ہے؟ تین طلاق دینے یا دلوانے پر زور کیوں کیا جاتا ہے؟ ایک طلاق پر اکتفا کرنے کا ماحول کیوں استوار نہیں کیا جاتا؟
ایک طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران اسلامی حکم مطابق ساتھ رہتے یا جدا جدا رہتے، طلاق کے فیصلہ پر پشیمان جوڑے کے درمیان، مفاہمت کی راہ تلاش کی جا سکتی ہیں۔اگر ایک طلاق کے بعد عدت دوران مفاہمت نہ ہو تو طلاق واقع ہوتے ہوئے, صنف نازک کسی دوسرے مرد کے ساتھ اپنا ازدواجی سفر شروع کرنے کے لئے آزاد ہوجاتی ہے۔اور ایک طلاق واقع ہونے کے بعد، مرد آہن کے، دوسری شادی کر لینے کے باوجود، اگر صنف نازک کسی دوسرے سے شادی کرنے کے لئے آزاد رہتے، دوسری شادی کرنے میں ناکام رہتی ہے تو، دونوں میں ایک طلاق بونے کے سبب اگر دونوں چاہیں تو صرف دوبارہ نکاح کرتے ہوئے,آپس میں دوبارہ ازدواجی سفر شروع کر سکتے ہیں۔ شروع میں ہی معمولی جھڑپ یا تکرار پر تین طلاق دینا یا دلوانا قرآنی تعلیمات کے عین منافی عمل ہے اس سے پرہیز لازم ہے۔
اسلامی تعلیمات کے فقدان اور طلاق کے شرعی اوصول و ضوابط سے نابلد، تین طلاق کی ماری، بے کس صنف نسواں کے ساتھ، معاشرہ میں ایک حد تک انصاف نہ ہونے کی سبب، فاشسٹ طاقتوں نے، ان مطلقہ عورتوں کو اسلامی تعلیمات سے برگذشتہ کرنے کی راہیں تلاش لی ہیں اور انہیں اسلام دھرم سے متنفر کرتے ہوئے، گھڑیالی آنسوؤں کے ساتھ، ہمدرد و غم سوگوار ظاہر کرتے ہوئے، انکے ایمان کو متزلزل کرنا نہ صرف شروع کردیا ہے۔بلکہ سادھوئی پراچی جیسی اسلام و مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی، قانون ساز رکن پارلیمنٹ نے، علی الاعلان کہنا شروع کر دیا ہے کہ تین طلاق کی ماری مسلم بیوائیں ہندو دھرم اختیار کرلیں۔ ناعاقبت اندیش شوہروں کے تین طلاق کی ماری اور اسلامی معاشرہ میں انصاف نہ ملنے والی، اگر ایک بھی مسلم نساء، اسلام دھرم چھوڑ ہندو دھرم اختیار کرلیتی ہے
تو کیا ہندو دھرم اختیار کرنے والی عورت ہی کل قیامت کے روز اللہ کو جواب دہ، واصل نار جہنم ہوگی یا ہم مسلم معاشرےکے ٹھیکیداروں کو، کل قیامت کے دن اس کے مذہب اسلام چھوڑنے کے سلسلے میں پوچھے گئیے سوال و جواب کےلئے شرمسار لاجواب ، حقدار نار جہنم کئے جانے والوں میں سے ہونا پڑیگا؟ نکاح جیسے گواہان کے سامنے، ایجاب و قبول والے آسان سنت عمل کو معاشرتی بے جا رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑے، مسلم کنواری صنف نازک کے ریشمی بالوں کو سفیدی یا فضی رنگ میں بدلتے اور سن یاس تک پہنچتی مسلم کنواریوں کی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے اور فاشسٹ نظریات کی شکار بن، مسلم کنواری لڑکیاں اپنا ایمان دھرم چھوڑ ہندو مت اختیار کرلیتی ہیں تو کیا
نار جہنم کی حقدار وہی صنف نازک قرار دی جائیں گی یا ہم دین و معاشرے کے ٹھیکیدار شادی کی آسان سنت کو رسوم ورواج میں جکڑے مشکل ترین عمل قرارد دینے والے، دین و معاشرے کے ٹھیکیدار بھی کل قیامت میں دین و اسلام چھوڑ کفر اختیار کرنے والوں کے ساتھ واصل نار جہنم قرار دئے جائیں گے؟ کیا اس پس منظر میں، مسلم معاشرے میں نکاح کوآسان کرنے کرانے کی نیت ہی کے ساتھ بغیر کسی نام نمود و میڈیا واہ واہی کے، شادی لائق جوڑوں کو مناکر اجتماعی شادی کرنے اور کرانے کا بندوبست کئے نیز منکوحہ جوڑوں پر ولیمے کا بوجھ نہ ڈالتے ہوئے، بیسیوں شادیوں کا ایک ہی اجتماعی ولیمہ کرائے،
یہان تک کہ انہیں مائل شادی کرنے، شادی شدہ جوڑوں کو گرانقدر تحفے تحائف دئیے، سال کے ایک دو سیزن میں ایسی بیسیوں شادیاں کروائے، صالح مسلم معاشرے کی انگنت بیٹیوں کو نہ صرف شادی کے بندھن میں بندھنے کے مواقع کیا نہیں پیدا کئے جاسکتے ہیں اس سے مسلم جوان لڑکیوں کے سنگھی سازش کنان لؤٹریپ میں پھنسا، انکے ارتداد کے راستے بھی بند کئے جاسکتے ہیں اس سلسلے میں مہان بھارت کے مختلف صوبوں والے مسلم اکثریتی علاقوں میں مصروف عمل فلاحی رفاعی معاشرتی ادارے،
