Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

اپنی اولاد کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت

بابری مسجد انہدام کی تلخ یادیں اور ہمارا مثبت اقدام مدافعت.

اپنی اولاد کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت

نقاش نائطی

۔+966562677707

وہ قوم کیا ترقی کریگی جو اپنی اولاد کی تعلیم پر کئے جانے والے خرچ سے زیادہ انکی شادیوں پر خرچ کیا کرتی ہے

ہر تعلیمی ادارہ,اپنی عمارتوں سے نہیں, بلکہ اس کے طلباء کے تعاقب خوابوں سے عظیم بنتا ہے۔

فی زمانہ اس سنگھی نفرتی ماحول میں ہم مسلمانوں کے لئے, سب سے اہم, دینی اقدار کے ساتھ اپنی اولاد کو عصری تعلیم کی دولت سے مالا مال کرنا ہے.ہم میں سے کوئی بھی شخص یا ادارہ اپنی ذاتی صلاحیتون سے ترقی پزیری کے مدارج طہ کرتے ہیں تو ہمیں چاہئیے شروع ابتدا ہی سے اپنی آگہی شروعات کرتے,وقت برباد کرنے کے بجائے, اس شخص یا ادارہ کو اپنا رول ماڈل تصور کئے, انکی اتباع کئے خود ملی تعلیمی آگہی کے مشن کو آگے بڑھانے کی فکر و جہد مسلسل جاری رکھنی چاہئیے۔

اسی لئے علیگڑھ طرز قوم ملت کو تعلیمی ترقی پزیری کے مدارج طہ کروانے والے انیک ملی تعلیمی اداروں کی تفاصل کو قوم و ملت کے سامنے وقتا” فوقتا” انکے اگے رکھتے ہوئے, تعلیمی میدان ان کی خدمات کو پروان چڑھاتے کی کوشش پیہم ہوتی رہنی چاہئیے۔ اسی نقطہ نظر سے, جنوب ھند کے علیگڑھ ثانی مشہور انجمن حامی المسلمین بھٹکل کے 106 سالہ یوم انجمن روئداد سامنے رکھے قوم و ملت کو تعلیمی آگہی دلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب قوم و ملت کے سامنے عملی میدان کام کرنے والے ادارون کی تفاصیل آتی رہیگی تو ان میں بھی اپنے اطراف والی مسلم امہ کو تعلیمی ٹرقی ہزیری کے مدارج طہ کرانے کروانے کی فکر جاگزیں ہوتے ہم انشاءاللہ پائیں گے

آل عرب آل نائطہ بھٹکل قوم، ایک خوبصورت سنگم کا حسین تصور ہے جو دیڑھ ہزار سال قبل خاتم الانبیاء، دور ہی سے، بھٹکل سمیت کیرالہ کوچین، ٹامل ناڈ کلیکیرے، مہاراشٹرا کونکن اور گجرات احمد آباد کھمبات کے ساحل سمندر پر اپنی بادبانی کشیاں لنگر انداز کئے یورپ و آیسیا کو اپنی تجارت سے ہم آہنگ و سرفراز کئے، قول رب تعالی سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ۔پاک ہے وہ(رب) جس نے اس (دوری) کو ہمارے تابع کر دیا

اور ہم اس سے مسخر (مستفید) نہ ہوسکے۔خصوصا” اہل بھٹکل کو یہ وہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوبی ھند پر تین صد قبل مسیح والے جین کلچر راج “چالوکیاس” “کدمباس” “راشٹر کوٹا” سے ہوتے ہوئے 1336 وجیہ نگر سلطنت تک اپنی ایمان دارانہ امانت دارانہ تجارت سے علاقے میں ایک ایسا وقار و رتبہ والا پرامن ماحول پیدا کردیا تھا کہ اپنے وقت کے حکومت کرنے والے جین آل نے, اپنی بیٹیوں کو ہماری زوجیت میں دئیے، ہمیں یہیں رچ بس جانے،

ہر ممکنہ مدد و نصرت بھی کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ تجارت کے لئے یہاں آ بسے ہمارے جد امجد نے،اپنے مال تجارت عربی النسل گھوڑوں کی ھند بھر کے مختلف راجوں مہاراجاؤں تک بحفاظت ترسیل کے لئے، جب اپنی فوج و سلطنت ہوسپٹنم ہونور قائم کرلی تھی تو فائی ٹنگ فور سروائیول، وجیہ نگر راجہ کو ہوسپٹنم ہونور مسلم سلطنت پر فوج کشی کئے، ہمارے جد امجد کی پہلی مسلم آل نائطہ سلطنت کو تاراج اور ہزاروں کو شہید کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد ہی ہوسپٹنم ہونور سے جان کی امان کے لئے, آل نائطہ قبیلے کو اڈپی سے کاروار سے آگے گوا کے بنجر ساحل کو اپنے دوسرے مستقر تجارت کے طور آباد کرتے ہوئے, ساحل سمندر درمیان کی بستیوں میں آباد ہونا پڑا تھا

