45

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی
یہ بات غیرکریں تو ہمیں بہت برا لگتاہے بیشتر ہم وطنوںکا خیال ہے کہ پاکستان میں جب بھی قدرتی آفات آتی ہیں افسروں ،وزیر وں، مشیروںاور کرپٹ افسروںکی لاٹری لکل آتی ہے سیلاب، زلزلہ اور لینڈ سلانڈنگ کے متاثرین کی بحالی کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کرلئے جاتے ہیں ماضی میں بھی ایسے ہی ہوا آزادکشمیر میںزلزلہ متاثرین آج بھی متاثرین ہی ہیں سیلاب سے آفت زدہ علاقوں خصوصاً جنوبی پنجاب میں لوگ آج بھی حکومتوںکو کوستے پھرتے ہیں جن کی عمربھر کی کمائی قدرتی آفات ک ینذرہوجائے اس کا غم وہی جانتاہے ملک بھر میں قیامت خیز بارشوں، باہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ نے تباہی مچارکھی ہے اور حکمران غیرممالک کے سیر سپاٹے پر ہیں۔ عوام کو ریلیف دینی ہو یا متاثرین کی بحالی یا امدادکا معاملہ ہو یا پھر غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوششیں اس کے پس منظرمیں یہ جاننا بھی ضروری ہوتاہے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے ہمارا طرزِ عمل کیساہے ؟

دوسروںکا اس بارے میں نقطہ ٔ نظر کیا ہے؟ داخلی اور خارجی مسائل کیا ہیں؟ ہماری حکومتوںکے پاس اس کا سلوشن کیاہے؟ یا کیا ہونا چاہیے عوام کی اکثریت کو اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے حکمران صرف اپنے متعلق ہی سوچتے ہیں عوام ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں ہمارا طرز ِ عمل ہی ایک ایسی کسوٹی ہے جسے پرکھ کر دوسرے ہمارے متعلق اینی رائے قائم کرسکتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس ہمارے حکمران اس میں قطعی طور پر فیل ہو چکے ہیں اسی بناء پر ہم دنیا بھر میں تماشا بنے ہوئے ہیں لیکن حکمرانوں بشمول بیوروکریسی پر مشتمل ہماری اشرافیہ کو اس کا مطلق احساس تک نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوںکا معاشی ایجنڈا کیاہے شاید وہ خودبھی نہیں جانتے
کیا معاشی ایجنڈے ، موثرٔ حکمت ِ عملی کے بغیر قومیں ایسے ہی اوپر اٹھ سکتی ہیں اس کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی،زبردست حکمت ِ عملی اور ویژن ہونا لازمی ہے اب ہم لاکھ دنیا بھرمیںد ھنڈورہ پیٹتے پھریں کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروںکے لئے حالات سازگارہیں ،ان کے لئے ترقی کے زبردست مواقع ہیں یا پھرا س کے لئے تر غیبا ت کے روزانہ نت نئے پیکج کے اعلانات کریں کسی کو اعتبارنہیں آئے گا۔۔کیوں؟ اس کا جواب بڑا آسان اور سادہ سا ہے جب ہمارے اپنے ملک کے درجنوں سیاستدانوں، بیوروکرٹیس اور سرمایہ داروں نے بھاری بھرکم انوسٹمنٹ بہت سے غیرممالک میں کررکھی ہے ہم یقین کون کرے گا؟