اسپورٹس سینٹرس تدبر و تفکر کریں اور عملی اقدام اٹھائیں تو مسلم امہ نساء ارتداد کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس سمت سب سے اہم اجتماعی شادی اہتمام کروانے والے، سائبر میڈیا اپنے تشہیری پس منظر میں، شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑوں کے ساتھ فوٹو سیشن انکی ہتک کرتے کرانے سے پرہیز کئے، فقط للہ فاللہ اس اجتماعی شادی کو انجام دیں گے تو ایسی اجتماعی شادی پروگرام کوتقوئیت مل پائی گی ۔
گجرات ڈائمنڈ تاجر نے 111 یتیم بچیوں کی اپنے خرچ سے شادی کرائی
اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم و خلفاء راشدین کے زمانے میں، راتوں کو گشت کرکے مستحقین و مجبور و مصیبت زدگان کو تلاش کیا جاتا تھا اور ان کی تکالیف دور کی جاتی تھیں۔ آج ہم ناسمجھ مسلمانوں کے سلوک ناروا سے، تین طلاق یافتہ جوان دوشیزائیں اپنوں سے مدد و نصرت کی امید چھوڑ، دشمنان اسلام مودی و یوگی کے سامنے آنچل پھیلائے، معاشی مدد مانگنےپر مجبور ہیں۔ اس کے لئے کون ذمہ دار ہیں؟
شدت پسند ہندو رضا کار؟یا اسلامی قانون میں اپنے فکری اختلافات کے چلتے، راہ فرار اختیار کروانے والے ہمارے مذہبی رہنما؟ یا ان فکری اختلافات کی چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والے، اسلام کی صحیح آگہی سے نابلد تین طلاق دینے والے ہمارے اپنے مرد آہن نوجوان؟ یا اپنے اولاد کی شادیوں میں نام نمود پر کئی کئی سو کروڑ خرچ کئے، لیکن مسلم رفاعی کاموں میں امداد طلب کرنے پر، تجارتی منڈی کا رونا روتے، اپنا دامن بچانے والے مسلم سرمایہ دار شرفاء، بن بیاہی مسلم بہنوں کے ارتداد کے ذمہ دار ہیں؟
ضروریات سے پرے، بلند و بالا کثیر المنزلہ مساجد و مدارس کی عمارتیں تعمیر کروانے والے ہم داعیان اسلام کی یہ ذمہ داری کیا نہیں ہے؟ کہ مسلم اقوام کی نکالی جانے والی کروڑوں اربوں کی زکاة و صدقات کا ایک کثیر حصہ مدارس دینیہ و اساتذہ طلبہ دینیہ کی کفالت پر لگوانے کے بجائے، ان زکاة و صدقات کی کثیر رقوم کا مناسب مصرف تلاش کیا جاسکے کہ ہمارے مسلم معاشرہ میں طلاق ثلاثہ کے ظلم کی ماری صنف نازک کو معاشی استحکام دلوانے کی فکریں ہوں تاکہ دشمنان اسلام کے لئے وہ لقمہ تر بن نہ پائیں۔
آج جب فاشسٹ حکمرانی کی آندھی یکساں معاشرتی قانون کے ڈنڈے سےمسلمانوں کو بھی ہنکالنے کے فراق میں لگتی ہے تو ایک محفل تین طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے، ایک محفل تین طلاق دینے والے کو معتوب کرنے کے فیصلہ تو لئے جارہے ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم کے ناپسندیدہ قرار دئیے گئے ایک محفل تین طلاق کو اہل حدیث علماء اسلام کے اسوء رسول پر عمل پیرا رہتے، ایک محفل ایک سے زاید کہے جانے والے طلاق کو ایک ہی طلاق قرار دئیے جانے کا معرکتہ الاراء فیصلہ، جمہور علماء حق کی طرف سے کیوں نہیں لیا جاتا؟ ایک محفل تین طلاق کی ماری مسلم بیواؤں کے معاشی استحکامیت کا حسن انتظام کیا
مسلم معاشرہ میں ہے؟ فاشسٹ یوگی مودی حکومت ایک منظم منصوبہ کے تحت ان تین طلاق کی ماری ہزاروں عورتوں کو معاشی استحکامیت کے پر فریب دھوکہ کا شکار بنا، متھرا برنداون کی ہندو بیواؤں کے طرز، جسم فروشی کے دھندہ پر لگادیتی ہیں یا عیاش کفار کی شہوتوں کا شکار بناتی ہیں یا انہیں بتدریج ہندو دھرم اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں تو اس کے لئے کون ذمہ دار ہونگے؟ وہ خود یا فاشسٹ طاقتیں یا اپنی مذہبی انانئیت کے مارے ہم مسلمان ٹھیکیدار و مفتیان اسلام؟ اس سمت ابھی وقت رہتے تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ وما علینا الا البلاغ
اب کی بہار انتخاب سیاسی بساط بنتے بگڑتے ماحول میں ایک سنگھی منافرتی سیاسی لیڈر سابق سنگھی ایم ایل اے رگھویندرا سنگھ کے اس بیان نے کہ “مسلم لڑکیوں کو بہکاکر پٹاکر انہیں سنگھی لؤٹریپ کا شکار بنا پھنساکر ھندو دھرم میں لے آؤ اور سرکاری نوکری پاؤ” مہان مودی یوگی رام راجیہ نفرتی سنگھی سرکار، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرمی گنگا جمنی سیکیولر اثاث کو کہاں تک لے جا چھوڑیں گے یہ دیکھنا باقی ہے۔