مغل سلطنت ھند میں جنوب ھند آل عرب ساکن علاقوں میں اپنی اولاد کو قرآن و سنت والے علم دین سیکھنے سکھانے کا رواج عام تھا۔تقریبا” ساتھ سو سال قبل غالبا” 1325 کے آس پاس مشہور عرب سیاح ابن بطوطہ جب ھند کے سفر پر آئے تھے تو جنوب ھند دورہ کرتے ہوئے کاروار ڈسٹرکٹ کے ہونور (آج کے ہوناور) بھٹکل آس پاس کے گاؤں میں,محلے محلے میں قرآن و سنت تدریس کے مکاتب کا ذکر کرتےہوئے اپنے سفر نامہ ابن بطوطہ میں رقم طراز ہیں کہ آل عرب علاقوں والے ہر گھروں سے بچوں کے قرآن پڑھنے اور ڈکر واذکار کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ایک سو چھ سال قبل ہمارے جد امجد نے, ان ایام اسیری فرنگی انگریز,انگریزی تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے, 1919 قائم انجمن حامی المسلمین قائم کئے

اور اب اس تعلیمی ادارے کے ماتحت مصروف آگہی علم و عرفاں, پندرہ مختلف اسکول و کالجز میں زیر تعلیم 6 ہزار پانچو سو نونہالان قوم کو، ان کے کئی سواساتذہ کےساتھ، مختلف یونیفارم زیب تن کئے، علاقے کے سب سے بڑے اسپورٹس گروانڈ انجمن آباد میں انجمن ڈے کے موقع پر ایک ساتھ دیکھنے کا اپنا ہی ایک عجیب لطف و سرور تھا۔ ہمارے پشتینی نانی دادی اماں جین عورتوں کے سجنے سنورنے والے جین کلچر سونے کے زیورات، “کپلپاٹی” ,”راخٹا چمخٹی” مختلف لڑیوں پر مشتمل “پوتلیا سر” کے طرح مختلف انجمن اسکولوں کے طلبہ و طالبات کا قطار در قطار میدان انجمن آباد، یوں کھڑا, انہیں دیکھ، ہمیں ہمارے اسلاف کےچمکتے زیورات مانند یہ ساڑھےچھ ہزار طلبہ طالبات کا یہ حسین سنگم لگا تھا۔

اسی کے دہے ہمارے ایام تلمیذ کلیہ کالج بعد,آج اپنے ہی بچپن کے کھیلے کودے اپنا پسینہ بہائے، اسپورٹس گراؤنڈ میں، مستقبل کے معمار قوم, آج کے ساڑھے چھ ہزار تلامیذ دید نے، بعد الموت گور جانب مستقل رہائش جانب خاموشی سے بڑھتے ہمارے قدموں میں، وہ جوش جوانی بھردی تھی کہ ہم اپنے آپ کو،آج کے ان ساڑھے چھ ہزار طلبہ میں کھوجتے پائے گئے تھے۔ کسی استاد میں ہمیں نظام سر کی تو, کسی میں شاہجہاں سر تو کسی میں پاشاہ سرکی، تو کسی میں، بھینڈے کٹے، گوڈیگار اور لطیف ماسٹر کی شبیہ نظر آرہی تھی۔ منتظم تقریب کی مائک پر گونجتی آواز، گو بار بار مخل ہو، ہمیں باد نسیم کے جھونکوں کے سہارے محو پرواز ماضی بعید، بچپن کے دلخوش کن یادوں کی سیر سے واپس،آج کےان تاریخی لمحات کو محفوظ ذہن کرنے، مکرر واپس بلائے,ہمیں ماضی و حال کے مسحور کن لمحات کا تقابل کروارہی تھی۔
انجمن کے ماتحت پروان چڑھ رہی تعلیمی آگہی نظام کو مختلف پندرہ اسکولوں کالجز پر مشتمل, ہر اسکول و کالجز کی جدا جدا سالانہ اسپورٹس و کلیکیولر ایکٹیوٹی پر مشتمل سالانہ تقاریب منعقد کئے جاتے تھے۔لیکن انجمن حامی المسلمین ہی میں پڑھی لکھی تربیت یافتہ نئی مجلس منتظمہ نے, اپنے جوان سال عہدیداروں کی سرپرستی میں پورے پندرہ اسکول و کالجز طلبہ طالبات کے لئے متحدہ مرد و نساء کے لئے جدا جدا سالانہ گیدرنگ انجمن ڈے کی حیثیت سے منانے کا اس سال سے جو وطیرہ اپنایا ہے حسن انتظام اور انجمن طلبہ سرپرستوں سمیت ارباب قوم کے لئے بھی اپنے نونہالوں کی تعلیمی سر گرمی دید بہترین انداز کرنے ممد لگتی ہے