ان لوگوںمیں ہماری سینکڑوںاہم شخصیات اور بیوروکریسی،سیاستدان اور تاجرشامل ہیں جب یہ لوگ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروںکے لئے ترغیبات کے لئے زمین آسمان کے قلابے ملارہے ہوتے ہیں تو یقینا دنیا دل ہی دل میں ہنس رہی ہوتی ہے یہ کیسے بے وقوف ہمیں الو بنانے کی کوشش کررہے ہیںاس میں بھی شاید کوئی مبالغہ نہ ہو کوئی منہ پر نہ سہی دل میں میں ضرور یہ بھی کہہ رہاہوگا شرم تم کو مگر نہیں آتی بیشتر پاکستانیوں کو یقین ہے کہ اس اشرافیہ کو شرم نہیں آتی ۔۔ جس نے عام آدمی کے لئے غربت کو بد نصیبی بنا کر رکھ دیا اور اپنے لئے دولت کے پہاڑ اکھٹے کرلئے پھر بھی ان کا جی نہیں بھرتا ہم وطنوںکا خیال ہے کہ پاکستان میں جب بھی قدرتی آفات آتی ہیں افسروں ،وزیر وں، مشیروںاور کرپٹ افسروںکی لاٹری لکل آتی ہے سیلاب، زلزلہ اور لینڈ سلانڈنگ کے متاثرین کی بحالی کے نام پر اربوںروپے ہڑپ کرکے ڈکار کار لیا جاتاہے یہ سب کچھ آخر کتنی دیر تک چلے گا آخر اس کا انت کیا ہوگا؟ کوئی جانتاہے پاکستان کے
انہی حالات کے تناظرمیں ایک مرتبہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جوکچھ کہا تھا وہ اتنی بڑی سچائی ہے کہ انکار محال ہے اس کی باتیںبڑی پرفیکٹ ہیں سوچیں تو اگر ہماری یہی حالت جاری رہی توپھر یقین ہے کہ
لائیں گے غسال کابل سے اورکفن جاپان سے
ان خیالات کااظہار کوئی نیک شگون نہیں ہے بلکہ ہماری قومی المیہ ہے لیکن ہمیں مطلق اس کااحساس نہیں اس لئے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصدکیا تھا اور ہم کیا سے کیا ہوگئے ایک مرتبہ اسی صدرپوٹن
نے کہا تھا یقینا سچ ہی کہا تھا کہ پاکستان پاکستانیوں کے لئے قبرستان ہے یقینا وہ سچ ہی ثابت ہوا حالات و واقعات اسی جانب اشارہ کررہے ہیں کمال ہے
پیوٹن کا کہنا تھا کیا اشرافیہ پاکستان کو فقط قبرستان سمجھتی ہے وہ تو پاکستان میں اپنا علاج کروانا گوارا نہیں کرتے ان میں شامل جو حکمران ہیں ان کو اللہ نے اتنی توفیق بھی نہیں دی کہ وہ یہاں ایسے ہسپتال بھی نہیں بنوا سکے جہاں ان کا اپنا علاج ہو سکتا اسی لئے تین تین چار چار مرتبہ وزیر ِ اعظم اور صدر کے عہدوںپر فائز رہنے والوںنے اس ملک کے لئے کچھ نہیں سوچا عوام کے حصہ میں غربت،بیماری اور مہنگائی ہی آتی ہے
اس کا کہنا تھاکہ جب کوئی پاکستانی امیر ہوجاتاہے تووہ اپنا بینک اکاؤنٹ سوئیزر لینڈمیں رکھتا ہے غیرممالک میں جزیرے خریدتاہے، کاروبار بھی وہ انہی ممالک میں کرنے کو ترجیح دیتاہے پاکستان تو اس کے لئے حکومت میں آنے کاایک ذریعہ ہے ان کی اولادبرطانیہ، امریکہ، ملائشیا اور یورپی ممالک کے شہری بن کر ساری زندگی مزے کرتے ہیں اور غریب پاکستانی ان کے لئے نعرے مارتے مرکھپ جاتے ہیں

