عروج و زوال سلطنت فارس ایران
نقاش نائطی
۔ +966562677707
اپنےاللہ کو بھولنے والے سابق مسلم شاہ ایران، کا عبرتناک انجام،اور موجودہ طاقت ور ترین شیعی ایران
ایران کے سنی بادشاہ شاہ محمد رضا پہلوی 16 ستمبر 1941 سے 19 جنوری 1979 تک ایران کے بادشاہ تھے مسلم سنی بادشاہ ہوتے ہوئے بھی, انہوں نے ایرانی تہذیب، آگ کی پوجا کرنے والے سلطنت فارس کے قیام کی 2,500ویں سالگرہ کا “جشن سائرس دی گریٹ” جشن بڑی ہی دھوم دھام سے منایا تھا۔ سنی مسلمان ہوتے ہوئے بھی آگ کی پوجا کرنے والے مشرک بادشاہت کی یوم تاسیس ڈھائی ہزار سالہ جشن منانے کے کچھ ہی دنوں بعد، انکے خلاف شروع ہونے والے آیت اللہ خمینی کے انقلاب،کامیابی بعد،انہیں ایران سے بھاگ کر، مصر پناہ لینی پڑی اور وہیں مصر میں جلاد وطنی کی زندگی گزارتے ہوئے 27 جولائی 1980 انتقال کرگئے تھے
فارس کی قائم اسلامی سلطنت سے مراد عرب مسلمانوں کے ہاتھوں ساسانی سلطنت کے خاتمے کے بعد ایران میں قائم ہونے والی مسلم حکومتیں ہیں، جو قادسیہ کی جنگ (636ء) اور پھر 651ء تک مکمل فتح کے بعد شروع ہوئیں، جس کے بعد خلافت راشدہ، اموی اور عباسی خلفاء کا کنٹرول رہا، اور بعد ازاں صفویہ، افشاری، زند، قاجار اور پہلوی جیسے مسلم خاندانوں نے مسلم ایران پر حکومت کی، جو آج کی اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد ہے.
ایران کی تاریج کے ابواب کھلیں اور دریاء نیل کا معرکہ الاراء واقعہ کا تذکرہ نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے
دریائے نیل کا واقعہ
ایران پر مسلم خلیفہ حضرت عمر رضہ اللہ عنہ کی اسلامی حکومت شروع ہوچکی تھی اور مسلم خلافت مدینہ منورہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ مصر کی گورنر کی حیثیت سے مصر پر حکمران تھے
ہزاروں سال سے مصر کو سیراب کرتا آیا دریائے نیل خشک ہورہا تھا، وہ دریائے نیل جس کا پانی ٹھاٹھیں مارتا تھا اور مصر کے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا، وہ دریا خشک ہو چکا تھا، مصر کے لوگ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے، ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ماقبل اسلامی سلطنت کچھ عرصے سے ہر سال دریائے نیل خشک ہو جاتا تھا ان ایام مصر کے لوگوں کا کہنا تھا:-”دریائے نیل ہر سال انسانی قربانی مانگتا ہے“۔
جب وہ یہ قربانی دے دیتے تو دریائے نیل پھر سے ٹھاٹھیں مارنے لگتا، لوگ خوش ہو جاتے ان کی کھیتیاں پھر سے لہلہانے لگتیں۔ اب اسلامی سلطنت قیام کے بعد ایک بار پھر دریائے نیل خشک ہورہا تھا، لوگوں کے چہرے پریشانی سے مرجھا گئے تھے۔ دریا اس بار پھر ان سے ایک انسان کی قربانی مانگ رہا تھا وہ سب مجبور تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا تھا، مصر میں اسلامی فوجیں موجود تھیں، امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے مصر میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کیا ہوا تھا اور اس کے چند دن بعد ہی دریائے نیل خشک ہو گیا تھا.
لوگوں کی پریشانی دیکھنے کے قابل تھی۔ لوگ دریانے نیل میں انسانی قربانی کی تیاریاں کرنے لگے اب لوگ خوش تھے کہ دریا انسان کی قربانی کے بعد پھر سے بہنا شروع کر دے گا اور خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن ایک انسانی زندگی دریائے نیل کی بھینٹ چڑھائی جانی تھی۔ لوگ صبح ہی صبح یوں تیار ہو کر باہر نکل آئے جیسے عید کا سماں ہو، ہر شخص کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دریائے نیل کے خشک ہونے کی وجہ سے سخت پریشان تھے، جب انہوں نے یہ سنا کہ لوگ دریائے نیل کی بھینٹ چڑھانے کے لئے ایک انسان کو قربان کرنے لگے ہیں تو وہ تڑپ اٹھے کہ یہ تو سراسر ظلم ہے، دریا کے لئے ایک انسان کو قتل کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے چند آدمیوں کے ساتھ دریائے نیل کی طرف چل پڑے، وہ اس قربانی کو ہرحال میں رکوانا چاہتے تھے، جب وہ دریائے نیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے وہاں عجیب سماں دیکھا، لوگ زرق برق کپڑے پہنے وہاں موجود تھے، ہر شخص کے چہرے پر خوشی تھی۔ جب ان لوگوں نے گورنر کو دیکھا تو حیران رہ گئے اور سوچنے لگے:
”شاہد گورنر بھی اس قربانی کو دیکھنے کے لئے آئے ہیں“۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ ایک پندرہ سالہ لڑکی کو لے کر وہاں آئے ہیں، اُس لڑکی نے زرق برق لباس پہنا ہوا تھا، وہ زیورات سے لدی پھندی تھی، لڑکی خوف سے کانپ رہی تھی، اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ لڑکی لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھ رہی تھی، وہ لرزتی کانپتی ہوئی لوگوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ کر رک گئی، اس نے مڑ کر اپنے بوڑھے باپ کی طرف دیکھا، باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ مجبور تھا، لوگ اس کی بیٹی کو گھسیٹ کر موت کے منہ میں دھکیل رہے تھے،
وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، اپنی بوڑھی آنکھوں سے بیٹی کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی کی ماں تو غم سے نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔
لڑکی ہاتھ چھڑا کر اپنے باپ کی طرف دوڑی، لوگ اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے اور لڑکی کو پکڑا اور پھر سے دریا کے کنارے پر لے آئے، لڑکی رو کر لوگوں سے التجا کرنے لگی۔ ”مجھے چھوڑ دو میں مرنا نہیں چاہتی“۔
لوگوں نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا، اب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، وہ جلدی سے آگے بڑھے اور لڑکی کو ان لوگوں کی قید سے چھڑاتے ہوئے بولے: ”یہ سب کیا ہے؟ تم اس لڑکی کو کیوں ہلاک کرنا چاہتے ہو؟“ لوگ گورنر کی بات سن کر پریشان ہو گئے، لڑکی بھاگ کر اپنے باپ کے پاس چلی گئی، لڑکی کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ لڑکی سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی اور ماں اسے چپ کرانے کی کوشش کرتے ہوئے خود بھی رو رہی تھی۔
لوگوں نے کہا: ”اے امیر ! دریائے نیل خشک ہو رہا ہے، وہ ہر سال ایک انسان کی قربانی مانگتا ہے۔“ یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ناگواری سے لوگوں کی طرف دیکھا پھر پوچھا: ”کیا ہر سال یہ دریا اس طرح خشک ہو جاتا ہے؟“
لوگوں نے جواب دیا: ”ہاں، ہر سال دریائے نیل اس طرح خشک ہو جاتا ہے اور جب یہ خشک ہوتا ہے تو ہم ایک انسانی جان کی قربانی دیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی دریا کا پانی بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دریا میں طغیانی آ جاتی ہے“۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ”یہ تو ظلم ہے“۔
لوگوں نے کہا: ”اے امیر ! ہم ہر سال چاند کی گیارہ تاریخ کو ایک نوجوان لڑکی کا انتخاب کر کے اس کے والدین کو رضامندی سے اس لڑکی کو زیورات اور خوبصورت لباس پہنا کر دریائے نیل کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں پھر دریا کا پانی بڑھنے لگتا ہے“۔
یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا:
”اسلام ان باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ تم ہر سال ایک انسان کو قتل کر کے دریا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہو، یہ تو سراسر ظلم ہے، اسلام ان فضول باتوں کو مٹانے کے لئے آیا ہے، آئندہ تم ایسا نہیں کرو گے۔“