اس سال انجمن ڈے پر ڈسٹرکٹ منسٹر منکل ویدیا کے ساتھ کرناٹکا اسمبلی اسپیکر یوٹی قادر, بیدر شاھیں ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کے روح رواں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب اور کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ کے پہلے مسلم وائس چانسلر ایم اے خان صاحب اور پڑوسی شیرور ساؤتھ کینرا گرین ویلی تعلیمی ادارے کے روح رواں محمد میراں منیگار صاحب کی شرکت نے , یوم انجمن پروگرام کو کامیاب تر بنایا ہے۔شاہین اسکول بیدر کے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے اپنی تقریر میں مرحوم صدیق جعفری علیہ الرحمہ کا تذکرہ کرتے ہوئے, انکے ساتھ بھٹکل آتے, انجمن حامی المسلمین کے دینی اقدار عصری تعلیم دیتے اسلوب کے پیش نظر, ان میں تعلیمی ادارہ اپنے یہاں قائم کرنے کی کسک پہلے اٹھنے والی بات کا اعتراف کرتے ہوئے,

انجمن کے ساتھ ملکر قوم و ملت کے نونہالوں کو نیٹ جیسے مرکزی تعلیمی کورسز میں یکتائیت حاصل کرواتے ہوئے, آئی اے ایس, آئی پی ایس والی مسلم کھیپ تیار کرنے کروانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یوم انجمن کے پہلےدن بعدنماز عصر مختلف انجمن اسکول و کالجز کے طلبہ کی طرف سے تفریحی پروگرام ڈرامے وغیرھم نے, شب گیارہ تک حاضرین اجلاس کو محو و مصروف رکھا تھا طلبہ کی طرف سے پیش کئے گئے مختلف ڈرامے نوجوان نسل کے ساتھ مسلم امہ میں بڑھتے موبائل مینیا سقم کی ہلاکت خیزی کی طرف توجہ جہاں مبذول کرائی گئی, وہیں قرون اولی کی اسلامی تاریخ عمربن عبدالعزیر علیہ الرحمہ کے خلیفہ وقت نامزد کئے جانے کے باوجود, اقتدار اعلی سے بے رغبتی نیز عوامی دباؤمیں اقتدار خلافت قبول کئے جانے

کے بعد, عدل و انصاف والی حکومت قائم کئے عملا” دکھاتی تاریخ اسلامی کی منظر کشی واقعی لائق دید تھی۔ وہ بھی ایسے پس منظر میں خود کو فقیر منش کہنے والے آج کے سنگھی حکمران, کیسے عوامی ٹیکس کروڑوں روپیوں سےاپنے تعیش پسندانہ کپڑوں سمیت رکھ رکھاؤ عیش پرستی میں اڑاتے ہم دیکھتے ہیں۔ حاکموں کی بھی بعد الموت خالق کائینات کے سامنے جواب دہی کا ڈر درشاتی خلیفہ المسلمین عمر بن العزیز کی زندگی کا نمونہ دکھانا یقینا” ہمارے نونہالان وطن کی پرورش پر مثبت اثرات ڈالتے ہم پائیں گے

اس قوم کو قیامت تک، اپنے قومی اعلی اقدار, زندہ جاوید رکھنے سے کون مانع رکھ سکتا ہے؟ جو قوم, خود اپنے بزرگوں کے اخلاق حمیدہ, اپنی اولاد میں ودیعت کرتے رہنے,اپنے جد امجد کےواقعات, انہیں سناتے اور اپنے تفریحی پروگرام ڈراموں میں درشاکر اپنے نونہالوں کے معصوم اذہان میں اپنے اسلاف کے اعلی اقدار ودیعت کرتے رہاکرتے ہیں۔

اس خوبصورت ڈرامائی انداز نے ہمیں پینتالیس سال قبل والے ہمارے ایام تلمیذ کلیہ سالانہ گیدرنگ کے مواقع پر, ہمارے لکھے اور پیش کئے گئے,دوبئی چو وھریت, گڑگڑی میراں , ونتی پائیں, ونتی کان, رائتہ چو پسولو, “ساٹو گلا کاٹو” جیسے مختلف معرکہ الآراء نائطی ڈراموں کے دور کی یاد تازہ کرگئی۔ وہ بھی کیا دن تھے؟ طلبہ انجمن کے سرپرستوں کے ساتھ معاشرے کے مرد و نساء صرف نائطی ڈرامہ دید کے لئے, مہینوں سے گیدرنگ کا انتظار کرتے پائے جاتے تھے۔ انجمن ڈے پروگرام دو دنوں پر محیط تھا پہلا دن مردآہن ہم سرپرستوں کے لئے تو دوسرے دن شام کے بعد والے تفریحی پروگرام صرف نساء کے لئے مختص تھے۔اسلئےاس پروگرام کے حسن انتظام کو ہم نے بنفس نفیس تو نہیں دیکھ پائے

لیکن اعزہ و اقرباء سے جو سنا وہ واقعی بھٹکل کی تاریخی نساء تقریب تھی۔ کم وبیش پانچ چھ ہزار طالبات اور ان کی نساء سرپرستان کے علاوہ اہل بھٹکل نساء کی بھی کثیر تعداد موجود تھی۔گو انجمن انتظامیہ کی طرف سے حاصرین مجلس کو وقفہ وقفہ سے اسنیک پانی مہیہ کروائے جاتے رہے تھے, لیکن انجمن ڈے کیمپیس میں موجود صرف ایک کینٹین ہزاروں کے مجمع کی خواہشات پوری کرنے سے اپنے آپ کو قاصر محسوس کرہی تھی۔ مستقبل میں اہسے مواقع پر عوامی سہلولت کے پیش نظر عوامی مجالس موقع پر, مینار بازار طرز اوپن فوڈ کورٹ تجارتی طرز لگوانے کا اہتمام ہوناچاہئیے۔اس سے علاقے میں ایسی کھان پان سروسز چلانے والی تاجروں کو انجمن کیمپس میں خدمات کا موقع دئیے جاتے,