یہ آوے وی آوے، زندہ باد ،جیوے جیوے کی آوازیں سننے کیلئے اپنے وطن آتے ہیں ورنہ وہ علاج معالجہ کے لئے امریکہ اور برطانیہ جاتاہے وہ شاپنگ دوبئی اور یورپ سے کرتا ہے وہ چین، جاپان،جرمنی کی بنی چیزیں خریدتا ہے وہ عبادت مکہ اور مدینہ جیسے متبرک و مقدس شہروں میں کرتا ہے اسکے اولاد یورپ میں تعلیم حاصل کرتا ہے اسے سیر کرنے کے لئے امریکہ برطانیہ اور کینڈا کا سفرکرناپسند ہے اور سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ
جب اس کی موت ہوجاتی ہے تو وہ وسیت کرجاتاہے کہ اس کی تدفین اپنے آبائی وطن پاکستان میں کی جائے تاکہ اس کے حامی اسے بہت بڑا محب وطن ثابت کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملاسکیں اس سے ظاہرہوتاہے پاکستان لوگوں کے لئے صرف قبرستان ہے اور جان لوایک قبرستان کیسے ترقی کرسکتاہے۔۔۔اب آتے ہیں معروف اداکارہ انجلینا جولی کی طرف جس نے پاکستانی رہنمائوں کے بارے میں شرمناک خیالات کااظہارکرکے دنیا کو چونکادیا تھا لیکن ہم نے اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا ستمبر 2010ء کو اقوامِ متحدہ کی سفیر کا دورہ تھا ہالی ووڈ کی صف اوّل کی اداکارہ اور اقوامِ متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے جب پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امریکہ واپسی پر اقوام متحدہ کے لئے ایک خصوصی رپورٹ بھی لکھی جس میں انہوں نے ایک طرف متاثرین کی صورتحال کو انتہائی دردناک انداز میں پیش کیا اور دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی عیاشیوں اور انکے شاہانہ طرز عمل کو دیکھ کر صدمے میں آگئی

۔ انجلینا جولی جنہوں نے پاکستان میں فوٹو سیشن اور میڈیا میں آنے سے انتہائی گریز کیا اپنی رپورٹ میں لکھتی ہے کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اعلیٰ حکام اور بااثر شخصیات ان سے ملنے کے لئے قطاروں میں کھڑے ہو کر متاثرین کو پیچھے دھکیلتی رہے ۔ ہر کسی کی یہی خواہش تھی کہ وہ مجھ سے ملے ۔ انہیں یہ دیکھ کر نہایت تکلیف ہوئی جب وزیراعظم نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ ان کے اہل خانہ ہالی ووڈ کی نمبر ون ادکارہ سے ملنے کے لئے بے چین ہیں ۔ ان کی فیملی مجھ سے ملنے کے لئے انکے آبائی شہر ملتان سے خصوصی طور پر ایک طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچی اور مجھے بیش قیمت تحائف دئیے

۔ وزیراعظم اور ان کی فیملی نے مجھے انواع و اقسام کے کھانے کی دعوت بھی دی۔ انجلیناجولی لکھتی ہیں کہ میرے لئے وہ انتہائی افسوس اور دکھ کا موقع تھا جب میز پر طرح طرح کے کھانوں کی بھرمار تھی۔ وہ کھانے ان سینکڑوں لوگوں کے لئے کافی تھے جو محض ایک آٹے کے تھیلے اور پانی کی چھوٹی سی بوتل کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے کر اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ ایک طرف ملک میں بھوک اور افلاس ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم ہائوس اور کئی دیگر سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت اور سج دھج دیکھ کر حکمرانوں کی عیاشی مغرب کو بھی حیران کر دینے کے لئے کافی ہے ۔ انجلینا جولی نے اپنی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان پر زور دیا جائے کہ اقوامِ عالم سے امداد مانگنے سے پہلے عیاشیاں ختم اور اخراجات کم کرے ‘‘ چلتے چلتے ایک اور بات۔۔۔ ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوںمیں پڑے ہوئے ہیں یہ رقم پاکستان میں انوسٹ کردی جائے

تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے6کروڑ پاکستانیوںکیلئے روزگار+ملازمتیں دی جا سکتی ہیں500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ یہ کچھ بتانے کا مقصد فقط یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے دلوں سے احساس ِ زیاں جاتارہاہے جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا خودسے سوال کریں ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں