Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

ہم آہنگی اور یکجہتی کا تقاضا !

کرپشن کے خاتمے کا عزم !

ہم آہنگی اور یکجہتی کا تقاضا !

مسلم لیگ (ن) قیادت کے ضمنی الیکشن کا خالی میدان مار لینے کے بعد پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے سے میاں نواز شریف بھی گوشۂ تنہائی میں خاموش بیٹھے رہے ، اس دوران سب کا ہی خیال تھا کہ اس نعمت کی بدولت گئے دنوں کا حساب کتاب اور اپنا محاسبہ بھی کررہے ہوں گے، مگر یہ سب کی ہی خوش فہمی یا خام خیالی تھی ،میاں نواز شریف نے اچانک ایک ایسا غیر متوقع بیان دیے دیا

کہ جس نے سب کو ہی چونکا دیا ہے ،میا نواشر یف کا کہنا ہے کہ عمران خان کو لانے والے بڑے مجرم ہیں‘ اُن کا احتساب ہونا چاہیے، واقعی احتساب تو ہونا چاہیے ،مگر صرف عمران خان کو لانے والوں کا نہیں، اگلے پچھلے سب کا ہی حساب ہونا چاہئے ،تا کہ سب کا ہی پتہ چل جائے کہ کون کس کے سہارے بار بار آتا رہا ہے؟
اس ملک میں کوئی سہارے کے بغیر آیا ہے نہ ہی سہارے کے بغیر چلا ہے ، یہاں سارے ہی سہاروں پر آتے اور سہاروں کے بغیر جاتے رہے ہیں ،اس لیے کسی سہارے پر ضمنی الیکشن جیت کر اتنا اترانا چاہئے نہ ہی خود استثنیٰ لے کر دوسروں کے احتساب کی باتیں کرنی چاہئے ، اگر احتساب کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اپنی باروں کا حساب کتاب دیے دیں ،اس کے بعد دوسروں کی بھی باری آجائے گی ، لیکن یہ ہمیشہ ہی اپنے مخالفین کے احتساب سے شروع کر نے کی بات کرتے ہیں تو چلیں،اُن سے ہی آغاز لر لیں

،آپکی ہی حکو مت ہے اور بقول میاں شہباز شریف اور مر یم نواز با اختیار حکو مت ہے تو دیر کس بات کی ہے اور کون روک رہا ہے ؟ آپ کے مطالبے سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ اپنی ہی پشت پناہی کر نے والوں سے مطا لبہ کر رہے ہیں اور سب کو بتا رہے کہ اپ کتنے بے اختیار ہیں کہ جو کچھ کر نا چاہتے ہیں ، وہ کر ہی نہیں پارہے ہیں۔
ایک طرف وزارت عظمیٰ نہ ملنے پر میاں نواز شریف ناراض نظر آتے ہیں تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمان بڑی دھوم دھام سے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کے بعد27ویں ترمیم مسترد کررہے ہیں، جبکہ27ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہو کر آئین کا حصہ بن چکی ہے‘

اب اسے چاہے کوئی مسترد کرے یا قبول‘ اس سے ترمیم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کیخلاف جس کسی نے سخت پاپڑ بیلے ، وہ بھی اب صبر شکر کرکے خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں، اس وقت سیاسی میدان میں مولانا اور میاں نواز شریف کی حیثیت اس کمزور گھوڑے کی سی نظر آرہی ہے، جو کہ ریس میں شامل تو ہوتا ہے، مگر اسکی ہار یا جیت پر کوئی پیسہ نہیں لگاتاہے،اس پراب لب کشائی سے گریز ہی کرنا چاہیے، کیو نکہ اب ایسے بیانات سے کچھ ہونے والا نہیں‘ سانپ گزر چکا‘ اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے،اب جو کچھ مل چکا ہے یا جوکچھ دیا جارہا ہے ،اس پر ہی صبر شکر کرکے گزارا کر نا پڑے گا
یہ وقت بڑکیں مارنے کا نہیں ، گوشہ تنہائی میں بیٹھے رہنے اور انتظار کر نے کا ہے،اگر کوئی کھڑاک 27ویں ترمیم کے حوالے سے کرنا چاہتا ہے تووہ 28ویں ترمیم کے آنے پر اپنی دھماچوکڑی مچا سکتا ہے،لیکن اس کی حکومت کی طرف سے تردید آچکی ہے ، ‘ اس لئے مولانا کا کھڑاک ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ،مولانا صاحب ایک بار پھر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے سیاسی رنڈوے ہو گئے ہیں، اس لیے بہتر ہو گا

کہ مولانا اسی طرح گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر سیاسی کٹھ پتلیوں کا تماشا دیکھتے رہیں‘ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں‘ جب کبھی سیاسی لوہا گرم ہونے لگے تو ایسی ضرب لگائیں کہ انہیں موجودہ سسٹم میں حصہ بقدر جثہ نہ سہی‘ کچھ نہ کچھ حصہ ضرور مل جائے، تاکہ ان کا سلسلہ ہائے راز و نیاز ویسے ہی چلتا رہے، جیساکہ اس سے پہلے چلتا رہا ہے۔
اس ضمنی الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن)کی سیاست میں جہاں تھوڑی سے جان پڑی ہے ،وہیں پی ٹی آئی کو بھی اپنے انداز سیاست پر نظرثانی کرنے کا خیال آہی گیا ہے ‘ اگر پی ٹی آئی اپنی سیاسی ادائوں پر پہلے ہی غور کرلیتی تو شاید آج اسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، مگر بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو کہ پہلی ٹھوکر پر ہی سنبھل جاتے ہیں،

بعض باربار کی ٹھوکروں سے بھی نہیں سنبھل پاتے ہیں‘ اگر پی ٹی آئی نے اب بھی اپنی حکمت عملی پر غور کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ ملک کیلئے تو معلوم نہیں‘ البتہ اس کے اپنے لئے ضرور بہتر ہو سکتا ہے ،یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ سسٹم میں رہ کر سسٹم کی اصلاح کی جائے‘ یہ نہیں کہ اپنے تحفظات پر ڈنڈا ہاتھ میں اٹھا لیا جائے یا سڑکوں پر نکل کر افراتفری پھیلائی جائے یا سسٹم سے نکل کر قومی اداروں کو رگیدنا شروع کر دیا جائے‘ افراتفری‘ اودھم مچانے اور جلائو گھیرائو کی سیاست سے آج تک کسی پارٹی کو فائدہ نہیں پہنچا‘ ایسی سیاست سے ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس سے پی ٹی آئی دوچار ہے۔
اگر ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو یہ خوش آئند امر ہے‘ پی ٹی آئی قیادت کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس نے جو کچھ بھی کرنا ہے‘ اس سسٹم میں رہ کر ہی کرنا ہے، اس سے باہر رہ کر نہ قومی سیاست میں کوئی کردار ادا کر پائے گی نہ ہی اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی،اس طرح ہی میاں نواز شریف کو بھی مان لینا چاہئے کہ ان کا وقت گزرچکا ہے

، اس ہائبرڈ نظام میں انکی کوئی جگہ ہے نہ ہی اُن کی بڑکیں اور بیانات کسی پر اثر انداز ہورہے ہیں ،یہ وقت ایک دوسرے کو گرانے ،دیوار سے لگانے اور احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنانے کا نہیں ،بلکہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کوفروغ دینے کا ہے ،اس وقت جو قومیں اپنے اندر سے مضبوط نہیں ہوں گی ، وہ ففتھ جنریشن وار کا کبھی مقابلہ کر پائیں گی،نہ ہی ا ٓگے بڑھ پائیں گی۔

Exit mobile version