ایک دوسرے کو سمجھنے پرکھنے کا موقع دئیے جاتے, بہترین سروس پرووائڈر کی مستقل خدمات انجمن کے لئے لی جاسکے۔ دراصل شہر بھٹکل نساء کو افلام بازی سمیت مختلف اقسام خرافات سے اللہ نے اب تک آمان میں رکھا ہوا ہے۔اس لئے شروع ہی سے انہیں اسکول ڈراموں میں پہنچنے کی طلب پائی جاتی ہے ہمیں لگتا ہے ہمارے زمانے کلیہ چالیس سال قبل والے نساء شرکت ریکارڈ نہ صرف ٹوٹ چکے ہیں بلکہ نائطی ڈرامے دید پہنچتی نساء تعداد نے, یوم انجمن نساء پروگرام حاضری سے, عکاقے کے ایسے عوامی پروگرام اپنے پرانے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں
دراصل معاشرے کی کمیوں خامیوں برائیوں کو خوبصورت انداز ڈراموں کی صورت پیش کئے جاتے, اصلاح معاشرہ کی سعی ایک حد تک کی جاتی تھی, نائطی ڈرامہ کلچر کو معاشرے میں دوبارہ زندہ کیا جانا چاہئیے۔
آج کے پیش کئے گئے تفریحی پروگرام کی آخری کڑی انسانی پیرامیڈ نہ صرف واقعی قابل دید تھا بلکہ عالمی سطح ہندستانی ٹی وی پر پیش کئے جانے والے متحیرالعقل پروگرام “انڈیا گوٹ ٹیلنٹ” میں دکھائے جانے لائق پروگرام ہے۔ بچوں کے پیرامیڈ پروگرام کی کلپ کسی بھی طریق “انڈیا گوڈ ٹیلنٹ” ٹی وی پروگرام منتظمین تک پہنچائی جائے تو انجمن طلبہ کو بھی نیشنل ٹی وی پر, اپنے جوھر دکھانے کا موقع حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس سال انجمن ڈے پر, مرد و نساء دونوں پروگرام میں سامعین کو آخر تک باندھے رکھنے کے لئے, خلیجی ممالک ہماری جماعتوں کی طرف سے شروع کی گئی بدعت حسنہ, لکی ڈرا نقد رقوم کی تقسیم بھی تھی ۔ چونکہ انجمن ہی کے ساڑھے چھ ہزار طلبہ طالبات ہیں

اور تربیت و حسن و انتظام کے لئے کئی سو اساتذہ و دیگر ملازمین کی ایک لامتناہی فوج مصروف عمل رہتی ہے اس لئے رافل ڈرا طلبہ, اسٹاف اور مہمانوں پر مشتمل تین سیگمنٹ کئے کمپیوٹر لکی ڈرا کے ذریعے فی انعام دس دس ہزار روپیوں پر مشتمل دو لاکھ روپیئے انعام میں تقسیم کئے تھے
بچوں کے ڈراموں میں ایک ڈرامہ شہر میں کئی ایک اقسام کی تعلیم کا بہترین انداز انتظام رہتے ہوئے بھی, بعض متوسط آل کی بچے, اپنے والدین کو, اپنے ادارے کی تعلیم, غیرمعیاری بتائےاور پیش کئے, انہیں مناتے ہوئے,

اعلی تعلیم کے لئے شہروں کی طرف رخ کرتے پائے جاتے ہیں اور ان بچوں کے والدین اپنی اولاد کی محبت و الفت میں, قومی ادارے انجمن کے تعلیمی معیار پر اٹھتے سوالات کا انجمن مینجمنٹ سے مل کر حل تلاش کرنے کے بجائے, اپنی اولاد کے کہے پر اعتبار کئے, اپنے قومی اداروں کو گھر کی مرغی دال برابر تصور کئےانہیں شہروں میں تعلیم کے لئے بھیج دیتے پائے جاتے ہیں۔ اعلی تعلیم کے کچھ کورسز انجمن میں فقدان کی صورت, شہروں میں اپنے لاڈلوں کو جانے کی اجازت دینا تو سمجھ میں آتا ہے, لیکن جو کورسز انجمن میں ہیں,

