راولپنڈی : حواء کی ایک اور بیٹی ڈاکٹرز کے تجربات اور نا اہلی کی نظر ہو گئی
راولپنڈی(کرائم رپورٹر) ڈاکٹر کہیں پہ زندگی بچانے والا،خدا کے بعد آخری سہارااور کہیں پر جلاد۔کیا جلاد ڈاکٹر یہ بھول جاتا ہے کہ انصاف اگر ان عدالتوں سے نہیں ملے گا تو اس بڑی عدالت میں ضرور ملے گا اس مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے جلاد ڈاکٹرز کے خلاف اس مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے کیوں نہیں بولتے
۔ہم ایک قوم کی حیثیت سے مردہ ہو چکے ہیں۔جب کسی کے ساتھ ایسا واقعہ ہوتا ہے تو ہم لوگ اس کا ساتھ دینے کی بجائے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔صحافی قوم کی آواز ہے یہ قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ظلم کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں اور اپنی جان مصیبت میں ڈال کر عوام کے سامنے حقائق اشکار کرتے ہیں۔آج ایک صحافی کی بیٹی ان جلاد ڈاکٹروں کی نظر ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق بے نظیر ہسپتال راولپنڈی میں ڈاکٹروں کی غفلت سے 14سالہ معصوم بچی عائشہ بی بی اپنی جان کی بازی ہار گئی
۔لواحقین کے مطابق عائشہ بی بی کو معمولی سے درد کی شکایت تھی جس کے لیے اسے ہسپتال لایا گیا۔چیک اپ اور ٹیسٹ وغیرہ کرنے کے بعد ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بچی کی یورین(پیشاب) کی نالیوں میں انفیکشن ہو گیا ہے ادویات سے ٹھیک ہو جائے گی۔کچھ عرصہ ادویات سے درد کا آرام رہا اس کے بعد تکلیف کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔جب دوبارہ چیک اپ اور ٹیسٹ وغیرہ لیے گئے تو ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ایک معمولی سا آپریشن کرنا پڑے گا اور بچی صحت مند ہو جائے گی۔لواحقین نے اجازت دے دی
۔ڈاکٹرز نے آپریشن کیا لیکن آپریشن اس جگہ کی بجائے دوسری جگہ کا کر دیا۔لواحقین نے اس کی شکایت کی تو سینئر ڈاکٹرز نے ان کو سمجھایا اور ذمہ داری لی کے اپنی نگرانی میں دوبارہ آپریشن کروائیں گے۔لواحقین نے چار و ناچار ان کی بات مان لی۔ڈاکٹرز نے آپریشن کر کے عائشہ بی بی کو سٹنڈز ڈال دیے چند دن آرام سے گزرے اور بچی سکول جانے لگی اس دوران چیک اپ چلتا رہا پھر ڈاکٹرز نے کہا کہ اس کے سٹنڈز اب نکالنے ہیں
تو لواحقین عائشہ بی بی کو لے کر ہسپتال چلے گئے۔ سٹنڈز نکالتے ہوئے مشین عائشہ بی بی کے پیٹ میں ہی خراب ہو گئی دوسری مشین منگوا کر سٹنڈز نکالے گئے مگر بچی کی حالت خراب ہو گئی اور اس کے بعد سنبھل نہ سکی۔ڈاکٹرز نے جو ٹیسٹ اور ادویات کہیں لواحقین وہ سب کرتے گئے۔مہنگے ترین ٹیسٹ اور ادویات، 6بوتل وائٹ سیلز(سفید خون) اور دو بوتل خون کی لگائی گئیں۔ہسپتال میں موجود جلاد قسم کے ڈاکٹروں نے انجکشن اور ڈرپس لگا لگا کر عائشہ بی بی کا سارا جسم لہو لہان کر دیا۔
بچی کا شوگر اور بلڈ پریشر کم ہو گیا اور ضلاد قسم کے ڈاکٹروں سے حالات قابو میں نہ آ رہے تھے اور انہوں نے کہا کہ بچی کا گردہ نکالنا پڑے گا تب اس کی زندگی بچ سکتی ہے لواحقین کو اپنی بیٹی کی زندگی مقصود تھی وہ اس پر بھی راضی ہو گئے لیکن ان نا اہل اور جلاد ڈاکٹرز پھر بھی اس کی زندگی نہ بچا سکے۔
لواحقین کے مطابق بج بچی کو غسل دیا گیا تو پتہ چلا کے ڈاکٹرز نے ایک سے زیادہ آپریشنز کئے اور ان کا شک ہے کہ ڈاکٹرز نے عائشہ بی بی کے اعضاء نکال لیے ہیں۔لواحقین نے اس واقعہ پر حکومت پاکستان اور حساس اداروں سے جو ڈاکٹرز اس کام میں ملوث ہیں ان کے خلاف ایکشن لینے اور سخت سے سخت سزاکی اپیل کی ہے