یہ سن کر لوگ بولے: ”پھر تو دریا خشک رہے گا، ہماری کھیتیاں برباد ہو جائیں گی، ہم بھوک سے مر جائیں گے، ہمارے جانور ہلاک ہو جائیں گے۔“
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ”تم پریشان نہ ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا“۔
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ رسم ادا کرنے کی اجازت نہ دی، اب لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہر طرف خشک سالی ہو جائے گی اور ہم سب بھوک سے مر جائیں گے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں، ان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ اسلامی افواج کی موجودھی میں گورنر کے حکم عدولی کر سکیں۔ وہ سب خاموشی سے سر جھکائے کھڑے ہو گئے۔
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے لڑکی کو اس کے ماں باپ کے ساتھ گھر بھجوایا اور لوگ بھی آہستہ آہستہ وہاں سے جانے لگے۔ چند دنوں تک دریانے نیل بالکل خشک ہورہا تھا ایسا لگتا تھا کہ مختصر عرصے بعد، اس میں ایک بوند بھی پانی نہ رہے گا، لوگ بوکھلا گئے، انکی کھیتی باڑی دریائے نیل کے پانی سے قائم تھی۔ زمینیں بنجر ہو رہی تھیں، لوگ فاقوں سے مرنے لگے، جانور چارہ نہ ہونے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے تھے، یہ دیکھ کر لوگوں نے مصر سے نکل کر دوسرے علاقوں کا رُخ کرنا شروع کردیا تھا ہر طرف ویرانی ہی ویرانی کا سماں تھا
حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا تو وہ بھی پریشان ہو گئے، آخر انہوں نے امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا اور اس میں ساری صورت حال واضح کر دی۔ امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ نے جب یہ خط پڑھا تو آپ نے حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کو جواب میں لکھا: ”تم نے مصریوں کو بہت اچھا جواب دیا، اسلام ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ایسی فضول باتوں کو مٹانے کے لئے آیا ہے، میں اس خط کے ساتھ ایک رقعہ بھیج رہا ہوں تم یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دینا“۔
جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس امیر المومنین حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا خط پہنچا تو انہوں نے خط کے بعد وہ رقعہ بھی پڑھا جو دریائے نیل میں ڈالنے کے لئے تھا اس میں لکھا تھا: ”یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے دریائے نیل کے نام ہے۔
“اے دریا ! اگر تو اللہ کے حکم سے بہتا تھا تو ہم بھی اللہ ہی سے تیرا جاری ہونا مانگتے ہیں اور تو اللہ کے حکم سے جاری ہو جا اور اگر تو خود اپنی مرضی سے بہتا ہے اور اپنی ہی مرضی سے رک جاتا ہے تو پھر تیری کوئی پرواہ اور ضرورت نہیں ہے“۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے مصاحب اور کچھ ذمہ دار مصری لوگوں کی موجودگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آیا ہوا رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا اور واپس چلے آئے جب صبح مصر کے لوگ بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دریائے نیل نہ صرف پہلے کی طرح بہنے لگا تھا بلکہ اب تو دریا میں پانی بہت چڑھ گیا تھا اور دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی، لوگ یہ دیکھ کر خوشی سے چلا اٹھے: دریا جاری ہو گیا۔دریاجاری ہوگیا “ اسلامی سلطنت کے گورنڑ کے زمانے حکومت میں بغیر انسانی قربانی دئیے دریائے نیل کے یوں بہنے سے مصر کے لوگ اسلام کے گرویدہ ہوئے جوق درجوں مسلمان ہونے لگے تھے۔ اس دن سے اب تک دریائے نیل اسی طرح جاری وساری ہے ایک لمحے کے لئے بھی اس کا پانی خشک نہیں ہوا۔
*(بحوالہ: ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء”)*
تاریخ سلطنت فارس
چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں فارس ایک گمنام پہاڑی قبیلہ تھا جو ایران کے جنوب مغربی علاقے ’پرسِس‘ میں رہتا تھا۔
لیکن پھر اس قبیلے سے ایک ایسا رہنما (سائرس) اُبھرا جس نے صرف کچھ ہی عرصے میں پورے مشرقِ وسطیٰ پر قبضہ کر لیا بلکہ اس علاقے میں طویل عرصے سے قائم بادشاہتیں ختم کیں، مشہور شہر فتح کئے اور ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی۔