اس کورسز کے لئےبچوں کو دوسرے شہروں میں بھیجنا, کیا کفران نعمت کے زمرے والا ہمارا عمل تو نہیں ہے؟ رہی بات انجمن کے معیار تعلیم کی, آج ہی کے انجمن ڈے تقریب دوران نونہالان انجمن کو جو اعزازات دئیے گئے ہیں ان پر ایک نظر سنجیدگی سے ڈالیں تو اپنی نونہال وطن کے, تعلیمی و کھیل میدان یونیورسزتی ریکارڈ قائم کرتے پس منظر میں, اپنےانجمن میں دئیے جانے والی تعلیم کا اسٹینڈرڈ صوبے کے دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے کتنا اچھا ہے, دور کے ڈھول سہانے سمجھنے والوں کو معلوم ہو جائیگا۔ ویسے بھی قوم و معاشرہ کو درکار تعلیم انہیں مہیہ کروانے کی اپنے طور انجمن پوری کوشش کرتی پائی جاتی ہے۔آج کے یوم انجمن میں عنقریب بھٹکلی طلبہ و طالبات کے لئے پیرامیڈیکل اور میڈیکل تعلیم انتظام و اہتمام کی بات کھل کر سامنے آچکی ہے اس ضمن میں قوم کو بہت جلد نوید نؤ ملتی ہم پائیں گے۔انشاءاللہ

آج کی اس پروقار تقریب میں کئی ایک پہلو واقعتا” نہ بھولے جانے والے ہیں اولا” ہزار دشمنان انجمن، موقع موقع سے، بہانے بہانے، انجمن کو بدنام و رسوا کرنے کی کوشش کرتے رہیں، لیکن ساڑھے چھ ہزار نونہالان قوم کو عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیوستہ کرتے ہوئے بھی، ان میں حامی المسلمین والے ہمارے اپنے بانیان انجمن کی، تڑپ و قربانیوں کی کسک ودیعت کرنا, کسی مہم جوئی سے کم کارنامہ تھوڑی نا ہے؟ اس انگرئز سامراج دوران بین الڈسٹرکٹ کے پہلے سند یافتہ گریجویٹ,مسند اعلی براجمان ہونے پر، ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کی فرنگی حکومتی پیش کش کو درکنار کر، حکم وحی اولی نبی آخرالزماں “اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ” “پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا”، (اس پہلے حکم تحکمی کے بعد کیا پڑھنے کا اصل حکم ربانی ہے؟)

“انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے” اصل میں علوم، سائینس جغرافیہ، علم ارض و سماوات بحر و جبل، صحراء و غابات، ماہ وانجم و جمیع مخلوقات، جن علوم آگہی ہی کی بدولت، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین و سلف و صالحین نے ابتدائی ایام رسالت مآب سے، سکوت غرناطہ اسپین و بغداد تک اور جزوی طور سکوت استنبول ترکیہ تک، ان تیرہ سو سالہ اسلامی سلطنت سے انسانیت کو مستفید کروانے ہی کے لئے۔ اور دیار غیر، فرنگی یورپ ہسپانیہ اسپین 711ع لنگر انداز اپنے واپسی سفر کے امکانات کو ختم کرتے، اپنی ہی کشتیوں کا جلا ڈالنے کی ہمت و توانائی و توکل بخشتے ہوئے،

ان عاشقان خاتم الانبیاء نے دریاؤں پر گھوڑے دوڑاتے ہوئے، تین چوتھائی عالم انسانیت پر حکمرانی دین اسلام قائم کرلی تھی۔اور سکوت اندلس و بغداد بعد ان فرنگی انگریز حکمرانوں کے تیغ و تلوار نوک پردئیے حکم پر، عمل پیرا ہم والیاں اسلام، علماء کرام نے،سابقہ تینبچار صدیوں تک “طلب العلم فريضة على كل مسلم” کی تعبیر دو مختلف نظریات پر قائم کئے، ہم عاشقان علوم عصر حاضر مسلم امہ کے لئے، “حصول علم عصر حاضر” نہ صرف غیر ضروری بالکہ ملحدانہ سوچ کاغماز بتائے ہوئے،اور دینی علوم کا حصول ہی فرض عین بتاتے ہوئے

ہم مسلم طالبان علم و عرفاں کو مسجدوں درگاہوں کی چار دیواروں میں مقید مدرسوں تک محدود جو کردیا تھا۔ گو آج شہادت جامع بابری مسجد بعد والے ھندو سنگھی ذہنیت غلباتی پس منظر نے، دوبارہ مسلم امہ میں حصول علم عصر حاضر کی اہمیت کو اجاگر کردیا ہے لیکن فی زمانہ بھی جید علماء کرام میں، اب بھی وہی اسیری فرنگی سوچ، کچھ حد تک باقی ہےجو انہیں، آج بھی حصول علوم عصر حاضر, اولاد مسلم امہ کو, ہزاروں کے مجمع میں، ببانگ دہل “ولدالحرام” اور “بنت الحرام” کہنے کی جرات و ہمت بخشتا ہے۔ وقفہ وقفہ سے والیاں علم و عرفان دین اسلام کی 180 ڈگری بدلتی سوچ، معراج سفر دوران نار جہنم میں جلتے والیاں دین کی کثرت کو اجاگر کیا کرتی ہے

آج 2025 اس اختتامی ماہ میں ساڑھے چھ ہزار طلبہ و طالبات پر مشتمل نونہالان قوم و ملت کا یہ ادارہ ا انجمن حامی المسلمین,اس سفر صد سال بعد، اپنی تعلیمی آگہی سفرصرف آل بھٹکل سے پرے قرب و جوار بین الڈسٹرکٹ اپنی تعلیمی آگہی مشن لیجاتے ہوئے، مشن آگہی تعلیم تقریبا” جنوب ھند کے تمام تر علاقوں میں اس کے استفادہ کے مواقع پیدا کرتے ہوئے، انجمن حامی المسلمین بھٹکل کو,جنوب ھند کے علیگڑھ ثانی کے طور منارہ علم عرفان اس شمع کی کرنیں پہنچانے پہنچوانے لائق بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے اراکین انجمن کی ایک ٹیم قرب و جوار کے گاؤں دیہات قریات شہر گھوم گھوم کر انجمن تعارفی اجلاس منعقد کئے جاتے،

وہاں وہاں مقامی تعلیمی ابتدائی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اعلی تعلیم کے لئے انہیں بھٹکل انجمن حامی المسلمین کی طرف ملتفت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف قرب و جوار کی امت مسلمہ پر اعلی تعلیمی مراکز قیام کا بوجھ نہ پڑنے دیتے ہوئے، انہیں بھٹکل انجمن حامی المسلمین کے اعلی تعلیمی کورسز میں داخلہ دلوائے, انہیں یہاں بھٹکل کے دینی ماحول سکونت پزیری کے مواقع دیتے ہوئے، انکے نونہالوں کے لئے، اعلی تعلیم حصول کو آسان بنایا جائے تو, دوسری طرف اعلی تعلیم حصول اتنے بہترین مواقع والے انجمن حامی المسلمین کے مختلف کورسز تعلیمی مراکز کو طلبہ کے فراوانی جاری و ساری رکھنے کا مناسب انتظام و بندوبست بھی کیا جاسکے۔ امید ہے

سرمایہ دارانہ سوچ والے قوم آل نائطہ کے بہت بڑے سرمایہ دار کی سرپرستی میں انجمن حامی المسلمین کے ہم منتظمین, اس سمت تفکر تو تدبر,عملی کوشش کے ساتھ بھٹکل کو اعلی تعلیم یافتگان کا ایک منبع بنائے,جیسا ہم پورے جنوب ھند کے مسلم امہ کو بھی اپنے ساتھ اعلی تعلیم حصول میں ترقی کرواسکیں گے۔یہ دور جدید جو کنواں کھود پانی پینے والے وطیرے کو بہت پیچھے چھوڑ “سب کا ساتھ سب کا وکاس” والے وطیرے پر عمل پیرا پایا جاتا ہے۔ یہ اوربات ہے, اس “سب کا ساتھ سب کا وکاس” کا نعرہ دینے والوں نے, سب کا ساتھ اور صرف سنگھی گجراتیوں کے وکاس ہی پر نظریں مرکوز کئے ہوئے ہے

۔لیکن ہم مسلمان تو,اپنے رب کائینات کے حکم قرآنی پر عمل پیرا,بنی نوع انسانیت کا خیال رکھتے ہوئے, اصلا” سب کا ساتھ سب کا وکاس والے جملہ باز کے قول پر عمل پیرا ہونے والوں میں سے ہیں۔ یہ اس لئے بھی کہ ہمارے خاتم الانبیاء اور بھارتیہ سناتن دھرمی ھندؤں کےویدک پیشین گوئی مطابق کلکی اوتار محمد مصطفیﷺ کے قول وہدانت مطابق, “شیطان رحیم یا شیطان صفت لوگوں کی طرف سے بتائی گئی اچھی ہدایات عمل آوری کرنی چاہئیے” ہم سب کا ساتھ سب کا وکاس والی بات پر ازل ہی سےعمل پیرا ہیں۔جنوب ھند کی مسلم امہ کی تعلیمی ترقی پزیری کے لئے ہم مخلصانہ جہد کرتے پائے جائیں گے۔انشاءاللہ وما لتوفیق الا باللہ

حیدرآباد میں منعقدہ آل انڈیا مسابقۂ حفظِ قرآن میں بھٹکل انجمن کی طالبہ حافظہ کا شاندار مظاہرہ؛ 167 حافظات میں دوسرا مقام

حیدرآباد میں دارالقرأت الحسنین مغل پورہ (منسلک دارالقرأت الباسطیہ، قدیم ملک پیٹ) کی جانب سے منعقدہ دو روزہ دوسرے آل انڈیا مسابقۂ حفظِ قرآن مجید میں پہلا مقام ریاستِ کیرالہ کے کولم کی حسنیٰ فاطمہ بنت نجم الدین نےتو بھٹکل انجمن حامی المسلمین کے ماتحت چلنے والے “انجمن آزاد پرائمری اسکول” کی طالبہ نورا قاضیا بنت محمد شعیب قاضیا نے شاندار پرفارمینس پیش کرتے ہوئے دوسرا مقام حاصل کیا ہے۔

انجمن بوائز ہائی اسکول، بھٹکل کے لیے ایک قابل فخر لمحہ
بہت خوشی کے ساتھ، ہم یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے طلباء نے علی پبلک پری یونیورسٹی کالج، بھٹکل کے زیر اہتمام انسپیرا 2025 میں حصہ لیا اور شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔

یہ انٹر اسکول فیسٹ ایک اور پلیٹ فارم بن گیا جہاں انجمن بوائز ہائی اسکول (ABHS) کا ٹیلنٹ اور محنت چمک اٹھی۔

ہمارے لڑکوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں, وہ اعتماد، ہمت اور کمال کے ساتھ اپنی قابلیت صلاحیت پیش کرتے ہیں۔ الحمدللہ، انہوں نے متعدد ایوارڈز جیتے اور ہمارے ادارے کا سر فخر سے بلند کیا۔
الحمدللہ، ہمارے طالب علموں نے بہت سے ایوارڈز جیتے اور فیسٹیول میں ٹاپ پرفارمرز کے طور پر نمایاں رہے۔

ہم تمام جیتنے والوں اور شرکاء کو ان کی شاندار کوششوں کے لیے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے طلباء کو ہر بری نظر سے محفوظ رکھے اور ان کو مزید بلندیوں تک پہنچائے۔ آمین

انجمن حامی المسلمین اپنے اسلاف کے دینی و عصری تعلیمی مشن پر مصروف عمل

جو قوم خود اپنے بزرگوں کے اخلاق حمیدہ, اپنی اولاد میں ودیعت کرتے رہنے,اپنے جد امجد کےواقعات, انہیں سناتے اور اپنے تفریحی پروگرام ڈراموں میں اسے درشاکر, اپنے نونہالوں کے معصوم اذہان میں اپنے اسلاف کے اعلی اقدار ودیعت کرتے رہا کرتے ہیں۔ اس قوم کو قیامت تک، اپنے قومی اعلی اقدار, زندہ جاوید رکھنے سے کون مانع رکھ سکتا ہے؟

اپنے تعلیمی ادارے انجمن ڈے تفریحی پروگرام میں, اسکولی بچوں کی طرف سے,قرون اولی کی اسلامی تاریخ,خلیفہ پنجم مشہور, عمر بن عبدالعزیر علیہ الرحمہ کے,خلیفہ سلیمان کی حیات ہی میں خلیفہ نامزد کئے جانے کے باوجود, اقتدار اعلی سے بے رغبتی,نیز عوامی دباؤ میں اقتدار خلافت، قبول کئے جانے کے بعد, عدل و انصاف والی حکومت قائم کئے, عملا” دکھاتی تاریخ اسلامی کی منظرکشی واقعی لائق دید تھی۔ وہ بھی ایسے پس منظر میں خود کو فقیر منش کہنے والے آج کے حکمران, کیسے عوامی ٹیکس کروڑوں روپیوں سے,اپنے تعیش پسندانہ کپڑوں سمیت رکھ رکھاؤ, عیش پرستی میں اڑاتے ہم دیکھتے ہیں

خلیفہ عمر بن عبدالعزیر, امیر معاویہ کے بھتیجے کے بیٹے پڑپوتے تھے اور خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کی بیٹی سے پڑپوتے تھے۔سلیمان بن ملک نے جب انہیں مدینہ منورہ کا گورنر بنایا تھا انہوں نے اس شرط پر گورنری قبول کی تھی کہ بحکم خلیفہ سلیمان بن ملک انہیں مدینہ کے عوام پر ظلم و جبر کرنے نہ کہا جائے گا
خلیفہ سلیمان کی آخری بیماری میں اس سراپا عدل وانصاف کے پیکر کو شک ہوا کہ وہ کہیں آپ کو اپنا نائب اور جانشین نہ مقرر کردے؛ چنانچہ افتاں وخیزاں وزیر اعظم ”رجاہ بن حیوة“ کے پاس تشریف لے گئے اور یوں گویا ہوئے:”مجھے خطرہ ہے کہ خلیفہ سلیمان نے کہیں میرے حق میں وصیت نہ کردی ہو؛ لہٰذا اگر اس نے وصیت کی ہوگی، تو آپ کے علم میں تو ضرور ہوگا، آپ مجھ کو بتادیں تاکہ میں استعفی دے کر پہلے ہی سبکدوش ہوجاؤں اور وہ اپنی حیات میں ہی کوئی دوسرا انتظام کرجائیں“ رجاہ بن حیوة نے وصیت کے بارے میں۔جانتے ہوئے بھی اس وقت آپ کو ٹال دیا؛ مگر جب وصیت نامہ منصہ شہود پر آیا، تو آپ کا خطرہ بالکل درست ثابت ہوا، اس وقت خلیفہ سلیمان دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، اس واسطے آپ نے عام مسلمانوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! میری خواہش اور تمہارے استصواب کے بغیر مجھے خلیفہ بنایا گیا ہے، میں تمہیں اپنی بیعت سے خودہی آزاد کرتا ہوں تم جسے چاہو اپنا خلیفہ چن لو“ یہ سن کر مجمع سے بالاتفاق آواز آئی ”یا امیرَالمومنین! ہمارے خلیفہ آپ ہی ہیں“ آپ نے ارشاد فرمایا: ”صرف اس وقت تک خلیفہ ہوں جب تک کہ میں اطاعت الٰہی کی حد سے باہر قدم نہ رکھوں“
خلیفہ پنجم عمر بن عبدالعزیز کی ایمان افروز حقیقی واقعات