یہ سلطنت فارس دنیا کی تقریباً آدھی آبادی (44 فیصد) پر حکومت کرتی تھی۔ اِس کی حدود مغرب میں مصر اور بلقان سے لے کر شمال مشرق میں وسطیٰ ایشیا اور جنوب مشرق میں وادیٔ سندھ (آج کا پاکستان) تک پھیلی ہوئی تھیں۔
جلد ہی اِس خاندان کے حکمران دنیا کے سب سے طاقتور لوگ بن گئے۔ اُن کے پاس اتنے وسائل تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ اُن کی حکومت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔
اُن کی فتوحات کی رفتار اور وسعت اتنی غیر معمولی تھی کہ دنیا کو وہ ناقابلِ شکست دکھائی دینے لگے۔
لیکن اس کے بعد اُن ہی میں سے ایک اور رہنما ابھرا جس نے اِن فاتحین کو ہی فتح کر لیا اور اُن کی تمام فتوحات اپنے نام کر لیں۔یہ کہانی 559 قبل مسیح میں شروع ہوتی ہے جب سائرسِ اعظم منظرِ عام پر آئے، وہ قدیم دنیا کی سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے اور یہ کہانی 230 سال بعد اُس وقت ختم ہوئی جب مقدونیہ کے سکندرِ اعظم آئے اور فارسی سلطنت کو ختم کر دیا۔
559 قبل مسیح میں شروع ہوئے سائرس حکومت کے ڈھائی ہزار سال بعد 12 سے 16 اکتوبر 1971 کو عظیم سائرس ڈے منایا گیا تھا
جشن ایران کا مقصد ایران کی قدیم تہذیب اور تاریخ کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم شاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں اس کی عصری ترقی کو ظاہر کرنا تھا۔ اس تقریبات نے غیر مسلم آگ کے پجاری سائرس دی گریٹ کو قومی ہیرو کے طور پر فروغ دیتے ہوئے ملک کی قبل از اسلام کی ابتداء تاریخ کو اجاگر کیا تھا۔ یاد رکھیں کہ یہ جشن دراصل آرکیمینیڈ سلطنت کے قیام کے 2,520 سال بعد تھا، جیسا کہ اس کی بنیاد 550 قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔
بعد میں آنے والے کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ اس بڑے پیمانے پر مشرک شہنشاہیت والے جشن کے خلاف جو عوامی غم و غصہ شروع ہوا تھا 1979 کے ایرانی انقلاب پر منتج ہوا
شاہ محمد رضا پہلوی حکومت خاتمہ کے بعد، سنی عرب شاہان نے امریکہ کے ساتھ ملکر ایرانی شیعی حکومت کو جس قوت کے ساتھ کمزور کرنے کی کوشش کی اور عراقی صدر صدام حسین کو آگے کرتے ہوئے،
سنی حکومتی عرب شاہان اور شیعی ایرانی حکمران کے درمیان جو جنگ 22 ستمبر 1980 شروع ہوئی تھی20 اگست 1988 ختم ہوئی امریکہ روس کی طرف سے دونوں فریقوں کی مدد کرنے کی وجہ سے اور مستقل 8 لمبے سال، محو حرب رہنے کی وجہ سے، دونوں فریق ایران و عراق افواج مضبوط تر ہوگئی تھیں۔ جس سے عالم پر حکمرانی کرنے والے سربراہ عالم صاحب امریکہ نے، 2اگست 1990 عراق کے کویت پر حملہ کرنے کے موقع کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے،عرب شاہان کی مکمل حمایت سے عراق کے خلاف حرب عرب لڑتے ہوئے 28 فرری 1992 کویت کو آزاد کئے جانے کےباوجود، عراق میں انسانیت سوز کیمیائی ہتھیار ہونے کا بہانہ بنائے، عرب شاہان کو اسکا ڈر بتائے، عراق ہر حملہ کر جہاں عراقی صدر صدام حسین حکومت ختم کرتے ہوئے، اس وقت کی سب سے بہادر عرب عراقی افواج کو تاراج کیا گیا تو وہیں کسی نہ کسی بہانے ایران کو پورے 40 سال تک حالت جنگ میں رکھے،
ایران کو مسلسل حالت جنگ میں رکھے اسے کمزور و ناتواں چھوڑنے کے بجائے, حربی اعتبار اسے اتنا مضبوط کیا گیا ہے کہ فی ایام اسرائیل فلسطین جنگ کے بہانے دراصل یہ امریکہ ایران جنگ جو ہونے جارہی ہے،اس میں عالمی بحری تجارتی راہ داری بحر احمر پر، یمن کو آگے کئے، ایران مکمل قبضہ کئے عالمی سربراہ صاحب امریکہ کو حربی ٹکر دینے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ آنے والے چند ماہ میں یہ واضح طور معلوم ہوجائیگا کہ سابقہ 50 سال سے پورے خلیجی ممالک پر، صاحب امریکہ کی ان دیکھی حکمرانی جو تھی
،آج اسی خلیجی علاقوں کا سلطان مملکت اسلامیہ ایران بن چکا ہے۔ابھی حالیہ دنوں مملکت سعودی عرب میں،کچھ نام نہاد عرب کلچر محافظین کی طرف سے ماقبل اسلام کعبہ اللہ میں رکھے گئے تین بڑے بت عزہ، لات و منات والے عرب کلچر کی حفاظت کرنے کی مانگ جو آٹھ رہی ہے اور موجودہ عرب کلچر میں بھارتیہ ہندوانہ یوگا
کو جس نوع اسپورٹس کے نام سے پروان چڑھایا جارہا ہے، اسنے ہمیں شاہ محمد رضا پہلوی کے،اپنے ڈھائی ہزار قبل کے آگ کی پرستش کرنے والے دور “سائرس دی گریٹ” کی یاد کرتے ہوئے, یوم تاسیس منائے جشن ایران اور کچھ دنوں بعد اسکے زوال کی یاد تازہ کرائی ہے۔اللہ ہی سے دعا ہے کہ ان عرب شاہان کو آگہی الہی بخشے اور انکی حفاظت فرمائے وما علینا الا البلاغ