اس گفتگوکے بعد شاہی سواریاں پیش کی گئیں؛ تاکہ آپ محل شاہی میں تشریف لے جائیں، آپ نے ارشاد فرمایا: ”انھیں واپس لے جاؤ! میری سواری کے لیے میرا خچر کافی ہے، جب علماء نے ممبر پر حسب رواج آپ کا نام لیا اور درود و سلام بھیجا، تو آپ نے فرمایا: ”میرے بجائے سب مسلمان بندوں میں مردوں اور عورتوں کے لیے دعاء کرو اگر میں بھی مسلمان ہوں گا، تو یہ دعاء مجھے بھی خود بخود پہنچ جائے گی۔ ان تمام کارروائیوں کے مکمل ہونے کے بعد آپ اداس چہرے، حیران آنکھوں اور اڑے ہوئے رنگ کے ساتھ گھر آئے، لونڈی نے دیکھتے ہی کہا: ”آپ آج اس قدر پریشان کیوں ہیں؟“ فرمایا: ”آج مجھ پر فرض عائد کیاگیا ہے کہ میں ہر مسلمان کا بغیر اس کے مطالبہ کے حق ادا کروں، آج میں مشرق ومغرب کے ہر یتیم ومسکین کا اورہر بیوہ ومسافر کا جواب دہ بنایاگیا ہوں، پھر مجھ سے زیادہ قابل رحم اور کون ہوسکتا ہے۔ پھر اپنی بیوی فاطمہ سے جو کہ خلیفہ عبدالملک کی نورِ نظر تھیں

ارشاد فرمایا: ”اپنا وہ بیش قیمت جواہر و زیورات جو تمہیں خلیفہ عبدالملک نے دیا تھا، بیت المال میں داخل کردو، یا مجھ سے اپنا تعلق ختم کرلو۔ یہ سن کر باوفا سیرچشم بیوی اٹھیں اور اپنے جواہرات کو بیت المال میں بھیج دیا، جب دامن پاک اور گھر صاف ہوچکا، تو آپ اہل خاندان کی طرف متوجہ ہوئے اور یزید اور معاویہ تک کے وارثوں کو ایک ایک کرکے پکڑا اور تمام غصب شدہ جائیداد اور اموال اصل وارثوں کو واپس کردیے، مال ودولت اس کثرت سے واپس ہوا کہ حکومتِ عراق کا خزانہ خالی ہوگیااور اخراجات کے لیے دمشق سے وہاں روپیہ بھیجا گیا، بعض خیرخواہوں نے کہا: ”یاامیرَالمومنین! آپ اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑدیں

“ تو ارشاد فرمایا: ”میں انھیں اللہ کے سپُرد کرتا ہوں“۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے گھر والوں کے روزینے بند کردیے، جب انھوں نے تقاضا کیاتو فرمایا: ”میرے اپنے پاس کوئی مال نہیں ہے اور بیت المال میں تمہارا حق بھی اسی قدر ہے جتنا کہ اس مسلمان کا جو سلطنت کے آخری کنارے پر آباد ہے، پھر میں تمہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ کس طرح دے سکتا ہوں؟ خدا کی قسم اگر ساری دنیا بھی تمہاری ہم خیال ہوجائے تو پھر بھی میں نہیں دوں گا۔
حاکموں کی بھی بعد الموت خالق کائینات کے سامنے جواب دہی کا ڈر درشاتی خلیفہ المسلمین عمر بن العزیز کی زندگی کا نمونہ انجمن طلبہ کیطرف سے دکھایاجانا یقینا” مستقبل کے ہمارے نونہالان وطن کی پرورش پر مثبت اثرات ڈالتے ہم پائیں گے۔
1992 بابری مسجد شہادت بعد,گو مسلم امہ ھند میں عصری تعلیم حصول کی رغبت بہت بڑھ گئی ہے ہندستان کے کونے کونے میں نہ صرف اعلی تعلیم درسگاہیں کھل رہی ہیں بالکہ کل تک عصری علوم کو ملحانہ سوچ کا غماز بتانے والے علماء کرام نے بھی 180ڈگری پلٹی مار, دینی علوم اثاث والے عصری تعلیمی درسگاہیں قائم کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ بے شک اللہ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے بخوبی لے ہی لیتا ہے۔ ہم 30 کروڑ مسلمانان ھند کی اولین سوچ, صرف اور صرف اپنی اولاد کو دینی اقدار اعلی عصری تعلیم دلوانے کی ہونی چاہئیے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہر دیہات قریات اور محلوں محلوں میں ابتدائی عصری تعلیمی درسگاہیں کھولی جانی چاہئیے اور پھر ان کے مرکز میں اعلی تعلیمی مرکز قائم کئے قرب و جوار کے ثانویہ تک کامیاب طلبہ کو اعلی تعلیم دلوانے کا انرظام کیا جانا چاہئیے۔وماالتوفیق الا باللہ

Exit mobile version